توشہ خانہ یا اسٹیٹ ریپازیٹری دراصل ایک ایسا سرکاری
محکمہ ہے جہاں دوسری ریاستوں کے دوروں پر جانے والے حکمران یا دیگر اعلیٰ
عہدیداروں کو ملنے والے قیمتی تحائف جمع کیے جاتے ہیں۔کسی بھی غیر ملکی
دورے کے دوران وزارتِ خارجہ کے اہلکار ان تحائف کا اندراج کرتے ہیں اور وطن
واپسی پر ان کو توشہ خانہ جوکہ کیبنٹ ڈویژن کا ذیلی ادارہ ہے اس میں جمع
کروادیا جاتا ہے۔
قوانین کے مطابق ان تحائف پر پہلا حق اس کا ہے جس کو یہ تحفہ ملا ہوتا ہے
لیکن اگر وہ اسے نہیں لیتا تو پھر سرکاری ملازمین اور فوج کے اہلکاروں کے
لیے نیلامی کی جاتی ہے، اس نیلامی سے جو اشیا بچ جائیں تو انہیں عام عوام
کے لیے نیلامی میں رکھ دیا جاتا ہے۔
کئی بیش قیمت تحائف ایسے ہوتے ہیں جو حکمران پہلے ہی رکھ لیتے ہیں اور
ضابطے کی کارروائیاں بعد میں کرتے ہوئے ان قیمتی تحائف کی مقرر کردہ رعایتی
بلکہ من مانی قیمت کمیٹی سے لگواتے ہیں اور بعد میں ادا کردیتے ہیں اور یہ
سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل میں بھی اس سلسلے کو
اسی طرح جاری و ساری رکھا جائیگا جب تک کہ اچھے اور اصول پسند حکمران
پاکستان کو میسر نہ ہوں۔
یہاں بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں قانون ہمیشہ سے حکمرانوں کیلئے کسی
کھلونے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا، یہاں پہلے بھی حکمران قانون سے کھلواڑ
کرتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
قانون کی پاسداری کی بات کرنا تو پاکستان میں سوائے مذاق کے اور کچھ نہیں
کیونکہ ہمارے حکمران اپنے لئے قانون میں سے کئی راستے نکال لیتے ہیں، یہاں
عوام کیلئے قانون اور ہے اور خواص کیلئے الگ قانون لاگو ہوتا ہے جس کا بین
ثبوت پاکستان کی وہ تمام جیلیں ہیں جہاں 99 فیصد لوگوں کا تعلق پسے ہوئے
طبقے سے ہے۔
اور بقول شاعر:
خطا کسی سے ہو سرزدسزا کسی کو ملے
مریضِ جبر ہو کوئی دوا کسی کو ملے
عجیب رنگِ جہاں ہے عجب نظامِ حیات
تلاشِ حق ہو کسی کو خدا کسی کو ملے۔۔۔
مہذب ممالک اور اقوام میں سربراہانِ مملکت صرف تحائف لیتے نہیں بلکہ دیتے
بھی ہیں اور یہاں اہم بات تو یہ ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں نے صرف تحائف
وصول ہی نہیں کئے بلکہ غریب اور بدحال ملک کے خزانے سے اربوں روپے کے تحائف
غیر ملکی سربراہان کو دیئے بھی جاچکے ہیں تاہم اس کی تفصیلات عام نہیں ہیں،
ان اربوں روپے کے تحائف کا حساب کتاب صرف وزارتِ خارجہ کے پاس ہوتا ہے۔ ان
خریداریوں میں کافی موج میلہ بھی منایا جاتا ہے اور وزارتِ خارجہ میں کافی
لوگ اس خطیر رقم سے تحائف کی خریداری کے وقت مستفید ہوتے ہیں۔
ماضی میں مملکتِ پاکستان میں ہوتا یہ تھا کہ ایک نام نہاد کمیٹی تحائف کی
قیمتوں کا تعین کرتی تھی اور افسوس کی بات کہ یہ کمیٹی اشیاء کی قیمتیں
مارکیٹ کے بجائے حکمرانوں کی منشاء کے مطابق مقرر کرتی تھی جس کی وجہ سے جس
کا جو جی چاہتا تھا وہ توشہ خانہ سے تحائف میں ملی قیمتی اشیاء اونے پونے
داموں لے اُڑتا تھا اور اسے قانون کا تحفظ مل جاتا تھا۔
یہ تو صرف ایک توشہ خانہ کا قصہ ہے لیکن یہاں تو ایل این جی کا کوٹہ سسٹم،
پیٹرول پمپ کے لائسنس، پلاٹس کی بندر بانٹ ،سرکاری ٹھیکوں میں ہونے والی
لوٹ مار اور کلیدی سرکاری محکموں کی تعیناتی جہاں مال و اسباب کی فراوانی
ہو وہاں کسی کو تعینات کرنے کیلئے بھی کروڑوں روپے حاصل کرنا کس سے پوشیدہ
ہے؟ پاکستان کے حکمرانوں نے تو ترقیاتی فنڈز کا بھی ایسا حال کیا کہ اگر ان
قصوں کو چھیڑا جائے تو آپ کو توشہ خانہ کی گرما گرم خبر پس ِپشت نظر
آئیگی۔
اگر ہم 80ء کی دہائی پر نظر ڈالیں تو وہ دور آج سے کئی گنا بہتر تھا، اس
دور میں حکومتِ پاکستان کیلئے خدمات کی انجام دہی کے دوران نظام کو قدرے
بہتر پایا لیکن افسوس کہ اس کے بعد پاکستان میں کرپشن کا ایسا بازار گرم
ہوا جس نے بتدریج بڑھتے بڑھتے ہولناک آگ بن کر پورے نظام کو اپنی لپیٹ میں
لے لیا۔
اب اگر عمران خان کے خلاف بننے والے توشہ خانہ اسکینڈل اور دیگر پابندیوں
اور رکاوٹوں کو دیکھیں تو یہ بات ہمیشہ مد نظر رکھنی چاہیے کہ جب آپ کسی
شخص یا جماعت پر پابندیاں لگائیں یا قیادت کو پابند ِسلاسل کردیں تو اس سے
پابندیاں لگانے والے کے بجائے پابندیوں کا شکار ہونے والے کو زیادہ فائدہ
پہنچ سکتا ہے۔
عمران خان شاید آج اتنے زیادہ مقبول نہ ہوتے لیکن عمران خان کی وزارتِ
عظمیٰ سے بے دخلی کے بعد ملک کے دگرگوں حالت نے عمران خان کی مقبولیت کو
دوام بخشا ہے۔اس لئے اگر کسی قسم کی پابندیاں اور قید و بند کی صعوبتیں
عمران خان کو برداشت کرنا پڑیں تو یقیناً یہ انہی کے حق میں جائینگی کیونکہ
اس ملک میں وکٹم کارڈ کو ہمیشہ پذیرائی ملی ہے۔
حکمرانوں کو شاید یہ گمان ہے کہ پابندیوں اور سختیوں سے وہ بامِ عروج پر
پہنچنے والے کسی سیاسی لیڈر کی مقبولیت کو روک سکتے ہیں تو ان کیلئے شاعر
نے کیا خوب کہا ہے :
افکار کو پابند ِسلاسل جو کروگے
تصویر کی چلمن سے ضیا آتی رہے گی
وقتی طور پر ممکن ہے کہ قید وبند، آنسو گیس اور سختیاں حکمرانوں کیلئے
بہتر یا فائدہ مند ہوں لیکن ضیاء الحق کے دور میں ایم آر ڈی کی تحریک میں
ہم نے دیکھا کہ لوگ اندھی گولیوں کی بوچھاڑ کے باوجود جوق در جوق گھروں سے
نکلتے اور حالات کا سامنا کرتے تھے۔ آج ایسے حالات نہیں ہیں لیکن یہ حقیقت
ہے کہ سیاسی تحریکوں کو طاقت سے روکنا درست نہیں کیونکہ اس کے دُور رس
اثرات ملک و قوم کیلئے نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔
یہاں تشویش کی بات یہ ہے کہ ہمارا ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے، آئی
ایم ایف ہمیں پیسوں کے بجائے ہچکولے دے رہا ہے، معیشت کی تباہ حالی اپنی
انتہاؤں کو چھور ہی ہے اور آنے والے مہینوں میں ہمارے لئے تنخواہیں دینا
بھی مشکل دکھائی دیتا ہے، ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ شفاف انداز میں
معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کی جائے وگرنہ حالات ایسی ڈگر پر چل پڑیں گے
جنہیں سنبھالنا کسی کیلئے ممکن نہیں ہوگا۔
جیسا کہ شاعر نے کہا ہے:
نادیدہ بہاروں کا فسوں ٹوٹ چکا ہے
پژمردگئ رنگِ چمن بول رہی ہے
ممکن ہے کہ لب ساکت و جامد رہیں لیکن
اے اہل ِوطن ! ارض ِوطن بول رہی ہے
|