اگرہم انفرادی اوراجتماعی طورپر تاحیات اﷲ ربّ العزت
کی پاک بارگاہ میں مادروطن پاکستان کے معرض" وجود"میں آنے پر" سربسجود"
رہیں توبھی اس بیش قیمت نعمت کی ممنونیت اور احسان مندی کاحق ادا نہیں
ہوگا۔آزادی ،خودمختاری ،خودداری ،قومی وحدت اورقومی حمیت کی قدر ان سے
پوچھیں جوبرسہا "برس" سے اس کیلئے "ترس " بلکہ بہترزندگی کیلئے بیش
قیمت زندگیاں قربان کررہے ہیں۔ آزاد،خودمختاراورخوددار ریاست جبکہ
غیورقوم کاکوئی نعم البدل نہیں ہوتا۔دست ِقدرت نے پاکستان کو بے پایاں
وسائل سے نوازا ہے لیکن افسوس سات دہائیاں دوہائیاں دیتے ہوئے گزر گئیں
لیکن ان قدرتی وسائل کے بل پرہم اپنے معاشی مسائل کوشکست دینے میں
ناکام رہے ہیں۔صمیم قلب سے دعا ہے پاکستان میں قیادت کے قحط دم توڑ دے
جبکہ صالحین اورماہرین کی صورت میں قابلیت سے بھرپور قیادت قومی افق
پرابھرے ۔ کئی ملکوں میں سونے کی کانیں ہیں توکیا ہوا ،ہماری توزمین
سونا اگلتی ہے ، لیکن ہماری جوزمین سونا اگلتی ہے وہاں ہم نے دوسروں
کواپنی" امارت" سے مرعوب کرنے کیلئے "عمارت " کاسہارا لیا ، ہم سونا
اگلتی زمین میں منفعت بخش اجناس کے بیجوں کی بجائے بجری اور پتھر بورہے
ہیں۔ارباب اقتدار واختیار کی سہولت کاری کے ساتھ اس زراعت پر بار بارشب
خون مارا جاتا رہا جوہماری غذائی ضروریات پوری کرتی ہے۔ اگر ہم اپنے
ملک میں پیداہونیوالے حالیہ آٹا بحران کے بعد بھی نہ سنبھلیں اورہوش نہ
کریں توراقم کے منہ میں خاک ،ڈر ہے بھوک ہمارا مقدرنہ بن جائے۔ہم نے
اپنے کسان اور شعبہ زراعت کووہ اہمیت نہیں دی جس کا یہ مستحق
تھا۔پاکستان کیلئے کسان کادم غنیمت ہے لیکن بدقسمتی سے شوگزملز
اورفلورملزمالکان نے ہردورمیں انتھک کسان کے مال کومال غنیمت سمجھا
اورکئی دہائیوں سے ان کااستحصال کررہے ہیں۔یادرکھیں اگر " پاکستان"
سے"کسان"نکال دیاجائے تو"پات" کے سوا کچھ نہیں بچتالہٰذاء مقامی
پائیدار ترقی کے فروغ کیلئے کسانوں سمیت ہنرمندوں اورمزدوروں کااعتماد
بحال اوران کامورال بلندکرناہوگا۔زراعت کو مزید منفعت بخش بنانے کیلئے
جدید تجربات کی ضرورت ہے۔فنکاروں اوربھانڈوں سے زیادہ انتھک کسانوں کی
حوصلہ افزائی اورپذیرائی کیلئے انہیں مراعات اورسرکاری اعزازات کی
فراہمی یقینی بنائی جائے،اس اقدام سے ملک میں زرعی انقلاب جبکہ بنجر
رقبہ بھی زیرکاشت آئے گا ۔آئی سی یومیں پڑی نیم مردہ معیشت کوآکسیجن کی
مسلسل فراہمی کیلئے دوررس اصلاحات جبکہ اشرافیہ کی مراعات پوری طرح ختم
کرنا ہوں گی ۔شجرکاری یقینا زمینی وآسمانی آفات کے محرکات پرضرب کاری
اور سودمندسرمایہ کاری ہے۔پاکستان کاہر شہری موسمی تبدیلی کامقابلہ
کرنے اور ماحول کو صحتمند بنانے کیلئے شجرکاری مہم کی کامیابی کیلئے
اپنااپناکلیدی کرداراداکرے۔انسانوں کی طرح پیڑ پودوں کے بچوں کابھی جنم
ہوتا ہے ، آج ہم ان کی پرورش کریں گے تو کل ان میں سے ہرایک شجرمعاشرے
کے ہرایک بشر کو طرح طرح کے ذائقہ دار پھل ، مہکتے پھول ،زندگی سے
بھرپورآکسیجن اورایندھن دے گا۔انتظامیہ کی اجازت اورناگزیر ضرورت کے
بغیر شجر کاٹنا قانون شکنی قراردیتے ہوئے سخت سزا مقرر کی جائے۔ شجربھی
زندہ اوربشر کی زندگی کیلئے ناگزیر ہوتے ہیں لہٰذاء ان کی" کٹائی" میں
"کھٹائی" ہے۔
پاکستان کی تخلیق قدرت کازندہ معجزہ ہے لیکن ہمارے حکمرانوں نے تعمیر
کے نام پراسے تختہ مشق بنادیا ۔زیادہ ترپاکستانیوں کو پاکستان کی
قدروقیمت کااندازہ نہیں ۔ ہم سے زیادہ ہماری دشمن قوتوں کوپاکستان کی
نظریاتی و جغرافیائی اہمیت کاادراک ہے لہٰذاء ان کے عزائم ناپاک ہیں۔
مادروطن میں ملک دشمن قوتوں کے سہولت کاروں کی کمی نہیں،پاک سرزمین سے
ان ناپاک غداروں کاصفایاکرنا ہوگا۔رہبروں کے روپ میں رہزنوں کامقام بھی
منتخب ایوانوں کی بجائے زندانوں میں ہے ۔ہماری حکمران اشرافیہ کی
ہوشرباکرپشن ، ناقص ترجیحات اورتوجیہات نے قومی معیشت کی دھجیاں
بکھیردیں ۔ذوالفقارعلی بھٹوکی شہادت کے بعد جوبھی اقتدارمیں آیا اس نے
قومی وسائل پرانحصار جبکہ عام آدمی کوشریک اقتدار کرنے کے ساتھ ساتھ ان
میں خوداعتمادی اورخودداری کوفروغ دینے کی بجائے ورلڈبنک اورآئی ایم
ایف کی صورت میں عالمی مالیاتی اداروں سے ان کی سخت شرطوں پر قرض حاصل
کرنا اپنافرض اورایک طرح سے آسان راستہ سمجھ لیاحالانکہ قرض ایک مرض
ہے۔ہرخودغرض حکمران نے اپنے پیشرو سے کئی گنا زیادہ قرض لیااوراپنی
ناکامی کاملبہ اپنے پیشرو پرگرایا ۔نئے قرض کی رقم سے پچھلے قرض
کا"سود" ادا کرنے کی مجرمانہـ" ادا" سے جان چھڑائے بغیر بحیثیت قوم ہم
آئی ایم ایف کی غلامی کے طوق اورشکنجے سے اپنی گردن نہیں
چھڑاسکتے۔مقروض ملک معاشی بحران پرقابوپانے کیلئے ہفتہ واردوچھٹیاں
نہیں بلکہ 24/7بنیادوں پرانتھک محنت کیا کرتے ہیں ، اس سلسلہ میں چین
کے نظام معیشت سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے کنددماغ
حکمران ہنرمندوں کی بجائے بیروزگاروں ،چوروں اورکام چوروں کی فوج تیار
کر تے رہے۔اب بھی وقت ہے ہونہار طلبہ وطالبات کارجحان دیکھتے ہوئے
انہیں ان کے پسندیدہ شعبہ جات میں ایڈمشن دیاجائے جبکہ جدید تعلیمی
نصاب کے بل پرہرمندی کاانقلاب برپاکیاجائے۔زمانہ طالبعلمی کے دوران
ہمارے مستقبل کے معماروں کیلئے فرسٹ ایڈ اور سول ڈیفنس کی تربیت سمیت
کوئی نہ کوئی ہنر سیکھنااز بس ضروری ہوگا ۔پاکستان کے دیرینہ اورمخلص
دوست چین کی مدبر ،دانا اوردوراندیش قیادت نے اپنے ہم وطنوں کو مختلف
ہنرسکھاتے ہوئے اپنے ملک میں صنعتوں کاجال بچھا دیاہے۔چین کی نیک نیت
اورنڈر قیادت نے اپنے پروفیشنل ماہرین اور انتھک ہنرمندوں کی مدد سے
معاشی میدان میں دنیا کوپچھاڑدیا ہے۔امریکا سمیت کئی متعصب ملک چین کی
معاشی برتری کواپنے مفادات کیلئے خطرہ سمجھ رہے ہیں۔چین کی مدبر ومخلص
قیادت نے اپنا ملک تعمیروترقی کی شاہراہ پرگامزن کردیا ہے ۔ہمسایہ ملک
چین کی کامیابیوں کاتسلسل تحیر انگیز ،قابل قدر اورقابل تقلید ہے ،
پاکستان کوبھی معاشی استحکام کیلئے چین کی طرح بدعنوان عناصر کو موت کی
گھاٹ اتارنا ہوگا۔یادرکھیں کرپشن ایک ایسا ناسور ہے جس کے ہوتے ہوئے
معیشت نہیں پنپ سکتی۔چین کی مانند جوملک اپنی محرومیوں کاماتم نہیں
کرتے اوراپنے محدود وسائل پراشک نہیں بہاتے وہ دنیا کیلئے قابل رشک بن
جاتے ہیں۔
رائزنگ اورشائننگ چین کے جدت سے بھرپور تجربات اوران کے ثمرات کی روشنی
میں پاکستان کو بھی اپنی معاشی ترجیحات درست جبکہ انتظامی سطح پر
خامیاں دور کرناہوں گی۔ پاکستان اورچین ایک دوسرے کے قابل
اعتماداوردیرینہ دوست ہیں، دونوں کی بینظیر دوستی سود وزیاں سے بے نیاز
ہے۔چین اورپاکستان دونوں نے مخلص فرینڈز کی طرح ایک دوسرے کاہاتھ تھام
کرجو گیم چینجر منصوبے شروع کئے ہیں ان کی مقررہ معیاد کے اندر تکمیل
سے دونوں ملکوں کی کایا پلٹ جائے گی۔گوادرمیں تعمیروترقی کے کام
کامعیار یقینی بناتے ہوئے ان کی رفتار مزید تیز کرنے کی ضرورت ہے ، اس
سے لاکھوں افراد کیلئے باعزت روزگار کے دروازے کھلیں گے ۔سی پیک دونوں
ملکوں کیلئے معاشی انقلاب کاروڈ میپ ہے،تاہم اس پراجیکٹ سے دنیا کے
متعدد ملک مستفید ہوسکتے ہیں۔ مودی سرکار نے اب تک جوخطیرسرمایہ سی پیک
کوبلڈوز کرنے پرصرف کیاہے اس سے بھارت میں کروڑوں نادارومفلس ہندوؤں
کیلئے پختہ گھر تعمیر ہوسکتے تھے اورانہیں پینے کاصاف پانی فراہم
کیاجاسکتا تھا ۔سی پیک کادشمن مودی درحقیقت بھارت کی نابودی کے درپے ہے
۔چین ایک چٹان کانام ہے جس کو مودی کی مکاریوں سے کوئی خطرہ نہیں،مودی
اور جوبائیڈن سمیت متعدد حاسدین پاک چین دوستی میں دراڑ پیدانہیں
کرسکتے۔سینیٹر مشاہد حسین سیّد کئی دہائیوں سے پاکستان اورچین کے مشترک
مفادات کی حفاظت کیلئے اپنا تعمیری اورکلیدی کرداراداکررہے ہیں۔پاکستان
اورچین کے درمیان" قرب" کیلئے سینیٹر مشاہدحسین سیّد نے دشمن ملکوں اور
نادیدہ قوتوں کی طرف سے کئی بار انتہائی "کرب" کاسامنا کیا ہے لیکن ان
کی کمٹمنٹ اور استقامت میں کوئی فرق نہیں آیا،انہیں پاکستان اورچین کو
باوقار اورپراعتماد انداز سے ایک ساتھ آگے بڑھتے ہوئے دیکھنا اچھا
لگتاہے۔ممتازدانشورشعیب بن عزیز بھی چینی عوام اورمنتخب چینی قیادت کے
نزدیک ہردلعزیز ہیں۔پاکستان کے ماہرمعدنیات میاں محمدسعید کھوکھر پاک
چین دوستی کے علمبردار ہیں،ان کے چینی احباب نے بار بار انہیں پاکستان
میں معاشی انقلاب کی نوید دی ہے تاہم اس انقلاب کیلئے ہرسطح پر بے رحم
احتساب کورواج دینا ہوگا ۔
|