پرانے اور نئے چیف کیلئے کپتان کی خواہشیں

 پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میری اسٹیبلشمنٹ سے کوئی لڑائی نہیں، ملک کی بہتری کیلئے آرمی چیف سے بات کرنے کو تیار ہوں، کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تو میں کیا کروں؟۔صحافیوں سے ملاقات میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کہا کہ میں چیلنج کرتا ہوں مجھ پر اور میری اہلیہ پر ایک کرپشن کا کیس ثابت کر دیں۔آرمی چیف ہی میرے خلاف کوئی کرپشن کا کیس نکال لیں۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو سمجھ نہیں ہے کہ سیاست کیا ہوتی ہے۔گزشتہ روز عمران خان نے کہا کہ جنرل باجوہ نے میری کمر میں چاقو مارا، عمران خان نے کہا کہ روس کے خلاف تقریر کرنے پر جنرل باجوہ کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے جبکہ جنرل عاصم منیر سے ملنا چاہتا ہوں لیکن وہ مجھ سے نہیں مل رہے ایسا لگتا ہے کہ وہ مجھے اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔عمران خان کے درج بالا بیانات تجزیہ کاروں اور سیاسی و غیر سیاسی حلقوں کی سوچ بچار کا مرکز بن چکے ہیں۔میڈیا ٹاکس میں عمران خان کے بیانات پر طرفین کی جانب سے تجزیے نشر کئے جارہے ہیں۔ حکمران جماعت کے سینئر رہنما و وزیر دفاع خواجہ آصف نے گوجرانوالہ میں میڈیا سے گفتگو کے دوران عمران خان پر شاعرانہ انداز میں طنزکیا ہے۔ خواجہ آصف نے عمران خان کا نام لیے بغیر شاعرانہ انداز میں طنز کیا۔انہوں نے کہا کہ ’پرانے آرمی چیف کا کورٹ مارشل چاہتا ہوں، نئے آرمی چیف سے ملاقات چاہتا ہوں، میری دو نمبری دیکھ کیا چاہتا ہوں‘۔ایک بیان میں وزیر دفاع نے کہا کہ عمران خان بار باراسٹیبلشمنٹ کو کہہ رہے ہیں وہ یتیم ہوگئے ہیں انہیں گود لے لیں۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان ورکرز کو کہتے ہیں جیلیں بھرو اور خود زمان پارک میں بیٹھے ہیں۔اسی طرح جمعیت علماء اسلام کے سینئر رہنما مولانا عبدالغفور حیدری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے فوج اور سیاست دانوں کے بارے میں جو زبان اختیار کی وہ ناقابلِ برداشت ہے۔ملکی حالات کی بدتری میں عمرانی حکومت کا بڑا کردار ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمران خان آرمی چیف سمیت کسی سے بھی مل سکتے ہیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن رہنما طلال چوہدری نے عمران خان کے بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اپنے دور حکومت میں تحریک انصاف کہا کرتی تھی کہ آرمی چیف والد کی طرح ہوتے ہیں۔طلال چوہدری نے کہا کہ عمران خان ارسطو بننا چھوڑ دیں اب پرانا دور گزر چکا ہے۔ جب عمران خان لاڈلے ہوا کرتے تھے تب ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا تھا۔انہوں نے کہا کہ یہ وہی شخص ہے جب اس کو اقتدار پر بٹھایا تھا تو باجوہ صاحب بہت اچھے لگتے تھے۔ طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ عدلیہ ہو یا کوئی اور ادارہ عمران خان اسے استعمال کرکے اقتدار تک پہنچنا چاہتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اب حالات بدل چکے ہیں، ادارے اب اپنا کام کرتے ہیں، اقتدار میں لانا یا نکالنا ان کا کام نہیں۔عمران خان کے اتحادی سابق وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہاکہ عمران خان کو آرمی چیف سے ملاقات کرکے غلط فہمیاں دور کرنی چاہئیں۔ پاکستان اندر سے ڈوب رہا ہے۔ سرحدوں پر کوئی خطرہ نہیں۔پاکستانی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف کے بعد عمران خان ان چند سیاستدانوں میں شامل ہیں جوایوان اقتدار، اپوزیشن، سیاسی و غیر سیاسی حلقوں، عوامی حلقوں اور میڈیا میں توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔ عمران خان کا شما ر ان چند خوش قسمت سیاستدانوں میں کیا جاتا ہے کہ جن کے پیروکار ہر حال میں اپنے لیڈر کی ہاں میں ہاں اور ناں میں ناں کرنے کے عادی ہیں۔ بہرحال، بات دوسری جانب چل پڑے گی۔ آتے ہیں اپنے اصل موضوع یعنی سابق وزیراعظم اور پاکستان کی بڑی سیاسی قوت عمران خان کا بیک وقت پرانے آرمی چیف کے کورٹ مارشل اور نئے آرمی چیف کیساتھ ملاقات اور اپنے خلاف کرپشن ثبوت نکالنے کے چیلنج کرنے کے بیانات۔ یاددہانی کے لئے عمران خان کا 15اگست 2022 کا یہ بیان کہ کبھی آپ نے سنا ہے برطانیہ کا آرمی چیف اپوزیشن لیڈر سے مل رہا ہے کبھی بھی نہیں ایسا ہوا۔جبکہ ٹھیک سات ماہ بعدعمران خان صاحب کو بطور اپوزیشن لیڈر پاکستانی آرمی چیف سے ملاقات کی خواہش انگڑیاں لیتی دیکھائی دے رہی ہے۔ دوسری بات اپنے دور حکومت میں حکومتی پالیسی کے برخلاف جنرل باجوہ کے روس کے خلاف بیان پر کورٹ مارشل کا مطالبہ عمران خان صاحب کس سے کر رہے ہیں؟جناب عمران خان صاحب آ پ اپنے اقتدار کو بچانے کی خاطر آخری وقت تک جنرل باجوہ کو استعمال کرنے کی بھرپور کوششیں کرتے رہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومتی پالیسی کے برخلاف بیانات دینے کی پاداش میں عمران خان اپنے اقتدار میں جنرل باجوہ کا کورٹ مارشل کا انتظامات کرواتے لیکن اسکے برعکس عمران خان صاحب دوران اقتدار مستقبل کی طویل مدتی منصوبہ بندی کرتے ہوئے جنرل باجوہ کومدت ملازمت میں مزید تین سال بلکہ اس سے بڑھ کر تاحیات ایکسٹینشن دینے کے لئے آفرز کرتے رہے۔جنرل باجوہ کو دوسری ایکسٹینشن دینے کااظہار خود عمران خان بھی کرچکے ہیں بلکہ ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی آئی ایس پی آر کی مشترکہ پریس کانفرس میں اس بات کی تصدیق ہوئی تھی۔عمران خان کی جانب سے جنرل باجوہ کےخلاف ہرقسم کے الزامات کی نفی خود عمران خان صاحب کے بیانات و اقدامات کرتے دیکھائی دیتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے نزدیک عمران خان کی جانب سے نہ ختم ہونے والی محاذ آرائی نے اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان کیساتھ ماضی جیسے خوشگوار روابط استوار نہ کرنے پر مجبور کردیا ہےکیونکہ عمران خان نے اپنے سب سے بڑے محسن جنرل باجوہ کو نہیں بخشا ، اپنی حکومت کے قیام کے لئے سہولت کاری جیسے احسانات کو بھول کراوراپنی حکومت کی تمام تر ناکامیوں کا ملبہ بھی جنرل باجوہ پر ڈال دیا ۔آخری اطلاعات کے مطابق عمران خان نے سب سے بات چیت کرنے کا عندیہ دے دیا ہے ، جوکہ انتہائی خوش آئیند بات ہے، شائد اسی طرح ملک میں جاری سیاسی و معاشی بحران میں کمی واقع ہوسکے۔
 
Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 207 Articles with 163567 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.