سویڈن(Sweden)، یورپ ایک مشہور مُلک ہے۔ کوئی ڈھائی سو
سال گزرے ، وہاں ایک دوا ساز، کارل ویلہم شیل (Carl Wilhelm Scheele) رہتا
تھا۔ یہ عجیب و غریب آدمی اپنے کام سے بے حد دلچسپی رکھتا اور محنت میں تو
اِس کا مقابلہ کوئی مشکل ہی سے کر سکتا تھا۔ نوجوانی میں ایک دوا ساز کے
یہاں ملازم ہو گیا۔ وہاں اُس کا کام تھا نسخوں کے مطابق طرح طرح کی دواؤں
کو کوٹنا، پیسنا ، اُن کو ملانا اور گولیاں بنانا۔ دواؤں کو دیکھ دیکھ کر
اُس کے دل میں شوق پیدا ہوتا کہ کاش وہ بھی اِن کے بارے میں کچھ جان سکتا۔
اِسی شوق میں جب کبھی اُسے کام سے فرصت ملتی، کسی کونے میں بیٹھ کر علم
کیمیا کی کتابیں پڑھنے لگتا اور ان میں ایسا ڈوب جاتا کہ کھانے پینے تک کی
سُدھ نہ رہتی۔ کچھ ہی عرصے میں اُس نے کیمیا کی بڑی بڑی کتابیں پڑھ ڈالیں
اور اُس کی معلومات اتنی بڑھ گئیں کہ اُس وقت کے اچھے اچھے دوا ساز اور
کیمیا داں بھی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے تھے۔ وہ لیبارٹری کے کسی کونے میں
کیمیا کے تجربے بھی کیا کرتا ، یہ چیز حل ہو رہی ہے، کبھی وہ شے گرم کی جا
رہی ہے۔ ایسے عمل میں کبھی کبھی چھوٹا موٹا ایک آدھ دھماکہ بھی ہو جاتا جس
سے اس کا مالک، دواساز بے چارہ، اپنی جگہ سہم جاتا ۔ اُسے کئی بار خیال بھی
آیا کہ اِس عجیب و غریب ملازم کو ہمیشہ کے لیے چھٹی دے دے تاکہ آئے دن کے
دھماکوں کے ڈر سے نجات ملے، لیکن پھر نہ جانے کیا سوچ کر وہ اپنا ارادہ بدل
دیتا۔شیل کے دوست احباب اُس سے ملنے آتے تو دیکھتے کہ کبھی شیل کا ہاتھ
تیزاب سے جل گیا اور کبھی اَلقَلی (alkali) سے۔ سچ پوچھیے تو شیل کو لطف
بھی اِسی میں آتا۔ گندھک (sulphur, S) جلا کر اُس کا دھواں سونگھنا، کبھی
نمک کے تیزاب (hydrochloric acid, HCl) کی بوتل کھول کر اس کی بو باس
(smell) معلوم کرنا۔ ایک بار تو اُس نے غضب ہی کر دیا۔ چند کیمیائی مادوں
کو ملا کر اُس نے ایک چیز تیار کی، اُسے سونگھا تو کڑوے بادام کی بُو آئی
اور اِس سے بھی تشفی نہ ہوئی تو سوچا ذرا لگے ہاتھ اِس کا مزہ بھی چکھ لیا
جائے۔ چنانچہ اِس مرکب (compound)کا ایک چھوٹا سا قطرہ اُس نے زبان پر رکھا۔
پھر کیا تھا ایسا لگا جیسے منہ میں آگ بھر گئی ہو۔ آج کوئی بچہ بھی ایسی
حماقت ہر گز نہ کرے گا کیونکہ شیل نے جو مرکب تیار کیا تھا وہ نہایت مہلک
زہریلی شے ، ہائیڈروسائنک ایسڈ (hydrocyanic acid, HCN) تھی جس کے سونگھنے
ہی سے آدمی مر سکتا ہے۔ شیل کو یہ بات معلوم نہ تھی اور اگر معلوم ہوتی بھی
تو شاید وہ اپنی حرکت سے باز نہ آتا۔ وہ تو کہیے خیریت ہوئی کہ اُس نے
تیزاب کا صرف ایک ہی قطرہ زبان پر رکھا اور وہ بھی ذرا سی دیر کے لیے ورنہ
یہ حضرت دوا ساز کی دوکان سے سیدھے قبرستان پہنچا دیے جاتے۔
شیل کو نئی نئی چیزیں دریافت کرنے کا بڑا شوق تھا۔ ایسی کوئی چیز جس کا علم
پہلے کسی کو نہ ہوا ہو۔ بس اِسی شوق میں طرح طرح کے تجربے کیا کرتا تھا۔
اُسے دُھن تھی قدرت کے کارخانے کی نئی نئی باتیں جاننے کی، اشیاء کی بناوٹ
اور خصوصیتیں معلوم کرنے کی۔
شیل نے نہ تو کسی کالج میں تعلیم پائی تھی نہ اسکول میں، نہ اُسے کوئی سبق
پڑھانے والا تھا نہ کوئی اُس کی مشکلوں کو حل کرنے والا۔ وہ کچھ پوچھتا بھی
تو کس سے؟ بس ایک دوا ساز کے یہاں معمولی درجے کا ملازم تھا! اِس کے پاس
تجربے کرنے کا سازو سامان بھی کہاں سے آتا؟ وہ اپنی اٹکل ، بوتلوں، موم بتی
اور ایسے ہی معمولی معمولی سامان کی مدد سے تجربے کیا کرتا تھا۔ اُس نے جو
کچھ سیکھا اپنے مطالعے اور مشاہدے کی مدد سے سیکھا، نہ اس پر کسی استاد کا
احسان تھا نہ کسی پروفیسر کا۔ اِسی طرح چودہ برس تک وہ دوا ساز کے یہاں
ملازمت کرتا رہا اور۔۔۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جب وہ دن آیا کہ سویڈن کی
سائنس اکاڈمی نے اُسے ممبر بنا کر اس کی عزت افزائی کی تو اُس وقت بھی وہ
دواساز کے یہاں دوائیں تیار کرتا تھا! جو معمولی تنخواہ اُسے ملتی تھی وہ
کتابوں اور تجربوں کے لیے اشیاء کی خریداری پر صَرف کیا کرتا تھا۔
شیل حقیقت میں ایک پیدائشی کیمیا داں تھا۔ ہر چیز کی ماہیت معلوم کرنے کے
شوق نے اُسے کیمیا داں بنایا تھا۔ جو چیزیں ہم اپنے چاروں طرف دیکھتے ہیں
اور اُن پر سوچے بغیر گزر جاتے ہیں، شیل اُن ہی کے بارے میں سوچتا کہ وہ
کیسے بنی ہیں؟ مثلاً کہ تانبا (copper, Cu) ایک سادہ دھات ہے مگر نیلا
تھوتھا (copper sulphate) تین چیزوں سے مل کر مرکب بنا ہے۔ اِس میں تانبا
بھی ہے، گندھک بھی اور آکسیجن بھی۔ آج تو یہ بات بچہ بچہ جانتا ہے کہ
تانبا، گندھک یا آکسیجن اپنی اپنی جگہ سادہ اشیاء یا عنصر (element) ہیں،
یعنی اِن میں سے کوئی ایسی شے نہیں جو دو یا اِس سے زیادہ اشیاء سے مل کر
بنی ہو، مگر اُن دنوں لوگ بہت کم عناصر سے واقفیت رکھتے تھے اور شیل کو نئے
نئے عنصر معلوم کرنے کا شوق تھا، اور چیزوں کو چھوڑ کر پہلے تو وہ یہ جاننا
چاہتا تھا کہ یہ آگ کیا چیز ہے؟ آگ کے بغیر تو کوئی تجربہ ہوتا ہی نہ تھا
اِس لیے پہلے اُس نے آگ کی ماہیت جاننے کی ٹھانی۔ آگ سے تجربہ کرتے کرتے
شیل سوچنے لگا کہ کوئی چیز جب جلتی ہے تو اُس وقت ہوا (air) کا کیا کام
ہوتا ہے؟ اِس کا جواب ڈھونڈنے کے لیے اُس نے لائبریری میں جا کر موٹی موٹی
کتابیں چھان ماریں۔ اُسے گمان تھا کہ قدیم اور مشہور کیمیا دانوں نے بھی
ضرور اِس مسئلے پر غور کیا ہو گا، مگر اُسے اپنے سوال کا جواب نہیں ملا۔
شیل سے کوئی سو برس پہلے انگلستان (England) کے سائنس داں، رابرٹ بوائل
(Robert Boyle)نے اور کئی سائنسدانوں نے بھی لکھا تھا کہ کوئی شے اُس وقت
تک جل نہیں سکتی جب تک اُس کے چاروں طرف کافی مقدار میں ہوا موجود نہ ہو۔
مثلاً اگر کسی جلتی ہوئی موم بتی پر ایک گلاس الٹا ڈھانک دیا جائے تو کچھ
دیر جل کر موم بتی بجھ جائے گی یا کسی جلتی ہوئی موم بتی پر ایک مرتبان
ڈھانک دیا جائے اور مرتبان کی ہوا نکال لی جائے تو بھی موم بتی بجھ جائے
گی۔ دوسری طرف یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ لوہار بھٹی کی آگ میں دھونکنی سے
زیادہ ہوا گزارتا ہے تو بھٹی کے کوئلے اور تیز جلنے لگتے ہیں۔
یہ سب باتیں تو آئے دن کے مشاہدے کی تھیں۔ پھر بھی کوئی یہ نہ بتا سکا تھا
کہ کسی چیز کے جلنے کا تعلق ہوا سے کیا ہے؟ شیل نے یہی بات معلوم کرنے کے
لیے اپنے تجربے شروع کیے۔ اُس نے بعض جلنے والی چیزوں کو کانچ کے برتن میں
اِس طرح بند کیا کہ اندر ہوا کا گزر نہ ہو، اس کے بعد وہ اپنے دل میں کچھ
اس طرح سوچنے لگا : اِس برتن کے اندر ہوا ایک خاص مقدار میں موجود ہے۔ باہر
کی ہوا اِس برتن میں داخل نہیں ہوسکتی، اب دیکھیں بند ہوا جلنے میں کیا کام
انجام دیتی ہے؟
یہاں ایک بات یاد رہے کہ شیل کے زمانے تک سب سائنسدان ہوا کو ایک عنصر
مانتے آئے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہوا ایک سادہ مادہ ہے جس میں صرف ہوا ہی
ہوا ہے کوئی دوسرا مادہ شامل نہیں۔ شیل بھی یہی جانتا تھا کہ لوہا، تانبا،
چاندی، سونے کی طرح ہوا بھی عنصر ہے، یعنی اِن میں کسی دوسرے عنصر کی ملاوٹ
نہیں ہے۔
|