ہاتھ میں قلم پکڑے وہ ضمیر فروش لوگ کھڑے ہیں جن کے
قلم کی قیمت ایک جسم فروش طوائف کی ایک رات کی قیمت سے بھی کئی گنا کم
ہے۔ صحافت کسی بھی معاملے کے بارے میں تحقیق اور پھر اسے صوتی، بصری یا
تحریری شکل میں بڑے پیمانے پر قارئین، ناظرین یا سامعین تک پہنچانے کے
عمل کا نام ہے۔ صحافت پیشہ کرنے والے کو صحافی کہتے ہیں۔ گو تکنیکی
لحاظ سے شعبہ صحافت کے معنی کے کئی اجزاء ہیں لیکن سب سے اہم نکتہ جو
صحافت سے منسلک ہے وہ عوام کو باخبر رکھنے کا ہے۔
’’صحافت کا لفظ صحیفے سے نکلا ہے۔ صحیفہ کے لغوی معنی کتاب یا رسالہ کے
ہیں۔ بہرحال عملاً عرصہ دراز سے صحیفہ سے مراد ایک ایسا مطبوعہ ہے جو
مقررہ وقتوں میں شائع ہوتا ہے۔ چنانچہ تمام اخبارات ورسائل صحیفہ
ہیں۔‘‘
’اخبار کے لکھنے والوں کے فرائض تین قسم کے ہوتے ہیں یعنی وہ صلاح دینے
والا،تربیت کرنے والا اور لوگوں کی حالت و معاشرہ کی اصلاح کرنے والا
ہوتا ہے۔‘اگر اسے صحافت کی کسوٹی مان لی جائے تو ذہن لا محالہ سترہویں
صدی کے اس ادب کی جانب جاتا ہے جب جرمنی، فرانس، سوویت روس، امریکہ،
برطانیہ اور دنیا کے دیگر خطوں میں بڑے قلم کاروں مثلاً سیکسپئر، ملٹن،
او ہنری، جان ڈان، رابرٹ ہیرک، سر والٹر ریلگ وغیرہ نے متعدد ناول،
ڈرامے اور نظمیں قلم بند کیے۔ یقینااس دور میں معاشرے کی اصلاح کیلئے
یہ تمام تخلیقات وضع کی گئی تھیں اور اس نے صرف سماجی ڈھانچہ کو ہی
نہیں بلکہ سیاست و معاشرت پر بھی اپنے گہرے نقوش چھوڑے۔ اس کی ضرورت اس
لئے پیش آئی کہ مذکورہ صدی بڑے اتھل پتھل اور انقلابات کی صدی رہی۔ صرف
مذہب ہی نہیں بلکہ سیاست میں جملہ خرابیاں در آئی تھیں اور اس کی وجہ
سے زندگی کا نظام ہی درہم برہم ہوتارہا۔
جہاں تک صحافی کا سوال ہے اس کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے شاید یہ ہم
کہا کرتے ہیں کہ صحافت پیشہ نہیں بلکہ ایک خدمت ہے۔ ہر عادل حکمراں کا
صحافت کے بغیر حکمرانی کرنا بے سود ہو گا۔ صحافت کے مفہوم کو محض چند
جملوں میں بیان کردینے سے اس کی وضاحت نہیں ہوجاتی بلکہ اس پران گنت
قلندرانہ صفات کی حامل شخصیات اور بے شمار مشاہیر قلم نے زندگی کے اس
بے مثال شعبہ کو اپنے خون جگر سے سینچا اور تب کہیں جاکر اس کی بنیاد
پڑی۔ صحافت کو پیشہ کے طور دیکھنا قطعی درست نہیں ہے بلکہ صحافت مکمل
طور پر ایک جذبہ ہے۔ بلا شبہ اس سے ملک و قوم اور خلق کی خدمت کی جا
سکتی ہے۔ مگر شومئی قسمت کہ ہمارے یہاں صحافت کو سیاستدانوں کے گھر کی
لونڈی بنا کر رکھ دیا ہے اور صحا فت کو اتنا گدلا کر دیا ہئے کہ اس میں
سے بو آنا شروع ہو گئیی ہے۔ صحافت نام ہے عوام کے جزبات کو اجاگر کرنے
کا، عوام میں بیداری پیدا کرنے کا، جزبوں کی اصلاح کرنے کا، مخالفین پر
ذاتی حملہ کرنے کے بجائے نہایت اعتدال پسندی کو راہ دینے کا، اور خود
کے جزبات کو قابو میں رکھنے کا۔ صحافی کا کوئی مزہب، فرقہ، ملک، زات،
رنگ و نسل، امارت و غربت نہیں ہوتی وہ تو صرف سچ لکھتا ہے، سچ بولتا ہے
اور سچ دکھاتا ہے۔اور اخلاقی اقدار اور جرات کا نام ہے۔ وہی قلم کار
صحا فی کہلانے کا مستحق ہے جو صحافتی قوائد اصول و ضوابط سے آشنا ہو
اور ان پر عمل پیرا ہو۔ جب م یکں یہ بلاگ لکھ رہا ہوں تومیرے ذہن میں
ایک شعر آرہا ہے دیکھئے اور اس شعر کی خوبصورتی پر زرا غور کریں
موسم گل یہ تری زرد صحافت کیسی
پھول معصوم ہیں پھولوں سے سیاست کیسی
ایک محفل میں مشہور صحافی احمد علی اور ان کی اہلیہ ہاجرہ مسرور (جو
بہت مشہور ادیبہ ہیں)، ابراہیم جلیس اور بہت سے ادیب جمع تھے۔ اچانک
ایک صاحب نے ابراہیم جلیس سے سوال کیا،
’’صاحب یہ بتائیے کہ صحافت اور ادب میں کیا رشتہ ہے؟‘
اس پر جلیس مسکرائے اور احمد علی اور ان کی اہلیہ کی طرف اشارہ کرتے
ہوئے کہا،
’’جو احمد علی اور ہاجرہ مسرور میں ہے۔‘‘
ہمارے یہاں اکثر زرد صحافت کی ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے
''زرد صحافت'' یا پیلی صحافت (انگریزی: Yellow journalism) کی ایک پست
ترین شکل جس میں کسی خبر کے سنسنی خیز پہلو پر زور دینے کے لیے اصل خبر
کی شکل اتنی مسخ کر دی جاتی ہے کہ اس کا اہم پہلو قاری کی نظر سے اوجھل
ہو جاتا ہے۔ یہ اصطلاح انیسویں صدی کی آخری دہائی میں وضع ہوئی۔ جب
نیویارک کے اخبارات کے رپورٹر اپنے اخبار کی اشاعت بڑھانے کے لیے ایک
دوسرے سے بڑھ چڑھ کر خطرناک اور ہیجان انگیز رپورٹنگ کرتے تھے۔ یہ
اشاعتی جنگ اس وقت عروج پر پہنچی جب بعض اخبارات نے کیوبا میں ہسپانوی
فوجوں کے مظالم کی داستانیں خوب نمک مرچ لگا کر شائع کیں اور امریکی
رائے عامہ کو سپین کے خلاف اس قدر برانگیختہ کر دیا کہ امریکا اور سپین
کی جنگ تقریباً ناگزیر ہو گئی۔ زرد صحافت کی اصطلاح دراصل اس سنسنی خیز
کامک سیریل سے ماخوذ ہے جو Yellow kid کے عنوان سے امریکی اخبارات میں
شائع ہوتا تھا۔ کہتے ہیں کہ ایک قلم فروش صحافی ایک جسم فروش عورت سے
زیادہ بد کردار ہوتا ہے۔ قلم فروش صحافی کے مقابلے میں طوائف کا صرف
جسم فروخت ھوتا ھے جب کہ قلم فروشی میں قوم کا شعور۔
صحافیوں کی وہ قسم جسے زرد صحافت کہا جاتا ہے جس میں عموماً صحافی
صحافیہ جسم، ضمیر، ایمان اور قلم سب کچھ بیچ کر وہی خبریں لکہتا ہے یا
لکہتی ہے جسے لکہنے، نیوز آئٹم بنانے یا اسٹوری کرنے کے عوض پُر کشش
رقم ملتی ہے یعنی خواہ نقد یا سامان یا جائز ناجائز کام آنے کی شکل
میں۔ یا ان خبروں کو روکتا ہے یا روکتی ہے جس سے اس سیاسی سماجی شخصیت
یا بیوروکریٹ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے لیکن ان دنوں اس کی
ایک نئی قسم سامنے آئی ہے اور اسے الیکشن کیمپین اور انتخاب جیتنے کی
حکمت عملی اور حکومت کرنے کا ہائی ٹیک فارمولہ کہا جاتا ہے۔کہ حکومت کے
اشارے پر کس خبر کو چلانا ہے اور کسے نظر انداز کرنا ہے یہ وہ مینجمنٹ
صحافی طے کرکے اینکر کو ہدایت کرتا ہے۔
کتنے صحافی ہیں جو اپنا دامن دولت اور ہوس کی آگ سے بچا پائے۔اب اخبار
ہو ٹی وی چینل ہو یا سوشل میڈیا سب کی ایک ہی دوڑ ہے کہ انکی ریٹنگ
بڑھنی چاہئے۔ اور دولت کا حصول جس سے وہ اپنی انا کو تسکین دے سکے۔۔اس
کیلئے صحافت کے اصول بیچنا پڑیں یا کسی کی ذاتی زندگی میں زہر گھولنا
پڑے۔زرد صحافت نے سب کچھ ہی بھلا دیا۔کہیں ننگی تصویریں ہیں کہیں
پگڑیاں اچھالی جاتی ہیں۔لوگوں کی ذاتی
زندگی کو سرعام مباحثہ کا موضوع بنایا جاتا ہے۔کہیں اخبار کے نام پر
جھوٹ فریب اور مکاری اور فحاشی کا چیتھڑا نکالا جاتا ہے تو کہیں
پروگرام کے نام پر لوگوں کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں پر سر محفل الزام لگا?
جاتے ہیں۔صحافت کہیں منہ چھپا? پڑی ہے صحافی کسی کونے میں سر گھٹنوں
میں دیے بیٹھا ہے۔وطن عزیز میں صحت ہو یا سیاست ہو یا تجارت،تعلیم کا
میدان ہو یا وکالت، پولیس اسٹیشن ہو، تھانیدار کی تھانیداری ہو یا
ساہوکار کی صنعت کاری، سب کی سب صحافت کی گود میں پرورش پا رہی ہیں۔
فی زمانہ صحافت کے بطن سے علم وعرفان کے سوتے نہیں پھوٹتے بلکہ جہل اور
لاعلمی، بغض اور ذاتی ترجیحات کی آہیں نکلتی ہے۔اب صحافت وہ بہتا ہوا
پاکیزہ چشمہ نہیں رہی بلکہ ابلتا ہوا ایسا گٹرہے جسکے تعفن سے لوگ
بیزار ہیں اور بیمار ہو رہے ہیں ۔عوام کو ایک واضح بیانیہ یا ایک
اجتماعی سوچ دینے کی بجائے صحافت انسانی ذہن کو الجھانے کا نام
ہے۔صحافی روشنی کا مینار بن کے قوم کی کشتی کو ساحل کی طرف رہنمائی
کرنے کی بجائے قوم کی کشتی کو لہروں کی طغیانی کے حوالے کررہا ہے۔آج کے
اس برق رفتار عہد میں صحافت کی اہمیت وافادیت سے کسی بھی صورت انکار
نہیں کیا جاسکتا.۔صحافت ترسیل وابلاغ کا مؤثر اور طاقتور ذریعہ ہے اور
رونما ہونے والے واقعات کی معلومات بہم پہنچانے کا اتنا وسیع وسیلہ ہے
کہ دنیا کے بڑے بڑے،،سیاسی رہنما، سماجی پیشوا اور مشاہیر نے نہ صرف اس
کی طاقت کے سامنے سر تسلیم خم کیا بلکہ اپنے افکار واظہار کی تشہیر کے
لئے صحافت سے منسلک بھی رہے.تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ صحافت نے کتنے
ہی بادشاہوں کے تاج اتارے اور انکے تخت گرائے گئے۔ یہ صحافت ہی ہے جس
میں ارشد شریف جیسے نڈر، بہادر، بے باک، سچے اور قوم کی ٓواز بلند کرنے
والے صحافی ابھی بھی اپنی پوری ٓب و تاب سے جھوٹ کے مقابل خم ٹھوک
کرکھڑے رہے انہوں نے موت کو گلے لگا لیا مگر اپنے اصولوں پر ڈٹرہے اور
قلم کی حرمت کو پامال نہ ہونے دیا۔ صحاسفیوں نے قید و بند کی صعوبتیں
برداشت کیں، کوڑے کھائے، آگ مین جلے، پھانسیوں کو چوما، گاڑیوں کے
پیچھے باندھ کر گھسیٹا گیا، زندان میں ڈالا گیا مگر اپنی اقدار اور
اصولوں پر ڈٹ کر کھڑے رہے اور آج بھی صحافت کو تہہ و تیغ کیا جا رہا ہے
حکومت اور اسکی سیاہ کاریوں کو اور غلط کاریوں کو چھپانے اور سچ کو
عیاں کرنے پر جان سے مارا جا رہا ہے اور ان پر ایف آئی آر درج کرا کر
انہیں خوفزدہ کیا جا رہا ہے اور انہیں اغوا کیا جا رہا ہے، اور یہ بات
انتہائی قابل شرم ہے کی کچھ کالی بھیڑیں آج بھی حکمرانوں کے جبر و ستم
انکے ظالمانہ اور جبروتی رویوں کو اپنے قلم کی نوک پر لانے سے خوف زدہ
ہیں کہ وہ انکے دلال کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ قلم کی وہ باریک سی
فولادی نوک ہی تو ہے جس نے تخت اقتدار کے فولادی پائے ہلا کر رکھ دئے
اور حکمرانوں کے ایوانوں میں لرزہ طاری کر دیا۔
|