زرد موسم کی یادداشت علامتی خود نوشت /ڈاکٹر ارشد رضوی

زرد موسم کی یادداشت
علامتی خود نوشت/ڈاکٹر ارشد رضوی
٭
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
زرد موسم کی یادداشت کے مصنف ڈاکٹرارشد رضوی ایک استاد ہیں، محقق ہے، افسانہ نگار، کہانی کار اور علامت نگاربھی۔ کراچی کی سر سید یونیورسٹی آف انجینئرنگ و ٹیکنالوجی کے شعبہ
”پاکستانیات“میں استاد ہیں۔ ان کا شعبہ پاکستان کے علاوہ تاریخ، سیاسیات اور عمرانیات ہے۔ادیب اور مصنف کی حیثیت سے معروف ہیں۔ ادبی موضوعات پر لکھنے میں کمال حاصل ہے، افسانہ نگار ی، کہانی کاری، خود نوشت پر ان کی تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان کی تصانیف میں انگریزی میں سیاسی نظام(Political Sysem of Pakistan)، افسانوں کا مجموعہ ”ایک سا موسم“، کہانیوں میں ”کچھ بے ترتیب کہانیاں“ اور اب ”زرد موسم کی یادداشت کے عنوان سے ”علامتی خود نوشت“ آپ کے سامنے ہے۔ میں ان کی تصنیف ”کچھ بے ترتیب کہانیاں“ پر اظہاریہ تحریر کرچکاہوں۔ اس میں ایک کہانی ”ماضی سے جڑ ے قصوں کی کہانی“ میں انہوں نے پرندوں، جانوروں کو علامت کے طور پرپیش کیا ہے۔ یہی صورت ان کے افسانے ”ایک سا موسم“ میں بھی ہے۔ وہ اپنی کہانیوں میں اداسی، افسردگی کو بھی خوبصورت انداز سے پیش کرتے ہیں انہوں نے اپنی ایک کہانی ”ایک بھولے ہوئے گھر کی تلاش“میں اداسی اور افسردگی کی عکاسی خوبصورت الفاظ میں تحریر کی ہے۔
ڈاکٹر ارشد رضوی کی یہ تصنیف خود نوشت ضرور ہے لیکن عام یادداشتوں، خود نوشتوں اور آپ بیتیوں سے کچھ مختلف ہے، مختلف اس طرح کہ علامت نویسی کے طور پر استعمال ہونے والے الفاظ اور جملے اس کی بنیاد ہیں۔ علامت نویسی اردو ادب میں ایک اہم اظہار کا ذریعہ ہے، شاعر اور نثر نگار اپنی شاعری اور نثرنگاری میں علامتوں کا استعمال ہمیشہ سے ہی کر رہے ہیں۔ علامت نگاری ہے کیا؟ اختصار سے اس کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ ”علامت نگاری کو علامتیَ رَمزبھی کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد مختلف افکار و خیالات و احساسات، جذبات اور تشبیہات کو مخصوص الفاظ و اشارات کی صورت میں بیان کیا جاناہے۔ ادب میں شاعروں اور نثر نگاروں نے اپنی نگارشات میں علامتیں تخلیق کیں ہیں۔ مختصر یہ کہ ادبی اصطلاح میں علامت نگاری سے مراد کسی خیال یا فکر کو بالواسطہ طور پر کسی اشارے یا نشان کے طور پر بیان کیا جائے۔یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ کیس چیز یا لفظ کو اس کے اصل لفظ کے بجائے کسی اشارے یادوسرے لفظ سے تشبیح دی جائے۔علامتی شاعری کے علاوہ، علامتی افسانہ، علامتی زبان، علامتی کہانی اور علامتی خود نوشت ”زرد موسم کی یادداشت“ کی صورت میں اس وقت ہمارے سامنے ہے۔شاعری میں علامات کا استعمال عام ہے، بڑے بڑے شعرا نے علامات کواپنے اشعار میں استعمال کیا اور اب بھی کر رہے ہیں۔ ایسی مثالیں بہت ملتی ہیں۔ دیکھئے میر تقی میر کا یہ شعر ؎
ناز کی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
یہاں میر تقی میر نے لبوں کو پنکھڑی اور گلاب سے تشبیح دی ہے۔
اسی طرح غالب ؔ کا یہ شعردیکھئے کہ ؎
غم ہستی کا اسد کس سے ہو جُذمرگ علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سَحر ہونے تک
تصنیف ’زرد موسم کی یادداشت‘ نثر میں علامت نگاری کی ایک عمدہ مثال ہے۔شروع سے آخر تک مطالعہ کیجئے حالات اور واقعات، شخصیات،مصنف کے افکار و خیالات و احساسات و جذبات مخصوص الفاظ، اشارات اور تشبیہات کی صورت میں بیان کیے گئے۔ زندگی کی یادداشتوں کو چھوٹی چھوٹی تحریروں میں قلم بند کیا گیا ہے کہیں کسی کا نام، جگہ، حادثہ، خوشی یا غمی کی یادداشت اصلی صورت میں نہیں۔ البتہ اشاروں،کنایوں اور تشبیہات میں مصنف نے اپنے خیالات،اور یادداشتوں کو ادبی پیرائے میں خوبصورت انداز میں قلم بند کیاہے۔ کتاب کا پیش لفظ معروف ادیب زیب اذکار حسین نے تحریر کیاہے جس میں انہوں نے اس تصنیف کو ’ایک تازہ ناول کہا ہے جو روایتی معنویت کی بہ اعتبار ِ ناول قلب ماہیت کرتا دکھائی دیتا ہے‘۔ اپنی تحریر کے آخر میں اذکار صاحب لکھتے ہیں کہ ”زرد موسم کی لکھی گئی یہ خود نوشت نہ صرف اپنے ہونے اور اس ہونے کے تعلق سے دوسرے رشتوں کے ہونے کی دریافت کو تخلیقی توانائی کے ساتھ پیش کرتی ہے، بلکہ اس ہونے کے گرد و پیش میں جو کئی اطوار کے جہنم موجود ہیں، اُن کی کھوج بھی ایک نئی آنکھ سے لگاتی نظر آتی ہے“۔ اسی طرح خالد معین کے خیال میں ”ارشد رضوی بڑا داخلیت پسند تخلیق کار ہے۔ وہ ترقی پسند ضرور ہے لیکن وہ اپنے خوابوں، خیالوں، عشق، آوارگی، آدرش، زندگی کرنے کے لیے کھلے پن، نفسیاتی رویوں اور اپنی ذات کی گہری پیچیدگیوں کو کسی سستے فارمولے کی نذر یقینا نہیں کرسکتا“۔
آخر میں ڈاکٹر ارشد رضوی کی علامتی تحریر کا اقتباس جس سے مصنف کی نثر میں شاعری یا مصوری کی عملی صورت آپ کے سامنے آسکے اور قاری اندازہ لگاسکے گا کہ مصنف کے قلم میں علامت نگاری کا کیا رنگ اور کیاڈھنگ ہے۔
”تم آج تین مہینے کے ہوتے، یہ لکھتے ہوئے میں میں کتنا بے بس اور کمزور ہوں، میرے دل کے گلدان پر تمہاری یادوں کے گلاب کھلے ہے ہیں، جنھیں آنکھوں کے آنسو دے کر سینچتا رہتا ہوں۔ تمہاری آنکھوں کے گلاب کھلے ہیں، تمہارے لبوں کے گلاب کھلے، تمہارے مہربان ہاتھ میرے دل پررکھے ہیں، مجھے یاد ہے، تمہارے ہاتھ بہت نازک تھے اور انگلیاں، کسی مصور کی انگلیاں، جو اُداس اور تجریدی تصویریں بناتی ہیں۔ ہم ان دنوں خوب ملتے رہتے تھے۔میں نے تمہارے ہاتھوں کو چھو کر بھی دیکھا تھا، جو کسی موتیائی شاخ سے مشابہ تھے، اور جب تم مجھ سے جسمانی طورپر دور کر دیے گئے ہو، تو روحانی طور پر میں تمہیں اپنے بہت ہی قریب پاتا ہوں۔ تب میری آنکھوں میں نجانے کہاں سے پانی آجاتا ہے، اور یہ سنگ دل آنکھیں رونے لگتی ہیں۔ یہ آنکھیں جو کبھی روتی تھیں، تم نے انھیں رونا سکھایاہے، یہ صرف تمہارے لیے روتی تھیں۔ تمہاری خوشبوشام کی ہوا کی طرح سرسراتی ہے، میں دیکھتا ہوں کہ تم میرے ساتھ ہو، اور تمہارے نہ ہونے کادکھ میرے خون میں تیرتا ہے۔ کبھی کبھی دل کے پاس اٹک جاتا ہے، تب دل کے کسی خزاں آلود پتے کی طرح چر چراتا ہے، مجھے لگتا ہے۔ میں بھی ختم ہوا، لیکن تمہاری یاد کی مسیحائی خوشبو مجھے زندہ رکھتی ہے۔ کوئل کوکتی ہے، تو لگتا ہے تم ہو، شام آتی ہے تو لگتا ہے تم آئے ہو، رات کی نیند آنکھوں پر ہاتھ رکھتی ہے تو لگتا ہے تم بھی سورہے ہو، صبح کا بے جا پن تمہارے نہ ہونے کی نوید لاتا ہے، پھر دوپہر کا جلتا ہواسورج اور ایک لمبی تنہائی سب کچھ ویسا، جیسا تم چھوڑ گئے ہو۔ ہاں میں خود کو کچھ بوڑھا محسوس کرتا ہوں، سنو! مجھے تمہارا انتظار ہے تم آجاؤ پھر سے.... تاکہ میں پھر سے تمہارے لیے خواب بنو....پھر سے تمہارے لیے کہانیاں لکھوں“۔مصنف کی اس تحریر سے بخوبی اندازہ لگا یا جاسکتا ہے کہ مصنف نے علامتوں کا استعمال کس خوبصورتی سے کیا ہے۔ (9مارچ2023ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1277366 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More