اورنگ آباد کا نام اورنگ آباد ہی کیوں؟


مفصّل تاریخ جو آپ کو objection بھرنے میں کام آئیگی۔



عوام میں اورنگ آباد قدیم نام کھڑکی سے مشہور ہے ۔ جہاں اورنگ آباد بسا ہے وہاں کوئی آبادی نہیں تھی ۔ گھنا جنگل تھا کھڑکی دکنی زبان میں سنگلاخ کو کہتے ہیں ۔ اس بستی کے چاروں طرف پہاڑیاں ہیں شاید اسی وجھہ سےعوام اسے کھڑکی کھتے ۔ لیکن اورنگ آباد کا پرانا نام کھڑ کی نہیں خرگاھی تھا۔ مرزاصادق اصفهانی اکبر آباد سے جنیر جارہے تھے ۔۔ اور یہاں چنددن قیام کیا اور اس شہرکر کی کی تعریف میں چند شعر کہے

چاردم روز چوں سپردم راه
شہر کرکی شد نا گاد

ملک عنبر جب نظام الملک بحری کی ریاست سے قطع تعلق کر کے بیجا پورمیں چند روز عادل شاہی دربار میں رہا لیکن وہاں سے دولت آباد آیا اور اس کو اپنا مستقر بنایا ۔ شکار کے لیےایک روز گھنے جنگل میں خرگاہ ( خیمه ) قائم کیا۔ چند روز شکار وسیر میں مصروف رہا۔ اس مقام سے بھت خوش ھوا۔اور ایک شھر بسانے کی ٹھان لی اور جھاں اپنا خرگاہ قائم کیا تھا وہاں شہر کی بنیاد رکھی اور اسکا نام خرگاہی رکھا۔ خرگاہی کا نام بگڑ کرخرگہی ہوا اور ذیادہ بگڑا تو کرکی و کھڑکی ہوگیا۔ یہ شہر کھام ندی کے کنارے بساہے ۔ یہ ایک پہاڑی ندی ہے جو ہرسول کے قریب سے نکلتی ہے اور گوداوری ندی سے جاملتی ہے۔ ملک عنبر کے زمانے میں اس کی آبادی دو لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ 1020 ہجری میں ملک عنبر نےمغل فوجوں سے فتح حاصل کی اور کھڑکی کا نام فتح نگر رکھ کر دارالحکومت قرار دیا ۔ملک عنبر کا 1035ہجری میں انتقال ہوا۔
یہ شہر شہنشاہ اورنگ زیب کی بھی یادگار ہے ۔ جس نے اپنی صو بیداری کے زمانے میں اس شہر کومزید خوبصورت بنایا ۔ 1635 عیسوی میں صوبہ دکن شہزادہ اورنگ زیب کے سپرد ہوا۔ انہوں نے فتح نگر کو اپنی راجدھانی بنا یا اور شہر کا نام اورنگ آباد رکھا شہنشاہ اورنگ زیب نے تقریبًا ۳۵ برس اورنگ آباد میں بسر کئے یہی زمانہ اورنگ آباد کے شباب کازمانہ تھا۔ جب شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کا انتقال ہوا تو نواب قمر الدین خان نظام الملک آصف جاہ اول 1720عیسوی میں دکن کے صوبیدار بنا کر بھیجے گئے ۔ شہر اورنگ آباد دکن کا پایہ تخت بنایا۔ آصف جاہ اول نے 1724 عیسوی میں آصف جاہی سلطنت کی بنیاد اورنگ آبادمیں رکھی ۔ 1158ہجری میں ناصر جنگ کو اورنگ آباد کی صو بیداری پر مامور کیا اور1161ہجری کو آصف جاو اول اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔1177 ہجری میں نظام علی خان آصف جاہ ثانی کے عہد میں جب سلطنت کی بنیا د مضبوط ہوئی تو انہوں نے پایہ تخت حیدر آباد منتقل کردیا۔

1601 میں ملک عنبر نے اکبر کی فوج کو شکست دی 1605 میں اکبر انتقال کر گیا اس کا فایدہ ملک عنبر نے اٹھایا اورحکومت مضبوط کرلی ملک عنبر نےقلعہ انتور پر قبضہ کرلیا جس کی وجہ سے جہانگیر کے دور حکومت میں شہجہاں نے کھڑکی پر میں حملہ کیا اور ملک عنبر کو پیچھے ڈھکیلا اور تین دن تک شہر میں خون بہتا رہا اور لوٹ کھسوٹ ہوتی رہی دھلی حکومت کی اندرونی معملات کی وجہ سے ملک عنبر دوبارہ مضبوط ہوگیا اور 1626 انتقال کرگیا ۔1635 میں شہزادہ اورنگزیب دکن کے صوبیدار بنکر آے ۔اس شہر کی فصیل تقریباً 14 فٹ انچی 1682 عیسوی میں اورنگ زیب کے دور حکومت میں بنائ گی یعنی حفاظت اور ترقی کے سارے انتظامات علمگیر نے ہی کیے۔
ویسے تو اورنگ آباد 52 دروازوں کا شھر کہلاتا ہے مگر کیا واقعی 52 دروازے تھے۔اگر تھے بھی تو بھت کم کی تفصیلات ملتی ہیں کچھ کے صرف نام معلوم ہیں کچھ توڈ دیےگے اور کچھ باقی ہیں۔
اورنگ آباد شہر تین قلعے پر مشتمل تھا۔
قلعہ بیگم پورہ (دروازہ 21 کھڑکی 10)
قلعہ بائجی پورہ (دروازہ 4 کھڑکی 5)
قلعہ ارک (دروازہ 5 کھڑکی )
اس طرح دروازے اور کھڑکیاں کی تعداد 45 ہوتی ہے .ان میں سے 4 دروازے کافی بڑےاور شہر کے داخلی دروازے ہے ۔شمال میں دہلی دروازہ (دہلی کی جانب)جنوب میں پیٹھن دروازہ (پیٹھن کی جانب)مشرق میں خاص دروازہ(جالنہ کی جانب) اور مغرب میں مکئ دروازہ(مکّہ کی جانب) اس کے علاوہ دروازے اور کھڑکیاں مندرجہ ذیل ہیں ۔
دروازے:-
1)دہلی دروازہ
2)مکئ دروازہ
3)بیگم دروازہ
4)دولت دروازہ
5)دال منڈی دروازہ
6)چاول دروازہ
7)رنگین دروازہ
8) کالا دروازہ
9)قلعہ ارک دروازہ
10)عام خاص میدان کے قریب دروازہ
11)چھوٹا دروازہ
12)سلام دروازہ
13)بھڑکل دروازہ
14)خضری دروازہ
15)اقبال دروازہ
16)اسلام دروازہ
17)روشن دروازہ
18)خاص دروازہ
19)پیٹھن دروازہ
20)بارہ پلّہ دروازہ
21)شاہ دروازہ
22)راستہ مۓفروشاں کا دروازہ
23)تالاب کلاں کے طرف کا دروازہ
24)خونی دروازہ
25)ظفر دروازہ
26)محمود دروازہ
27)لال منڈی کی طرف کا دروازہ
28)دروازہ محرم باری
29)کیلوں کا دروازہ
30)جعفر دروازہ
کھڑکیاں:-
1)حویلی محلدار خان کی کھڑکی
2)کھڑکی روبرو بارہ دری
3)کھڑکی مغل پورہ
4)کھڑکی محرم باری
5)کھڑکی دولت خآنہ مبارک
6)کھڑکی حمید پورہ
7)کھڑکی دہر پورہ
8)کھڑکی سلطان گنج
9)کھڑکی سلاح خانہ
10)کمہار کھڑکی
11)کھڑکی جمیل پورہ
12)کھڑکی دروازہ
13)شوبھکرن کھڑکی
14)عرب کھڑکی
15)سوگن کھڑکی

دورعنبری ،عالمگیری و آصف جاہی میں شہر اور نگ آباد میں رفتہ رفتہ باغ حویلیاں کثرت سے بنی جہاں حویلی ،محل ومقبرہ ہوتا وہاں باغ کا ہونا لازمی ہوتا ۔مورخ جب تاریخ لکھتا ہے تو کہتا ہیکہ مغلوں نے ہندوستان کے موسم تبدیل کیے اور اسکا جواب ہمیں مغل حکومت کی ہر تعمیر سے ملتا ہے جو بغیرباغات کے نہیں بنتی تھی۔باغات دو طرح کے ہوتے تھے ایک جسے گلستان کہتے ہے اور دوسرا بوستان کہلاتا ہے۔
ایک باغ وہ جودن میں پھولوں کی مہک سے دماغ کو معطر رکھتے اور آنکھیں مختلف قسم کی رنگین پھولوں سے پرنور رہتیں یہ باغ حویلی سےتھوڑے فاصلے پر رہتا گلستان کہلاتا تھا۔
اور دوسراباغ چھوٹے اور بڑے درختوں پر حویلی سے قریب مشتمل رہتا جواپنے اپنے موسم میں پھولوں کی خوشبو سے نہ صرف حویلی بلکہ بہت دور تک فضاء کو رات بھر معطر رکھتے ۔ ایسے باغات بوستان کہلاتے تھے۔ ہر عمارت کے پاس یہ دو طرح کے باغات ہوتے تھے۔
اورنگ آباد میں تقریباً 108 باغات موجود تھے جس میں سے کچھ کے نام اور نشانی ملتے ہیں اور کچھ کے تو نام بھی نہیں ملتے جتنے نام تاریخ میں ملتے ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
1)محمدی باغ ( حمایت باغ)
2)آصف باغ ( آصفیہ کا اونی گھائی)۔
3)احمد باغ ( نرسیس کوارٹر گھاٹی )
4)سپاری باغ (دلی دروازے کے شمال جانب )
5)بیگم باغ (مقبرہ)
6)اعظم باغ ( مقبرہ کے سامنے )۔
7)نار یل باغ ( کھڑ کیشور )
8)شطرنج باغ + چوسر باغ(شاونورواڑی)
9)باغ دلکشا (شیر جنگ کا باغ )
10)جام باغ( عام خاص کی فصیل سے متصل جانب شمال )
11)بسنت باغ (لیبر کالونی )
12)برنی بیگم کا باغ (مرغی نالہ جھونپڑ پٹی)
13)خالہ اماں کا باغ (رؤف کالونی )
14)انگوری باغ
15)منسارام کا باغ ( دیوڑھی بازار )
16)متھراداس کا باغ ( دلی دروازہ کے قریب)
17)جے سنگھ کا باغ (ہرسول)
18)شکار باغ (ہرسول )
19)اسلام خان کا باغ ومقبرہ( روضه باغ )
20)رحیم باغ ( کراڑ پورہ )
21)اٹولا کا باغ ( شاه گنج)
22)محمد خان کا باغ ( سیول ہاسپٹل )
23)وزیر خان کا باغ (محمود پورہ)
24)باغ شہزادی زیب النساء بیگم ( جٹواڑہ )
25)شاہ باغ ( اورنگ آباد )
26)باغ و مقبره چاندنی بیگم (چاندنی چوترہ)
27)باغ ومقبره حاجی شفیع خان
28)باغ و مقبرہ مرزا سلطان صفوی ( ٹونا مقبرہ ،نزدیونیورسٹی )
29)افلاطون خان کا باغ (افلاطون خان کی مسجد فاضل پورہ)
30)ہرکارے کا باغ ( شاه بازار )
31)روشن باغ (روشن دروازے کے باہر )
32)بندے حسن کا باغ (نیورو ڈ منظور پورہ)

اورنگ آباد شہر مالک عنبر نے بنایا اور اکھنڈ بھارت پر سب سے زیادہ حکومت کرنے والے بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے سنوارا ۔اورنگ آباد کی سرزمین اس بات کی گواہ ہیں کے جن بادشاہوں نے یہاں حکومت کی ان لوگو نے شہر کو صرف ترقی دی یہ شہر دور عنبری میں خوبصورت اور ایک بڑا صنعتی مرکز تھا اور اس کے بعد علم و تحقیق کا مرکز بنا اور آج بھی اورنگ آباد ایک واحد جگہ ہیں جہاں دو عالمی ورثے ہیں ۔اور ان سب سے اگے بڑھ کر تہذیب و تمدّن ،علم و ادب اور ملی شناخت کا گہوارہ ہے۔ یہاں بہت سارے محلات اور دیوڑھیاں تھی ۔کچھ کے اثار باقی ہیں کچھ جو سرکاری دفتر بن چکے ہیں وہ اچھی حالت میں موجود ہیں اور کچھ کے تو اثار بھی نہیں ہیں ۔ مندرجہ ذیل محلات اور دیوڑھیاں اورنگ آباد کی سر زمین پر واقع تھی اور ہیں۔
نوکھنڈہ محل (نوکھنڈہ کالج)
زنانہ محل (قلعہ ارک)
مردانہ محل (قلعہ ارک)
رانی محل (گھاٹی)
موتی محل (سرکاری میڈیکل کالج کی عمارت)
گلشن محل (کمشنر کی رہائش گاہ)
دمڑی محل (لینڈ ریکارڈ آفس)
سبز محل(شاہ گنج)
روشن ارا محل(ہرسول)
دیوان دیوڑھی ( گومٹیش مارکیٹ )، سالار جنگ کی دیوڑھی (امام باڑہ )، منصور یار جنگ کی دیوڑھی (انگوری باغ)، پیلی حویلی(شاگنج سے صرافہ جانےوالی سڑک پر)، جے سنگھ کی دیوڑھی ( جے سنگھ پورہ)، جسونت سنگھ کی دیوڑھی ( جسونت سنگھ پورہ) کامگار خان کی دیوڑھی ( موجودہ درگاہ حضرت نظام الدین )، رن مست خان کی دیوڑھی(رن مست پورہ) ،قطب الدین خان کی دیوڑھی ( قطب پوره )، لکولال کی حویلی (فاضل پورہ)،جمنا راجہ کی حویلی، راجہ دیول گاؤں کی حویلی (صرافہ )، بندے حسن کی دیوڑھی ( منظور پورہ) بھیکو میاں کی دیوڑھی (منظور پورہ)، راجہ راجیشور کی دیوڑھیاں (شاه بازار )، راز دار خان کی دیوڑھی ( کرانہ چاوڑی) - منامن کا باڑہ( بائجی پورہ)، میر جنگو کی دیوڑھی ( عقب میر جنگو کی مسجد )، منسارام کی حویلی (دیوڑھی بازار )، حویلی بیان خان ( فاضل پورہ )، حویلی مصطفے خان ( سلطان گنج)، ملا یحیی کی حویلی ۔ حویلی سپہ دار خان، بنگلہ نصیر الد والہ صلا بت جنگ، مدرسہ محمد غیاث خان بہادر، حویلی ، محلدار خان ( مابین اسلام در وازہ )، اسلم خان کی دیوڑھی( محمود پورہ روضہ باغ )، راجہ کرن سنگھ کی دیوڑھی (کرن پورہ )، راجہ بھاؤ سنگھ کی دیوڑھی ( بھاؤ سنگھ پورہ)، راو رمبھا کا کوٹلہ (کوٹلہ کالونی )، دلہن بی کی دیوڑھی ( شاه بازار )، ہاشم نواز جنگ کی دیوڑھی ( شاہ بازار )، خان عالم کی دیوڑھی ( انگوری باغ )، نواب حسین خان کی دیوڑھی ( گاندھی پتلہ )، وٹھل سندر کی حویلی ( چمناراجہ کی حویلی )، دیوڑھی بشیر یار جنگ بہادر(بیگم پورہ)
Asif Jaleel
About the Author: Asif Jaleel Read More Articles by Asif Jaleel: 226 Articles with 276837 views میں عزیز ہوں سب کو پر ضرورتوں کے لئے.. View More