بی بی للن اور این ڈی کلن

این ڈی کلن نے بی بی للن سے پوچھا یار تم لوگ اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو؟
للن ہنس کر بولا بھیا ہم لوگ تو اپنے آپ کو وہی سمجھتے ہیں جو ہم ہیں ؟
چلو میں اپنا سوال درست کرلیتا ہوں ۔ اچھا تو یہ بتاو کہ آخر آپ لوگ کیا ہیں؟
للن کا قہقہہ بلند ہوا ۔ اس نے جواب دیا ہم لوگ وہی ہیں جو اپنے آپ کو سمجھتے ہیں۔
کلن چکرا گیا۔ اس نے پوچھا ہاں بھیا میں یہ جانتا ہوں لیکن پوچھ رہا ہوں کہ تم کیا ہو جو اپنے آپ کو سمجھتے ہو۔
بھیا کلن ہم وہی ہیں جو آپ ہیں ۔ہم سب کا تعلق ایک ہی برادری سے ہے؟
لیکن وہ کون سی برادری ہے؟
وہی معتوبِ زمانہ صحافیوں کا طبقہ ؟’ ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے‘ ۔
کلن بولا اتنی آسان سی بات کو تم نے اس قدر گھما پھرا کر کہا۔ اگر پہلے ہی یہ کہہ دیتے تو اتنا وقت کیوں ضائع ہوتا۔
بھائی دیکھو اگر ہم سیدھی سادی باتیں کرنے لگیں تو نہ کو ئی ہمارا شو دیکھے گا اور نہ مضمون پڑھے گا۔ قارئین کو لبھانے کی خاطر یہ سب کرنا پڑتا ہے ۔
ارے بھیا میں تو نہ تو تمہارا ناظر اور نہ قاری۔ کم ازکم اپنے پیشہ دوست سے تو سیدھی باتیں کیا کرو۔
للن بولا کیا کروں بھیا دن رات کھیل تماشا کرتے کرتے عادت سی ہوگئی ہے۔ دوست تو دور بیوی بچوں کے ساتھ بھی ازخود یہی ہونے لگتا ہے۔
تب تو وہ لوگ بھی بور ہوتے ہوں گے؟
جی ہاں ہوتے ہیں تو اپنی بلا سے ۔ ہمیں کیا فرق پڑتا ہے؟
فرق کیوں نہیں پڑتا۔ قارئین اور ناظرین کے ساتھ ہمارا تعلق بی بی سی یا این ڈی ٹی وی کے حوالے سے ہوتا لیکن اہل خانہ سے براہِ راست رشتہ ہے۔
ویسے ایک بات بولوں ناظرین ابتداء میں تو ادارے کے ہوتے ہیں لیکن پھر ان سے ایک نجی تعلق بھی قائم ہو جاتا ہے ۔
کلن نے حیرت سے پوچھا نجی تعلق والی بات سمجھ میں نہیں آئی ۔
یہی کہ ہم سب ایک بڑے خاندان کے ارکان بن جاتے ہیں۔ اور جب ہم اپنا چینل یا اخبار بدلتے ہیں تو وہ بھی ہمارے ساتھ چل پڑتے ہیں۔
ہاں بھیا لیکن ہر کوئی رویش کمار تھوڑی نا ہوتا ہے؟
جی ہاں لیکن رویش کمار جیسے صحافی بھی تو آسمان سے نہیں ٹپکتے ۔ وہ بھی ہم جیسے گوشت پوست کے انسان ہوتے ہیں۔
چلو مان لیا لیکن ان میں اور ہم میں بہت بڑا فرق ہے۔
للن بولا جی ہاں یہ فرق ایسا ہی ہے جیسے بی بی سی اور این ڈی ٹی وی میں ہے۔
یہ سن کر کلن کو اپنے ابتدائی سوال پر لوٹ آیا ۔ وہ بولا وہی تو میں پوچھنا چاہتا تھاکہ بی بی سی اور این ڈی ٹی وی میں کیا فرق ہے؟
بھائی ایسا ہے کہ تم کیا پوچھنا چاہتے تھے یہ تو میں نہیں جانتا کہ لیکن کیا پوچھا تھا وہ میں نے سنا ۔
اچھا تو کیا میں نے یہ نہیں پوچھا تھا ؟
جی نہیں ۔ تم نے پوچھا تھا کہ ہم لوگ آخر اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں؟ اور مجھے بھی تھوڑی بہت اردو آتی ہے۔ میں اس کا مطلب سمجھ سکتا ہوں ؟
خیر اب پھر سے بات کا بتنگڑ بنانے کے بجائے یہ بتاو کہ ہم دونوں میں کیا فرق ہے؟
للن بولافرق یہ ہے کہ پہلے ہم دونوں آزاد میڈیا تھےلیکن اب تم گودی میڈیا کا حصہ بن گئے ہو۔
اچھا لاگر ایسا ہے تو ہم لوگ کیا نہیں کرسکتے جو تم کرسکتے ہو؟
سیدھی بات ہے تم لوگ مودی اور گجرات فساد پر دستاویزی فلم نہیں بناسکتے لیکن ہم نے تو بناکر نشر بھی کردی ۔ یہی کیا کم ہے؟
ہاں یار لیکن یہ بتاو کہ تم لوگوں نے اس کو نشر کرنے میں اس قدر تاخیر کیوں کی؟ ہمت ہوتی تو اسی وقت نشر کردیتے۔
بھائی ایسا ہے کہ اس وقت تو مودی محض ایک وزیر اعلیٰ تھے اس لیے کون سی مشکل تھی لیکن جرأت کا مظاہرہ تو اب کیا گیا ہے۔
ہاں یہ تو ہے لیکن پھر بھی یہ تو بتانا پڑے گا کہ اس وقت یہ فلم کیوں نہیں نشر ہوئی ؟
بھیا اس سوال کا جواب تو سابق وزیر خارجہ جیک اسٹرا دے چکے ہیں کہ باہمی تعلقات کو بگڑنے سے بچانے کے لیے یہ کیا گیا۔
اچھا تو اس وقت جو سفارتی تعلقا ت اہم تھے وہ اچانک غیر اہم کیوں ہوگئے ؟
اس لیے کہ اٹل جی ایک باوقار اور سمجھدار وزیر اعظم تھے ان کی خارجہ پالیسی وضح تھی جبکہ مودی جی کنفیوژن ہیں ۔
کلن نے پوچھا یارکنفیوژن والی بات سمجھ میں نہیں آئی؟
بھائی مودی سرکارکی بابت یہی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کس کے ساتھ اور کس کے مخالف ہیںَ۔ اس لیے ان پر کوئی اعتماد نہیں کرتا ۔
یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟
بھئی دیکھو چین کےخلاف مودی سرکارامریکہ کی حلیف ہے مگر یوکرین کے باوجود روس کے ساتھ ہے ۔ اس لیے ’نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ‘۔
کلن نے کہا لیکن بھیا سمجھتے کیوں نہیں سستا خام تیل لینے کی خاطر یہ کرنا پڑا۔
چلو مان لیا لیکن اس کا فائدہ عوام کو ملا ہی نہیں ۔ انہیں تو مہنگی قیمت پر پٹرول خریدنا پڑرہا ہے۔ مودی جی کس کو بیوقوف بنا رہے ہیں؟
لیکن یار رشی سونک جیسے ہندو وزیر اعظم کے ہوتے برطانیہ ہندوستان کو اہمیت نہیں دیتا تعجب ہے۔
دیکھو کلن اتنا یاد رکھو کہ رشی سونک پہلے برطانوی ہے پھر ہندو ہے۔
یہ پہلے اور بعد والی منطق میری سمجھ میں کبھی نہیں آئی یعنی انسان باپ پہلے ہے یا بیٹا ۔
اس میں سمجھنے کی کیا بات ہے۔ اس کے نزدیک مذہب سے زیادہ اہمیت قومی مفاد کی ہے ۔
کلن بولاسو تو ہے لیکن اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔
اس میں سمجھنے کیا بات ہے؟ وہ برطانیہ کو ہندوستان پر ترجیح دیتا ہے کیونکہ اس کو اپنی کرسی مودی کے اقتدار سے زیادہ عزیز ہے۔
اچھا یہ بتاو کہ اگر کل کو کوئی اڈانی بی بی سی کی خریدنے کی کوشش کرے تو کیا ہوگا؟
وہ ناکام ہوجائے گا کیونکہ جب تک فروخت کرنے والا راضی نہ ہو کوئی کسی کو خرید نہیں سکتاَ ۔
جی ہاں مگر دولت بھی تو کوئی چیز ہے؟
للن نے کہاہے تو مگر عزت اس سے بڑی چیز ہے۔ آزادی بیش قیمت ہوتی ہے۔ اس کے لیے لوگ دولت تو دور جان کی بازی لگا دیتے ہیں۔
وہ تو ہے لیکن ہمارے پرنوئے رائے کو بھی تو اپنی عزت اور آزادی کا پاس و لحاظ تھا۔
جی ہاں لیکن ان پر جب سیاسی دباو پڑا تو وہ برداشت نہیں کرسکے ۔
اچھا تو کیا بی بی سی پر دباو نہیں پڑسکتا ؟
جی نہیں کیونکہ جو حکمراں یہ غلطی کرے گا عوام اس کو سبق سکھا دیں گے ۔
کلن ہاں بھیا یہ فرق تو ہے لیکن اس کے باوجود مودی جی نے بی بی سی کے ممبئی اور دہلی کے دفاتر پر چھاپہ تو ڈلوا ہی دیا؟
جی ہاں یہ ان کی بہت بڑی حماقت ہے اس لیے کہ وہ ٹیکس کے معاملے میں بی بی سی کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے ۔
یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟
بھیا ایسا ہے کہ ٹیکس دو طرح کا ہے ایک ملازمین کا اور دوسرے ادارے کا؟
اتنا تو مجھے بھی معلوم ہے۔ کیا تم نے مجھے بالکل گھامڑ کندۂ ناتراش سمجھ رکھا ہے؟
جب پتہ ہے تو سوال کیوں کرتے ہو۔ دیکھو ہم لوگوں کی تنخواہ ڈالر میں بنک سے آتی ہے ۔ نہ تو اسے چھپایا جاسکتا ہے اور نہ چرایا جاسکتا ہے۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن ادارے کو اشتہارات تو ڈالر میں نہیں ملتے ؟
للن بولا جی ہاں لیکن اس پر ہمیں برطانیہ میں ٹیکس دینا پڑتا ہے ۔ ہندوتانی حکومت کا اس سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہے۔
اچھا تو کیا بلاوجہ ہندوستانی سرکار نے چھاپہ ڈلوا دیا ؟
جی نہیں ڈرانے کی کوشش کی لیکن اس سے تو کام اور خراب ہوگیا؟
کلن نے حیرت سے پوچھا وہ کیسے ؟
دیکھو ہندوستانی حکومت کے خلاف اڈانی پر اکونومسٹ، نیویارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ تو پہلے ہی لکھ چکے اب ا ن لوگوں نے سبھی کو مشتعل کردیا۔
یار ہم لوگ ممبئی میں اس کو کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنا کہتے ہیں۔
جی ہاں یہ محاورہ تمہاری سرکار پر پوری طرح صادق آتا ہے لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر اس سے یہ حماقت کیسے سرزد ہوگئی؟
ارے بھیا اتنے بڑے صحافی بنتے ہو اور اتنا بھی نہیں جانتےکہ بوکھلاہٹ میں انسان اس طرح کی غلطیاں کرنے لگتا ہے۔
ہاں یار ابھی تو قومی انتخاب کو ایک سال سےزیادہ کا وقت باقی ہے ۔ یہ سلسلہ اگر دراز ہوجائے تو الیکشن سے پہلے ہی ان کی ہوا اکھڑ جائے گی ۔
کلن بولاجی ہاں انہوں نے جس تیزی سے مقبولیت بڑھائی تھی اسی رفتار سے غیر مقبول ہورہے ہیں ۔
جی ہاں بالکل اپنے نورِ نظر اڈانی کی مانند کہ وہ جس تیزی سے اوپر گیا تھا اسی رفتار سے نیچے آرہا ہے۔
یار مجھے تو لگتا ہے یہ رام ملائی جوڑی ایک ساتھ اپنے انجامِ بد سے دوچار ہوجائے گی ۔
للن نے سوال کیا لیکن پھر بی جے پی کا کیا ہوگا؟
بھئی اس کا کیا ہے۔ جس طرح اس نے اڈوانی کو کوڑے دان میں ڈال مودی کو سر پر بٹھا لیا اسی طرح کسی اور کے بغلگیر ہوجائے گی ۔
اور بوڑھی آر ایس ایس ۔ اس کا کیا حشر ہوگا؟
دیکھو ایسا ہے کہ اس عمر میں ہر کوئی اپنے بچوں کا محتاج ہو ہی جاتا ہے ۔
للن نے پوچھا تو کیا سنگھ پریوار کا حال تمہارے این ڈی ٹی وی جیسا ہوگیا ہے ؟
جی ہاں سنا ہے سنگھ ایودھیا میں اپنا شاندار دفتر بنانا چاہتا ہے۔
للن نے پھر سوال کیا اچھا تو کیا یہ لوگ ناگپور سے اٹھ کر ایودھیا چلے جائیں گے ؟
ارے بھائی جس تحریک کی روح قفس عنصری سے پرواز کرجائے اس کا مردہ جسد ناگپور میں پڑا ہو یا ایودھیا میں ، کیا فرق پڑتا ہے؟
یار لگتا ہے مودی جی اپنے ساتھ سنگھ کو بھی لے ڈوبیں گے ۔
کلن بولا جی ہاں ترتیب سے پہلے اڈانی ، اس کے بعد مودی اور آخر میں سنگھ کا نمبر آئے گا۔
للن نے کہا ہاں یار اگر ایسا ہوگیا تو کم ازکم ہندوستان میں میڈیا بڑی حد تک آزاد ہوجائے گا ۔
جی ہاں للن تب تو بی بی سی کی مانند این ڈی ٹی وی کے بھی اچھے دن آجائیں گے ۔ اسی لیے تو میں نے رویش کمار کی طرح میدان نہیں چھوڑا، لگا ہوا ہوں۔
یار کلن تم جیسے لوگوں کے لیے علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے ؎
وابستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449906 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.