دنیا شہید ارشد شریف کو بطور پاکستانی صحافی اور ایک
تحقیقاتی صحافت کی بنیاد والے صحافی کے طور پر جانتی ہے لیکن اصل میں ارشد
شریف شہید پاکستان کا ایسا ہیرو ہے جس نے حق و سچائی کا عَلَم بُلَنْد کیا
اور کبھی پیچھے نہیں ہٹے اور ہر مظلوم کے ساتھ شانہ بشانہ ساتھ کھڑے رہے۔
پاکستانی تاریخ میں ایسے صحافی بہت کم ہیں جو صدیوں تک یاد رہیں اور وہ
واحد صحافی تھے جن کی شہادت پر قوم نے بھرپور احتجاج و بھرپور ردعمل دیا
اور ایک انصاف دینے کی مہم کا آغاز کیا جس کو ارشد شریف شہید کی اہلیہ
جویریہ ارشد شریف نے لیڈ کیا اور وہ مہم اتنا زور پکڑ گئی کہ سپریم کورٹ آف
پاکستان نے سوموٹو لیتے ہوئے جے آئی ٹی تشکیل دے دی۔
یہ سب تو قانونی بتائیں ہیں لیکن کیا آپ جانتے ارشد شریف شہید اپنی زندگی
میں جتنا پاکستان سے محبت و عقیدت رکھتے تھے اتنا شاید ہی کوئی انسان رکھتا
ہو اور کم ہی لوگ جانتے ارشد شریف شہیدوں کے وراث ہیں، ان کے بھائی میجر
شہید ارشد شریف شہادت کا جام پی کر امر ہوگئے، ان کے والد کمانڈر محمد شریف
بھی شہید ہیں۔ یوں پوچھیں تو ارشد شریف شہید شہیدوں و غازیوں کے خاندان کے
چشم و چراغ تھے۔
اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں شہید ارشد شریف قوم و ملک سے کتنا پیار کرتے
تھے، ارشد شریف ہمیشہ کہتے تھے میں یہیں رہوں گا اور اس مٹی میں دفن ہونگے۔
ارشد شریف شہید نے اپنی زندگی میں ٹیلی ویژن کی دنیا میں اپنا بھرپور کردار
ادا کیا اور پاکستان کے دفاع کی آخری لکیر ثابت ہوئے اور ہر محاذ پر افواج
پاکستان و پاکستان کا دفاع کیا۔
ان کا شمار ان معتبر صحافیوں میں تھا جنہوں نے ہمیشہ جمہوریت و عدلیہ کا
وقار بلند رکھنے میں جدوجہد کی، ارشد شریف شہید واحد صحافی تھے جن کو آغاز
حاصل تھا کہ انہوں نے پاکستان کی سب مقبول ترین جماعت پاکستان تحریک انصاف
کے سربراہ و سابق وزیراعظم عمران خان کے انٹرویوز کیے اور پاکستان کے ہر
شعبے کے لوگ انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ارشد شریف شہید اپنے نفیس
لہجے کی وجہ سے ہمیشہ لوگوں کے پسندیدہ ترین صحافیوں میں سے ایک تھے۔
ارشد شریف شہید ہمیشہ سب سے احترام و عقیدت سے پیش آتے تھے چاہئے اللہ نے
ان کو اتنے بڑے رتبہ پر فائز کیا تھا لیکن وہ عام پاکستان کی سب سے توانا
آواز تھے اور ہر کسی کا ساتھ دینے میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر آگے بڑھ
کر اپنا کردار ادا کرتے تھے۔
ایک چیز جو شاید ہی کسی کو پتا ہو ارشد شریف شہید سے میری زندگی میں کہی
ملاقاتیں رہیں لیکن ہمیشہ انہوں نے بڑے بھائی کی حیثیت سے مجھے وہ محبت دی
جس کا شاید ہی میں کبھی قرض ادا کرسکوں۔
جب جب ارشد شریف بھائی سے ملاقات کے لئے گیا انہوں نے اٹھ کر گلے لگ کر
استقبال کیا اور بطور بھائی زندگی میں بہت ساتھ دیا اور ہمیشہ مجھے سکھایا
ہر چیز چاہئے وہ آج میری صحافت ہے یا کالم نگاری سب کا کریڈٹ اگر کسی کو
جاتا ہے تو وہ شہید ارشد شریف اور ان کی اہلیہ جویریہ ارشد شریف ہیں، میں
جب سوشل میڈیا پر نیا نیا تھا 2016 سے تب دونوں نے مجھے ہر محاذ پر بہت
زیادہ سپورٹ کیا۔ جس کا احسان میں کبھی نا ادا کرسکوں۔
آج شدت سے یاد ارہے ارشد بھائی اور ان کا وہ گلے لگانا اور ہر بات سمجھانا
"حسیب ایسے کرو اور حسیب وہ کرو" سب کچھ آج یاد آتا اور کہتا کاش آپ آج
زندہ ہوتے اور اپنے حسیب کو سپورٹ کرتے۔
آپ اور میں نے ہم سب نے مل کر شہید ارشد شریف کو انصاف دلوانا اور قاتلوں
کو پھانسی لگوانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ ارشد بھائی
نے اس نظام کو للکار کر قوم کی امنگوں کی ترجمانی کی اور قوم کو بے حد شعور
دیا اور سکھایا کہ اپنے حق کے لئے لڑو اور حقیقی معنوں میں اپنا حق حاصل
کرو۔ !!
ارشد شریف شہیدتمام قوم کے لئے عزیز ہیں۔ وہ ایک ایسا انسان تھا جس نے سر
توکٹالیا لیکن کبھی حقیقت بتانے سے پر ہیز نہیں کیا۔ ان کی تحقیقاتی صحافت
ہر اس شخص کے لئے آئینہ تھی جو ملکی خزانے کو لوٹنا اپنا آئینی اور قانونی
و قومی فریضہ سمجھتا ہے۔میں ایسا اس لئے کہہ رہی ہوں کیونکہ وہ چند عناصر
یاکہہ لیں چند خاندان اپنے مطلب کے مطابق آئین میں ردوبدل بھی کر لیتے
ہیں۔بقول ارشد شریف شہید کے میڈیاتو صرف آئینہ دیکھاتا ہے۔ اور اگر اس
آئینے میں آپ کی شکل بد نعمہ نظر آرہی ہے۔ تو آئینہ مت توڑو اپنی شکل کے
خدوخال کو بہتر کرو لیکن ظالموں نے آئینہ ہی توڑ دیا۔
ارشد شریف شہید کا وہ سوال کہ ”وہ کون تھا؟“ اب زبان زد عام ہے۔ جس سوال سے
چھٹکاراحاصل کرنا چاہاتھا اب وہ سوال روزہ محشر بھی پوچھا جائے گا۔اور ”وہ
کون تھا؟“ تو وہ خود بتائے گا ”وہ میں تھا“۔ اس وقت اس کی زبان خود اطراف
کرے گی۔ اللہ ہمیں وہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنا نصیب فرمائے۔
ارشد شریف شہید کی یہ قربانی بے شک ایک عظیم قربانی ہے جو ہمیشہ پاکستانی
قوم یاد رکھے گی۔
آخر میں بس یہی دعا ہے کہ اللہ شہید ارشد شریف کے درجات بلند فرمائے۔ اور
ہماری قوم کو باطل کے آگے سرخروں کرے (آمین)۔
|