کیا یہ اُمید ، کرن، روشنی حقیقت کا روپ دھار لینگی؟

جب ملک میں ظلم و ستم کا بازار گرم ہو ، انصاف نہ ہونے کے برابر ہو ، عوام ظلم کی چکی میں پس رہے ہوں . حکمران اپنی حاکمیت کو وراثیت میں بدلنے کے لیے مفادات کا چوغہ سجارہے ہوں، غریب اپنے بچوں کے پیٹ کی آگ بھجانے کے لیے دربدر ٹھوکریں کھارہا ہو، بیروزگار نوجوان اچھے روزگار کے لیے سرحدیں پار کرکے اپنی جانیں ضائع کررہا ہو، جب کہیں سے کوئی اُمید جس قوم کو نظر نہیں آتی. تو پھر اس قوم کی حالت بھیڑ بکریوں کے ریوڑ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی۔ عوام ایک ہجوم بن جاتی ہے۔ نہ زندگی کی رمق ، نہ روشنی کی جستجو ،نہ مستقبل کی امید، نہ حال کی خبر، نہ دل ، نہ دھڑکن ، نہ تپش ، نہ حرارت ، نہ رنگ ، نہ آہنگ ، نہ ترنگ، نہ ولولہ ، نہ جوش ، نہ ہمت، نہ جرأت ، نہ استقامت ، نہ استقلال ، نہ امید ، نہ ذوق، نہ کرن، نہ جستجو ، یہ سب بے جان مردہ کی طرح ہوجاتیں ہیں. ایسے میں اگر کوئی ان کو اُمید کی کرن دیکھائے تو عوام میں بیداری کی روشنی تو پہنچ پاتی ہے مگر سوتی ہوئی عوام کو جگانا ہی ایک بہت محنت جوکھوں کا کام ہے اور جس نے اس طرح کی قوم کو جگایا پھر اللہ بھی اس کی غیبی مدد کرتا ہے.ملکوں اور قوموں میں جتنے بھی قابل ذکر یا تاریخی انقلابات رُونما ہوئے، وہ سب کے سب اُن لیڈروں کے مرہون منت تھے جن کی فکری اساس گہری اور مستحکم تھی پاکستان میں ایسے گنے چُنے لیڈر جن میں بانی پاکستان قائداعظم ،علامہ اقبال، لیاقت علی خان اور محترمہ فاطمہ جناح مرحومہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ان کے بعد ایسی قیادت نصیب نہ ہوئ جو مضبوط اور بےلوث فکری اساس کی بنیاد ہر مُلک و قوم کی زندگی میں وہ انقلاب لاسکتی ہو، لیکن جہاں نہ تو فکری ادا ہو اور پختہ نظریات وہاں انداز حکمرانی بالائے دار ہونے کے سبب بدلتا رہتا ہے. جو مستحکم اور گہری فکری اور فلسفے کا مالک ہو اور جو قومی زندگی میں فکری تبدیلی یا انقلاب لانے جا اہل ہو۔قومی انقلاب ہمیشہ لیڈروں کے مرہون منت ہوتے ہیں. اگر قیادت اہل اور مخلص ہو تو قوم کو پستی سے نکال کر بلندی پر کے ہے اور نہ صرف معاشی بلکہ ذہنی انقلاب بھی برپا کردیتی ہے. آج کل ایسا کچھ انداز اور نظریہ حال کےکپتان عمران خان میں ہی نظر آتا ہے جس نے ہر ظلم سہہ کر بھی ڈٹا ہوا ہے.

اب اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ اب یہ اہم نہیں رہا کہ ہم اسے کرپٹ مانیں یا بے قصور، اسے باصلاحیت یا نااہل سمجھیں، اسے اعلیٰ اخلاقی مقام پر رکھیں یا مخالفین کے برابر۔ جس چیز کا ہم میں سے بہت سے لوگوں کو احساس نہیں وہ یہ ہے کہ اس کا زوال ترتیب دیا گیا تھا، اس کا عروج ترتیب دیا گیا تھا۔ ان کی بے دخلی کا انتظام چند لوگوں نے کیا، ان کی واپسی اکثریت کا مقدر ہے۔ فضل سے اس کے زوال کی منصوبہ بندی انسانوں نے کی ہو گی، اس کا جلال میں اضافہ الوہیت سے مقدر ہے۔ وہ پہلے ہی اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے ہماری رائے میں کوئی وزن نہیں ہے، صرف اللہ کا فیصلہ ہے۔

کتنا بڑا ڈرامہ ہماری آنکھوں کے سامنے آ رہا ہے۔ تاریخی اوقات یہ دن ہماری تاریخ کا حصہ رہے گا۔ دیر تک یاد رہا۔ ایک بہادر آدمی 220 ملین لوگوں کی تقدیر بدلنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ سب کے خلاف ایک۔ مختلف طبقات کے سیاستدان لالچ سے اکٹھے ہو گئے۔ اور اکیلے لالچ لوگوں نے ان کی شرط کو ایک دی گئی، ناقابل تبدیلی کے طور پر قبول کر لیا تھا۔ ان کی آنے والی نسلیں قوم کی جان کو کھا جانے والے مافیا کے خلاف کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگنے کی مذمت کرتی ہیں۔

یہاں تک کہ ایک آدمی اور ایک آدمی نے انہیں بتایا کہ یہ ان کا مقدر نہیں تھا۔ ان کا مقصد کچھ بہتر تھا۔ اس نے انہیں دکھایا کہ کیسے عملی طور پر ان کے سامنے کھڑے ہو کر، خوبصورت اور خوبصورت زندگی سے بڑی ایک شاندار شخصیت سچا ہونا بہت اچھا ہے عیش و عشرت کی زندگی کو قربان کرنا اس کا خوبصورت خاندان، اس کی خوبصورت بیوی اس کا گود لینے والا ملک تباہی کے دہانے پر ایک دکھی ملک کے درمیان اترنا اس نے انہیں ایک خواب، امید، خواب دیا۔ اس نے ان سے کہا کہ وہ اپنی حقیقی قدر کا احساس کریں۔ اس نے ان سے کہا کہ جب وہ اڑ سکیں تو رینگنے سے گریز کریں۔ اس نے انہیں بتایا کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے پروں سے نوازا ہے۔

اس نے آگے سے قیادت کی۔ بے خوف ہو کر قافلے پر سوار ہوئے۔ تمام خوف اور ممکنہ فوری موت کو ختم کرنا یہ افسانوں کا وہ سامان ہے جو اب پوری دنیا کی نظروں میں آ رہا ہے۔ وژن کو علمی طور پر تسلیم کرتے ہوئے، جذباتی طور پر خواہ رویے سے نہ ہو۔ کیونکہ کاش ہر پاکستانی اپنے لیڈر کی طرح بہادر ہوتا .
 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 313 Articles with 116899 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.