پنجاب کے عملی مسائل اور فکری چیلنجز

ریاستِ پنجاب کے اندر پچھلے سال عام آدمی پارٹی کی زبردست کامیابی نے سبھی کو چونکا دیا حالانکہ ایسی عوامی بے چینی کا اظہار پہلے والے انتخابات میں بھی ہوچکا ہے ۔ آپریش بلیو اسٹار کے بعد ناراض سکھوں نے کانگریس کو سبق سکھانے کی خاطر قومی انتخاب میں سمرنجیت سنگھ مان کے شدت پسند اکالی دل کوبڑی کامیابی سے نوازہ تھا مگرپھر ان کا ساتھ چھوڑ دیا ۔ اب تقریباًچالیس سال بعد پھر سے انہیں سنگرور سے کامیاب کرکے ایوان پارلیمان میں روانہ کیا۔ آپریشن کے بعد اکالی دل کو ریاستی الیکشن میں کامیاب ہوتا رہا لیکن آگے چل کروہ ایک خاندان کی پارٹی بن گیا۔ بی جے پی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے وہ سوچنے لگا کہ اسے کامیاب کرنا سکھوں اور ہندووں کی مجبوری ہے لیکن پھر عوام نے پرکاش سنگھ بادل کو سبق سکھا کر کیپٹن ارمیندر سنگھ کی قیادت میں کانگریس کو اقتدار پر فائز کردیا۔ کسان تحریک کے سبب اکالی دل نے بی جے پی کا ساتھ چھوڑ دیا تھا اس لیے کانگریسی سوچنے لگی اس کی واپسی یقینی ہے مگر اس کو بھی دھول چٹا کر عام آدمی پارٹی کو کامیابی سے نوازدیا گیا ۔

اس الیکشن میں سکھوں کی بیزاری بامِ عروج پر تھی اس لیے انہوں نےسابق وزیر اعلیٰ چنیّ کے ساتھ سدھو کو بھی ہرایا اور پورے بادل خاندان کا صفایہ کرکے عام آدمی پارٹی کو بڑی امیدوں سے اقتدار بخشا لیکن اس نے تو ایک سال کے اندر لوگوں کو مایوس کردیا۔ اس کی ایک وجہ تو ناتجربہ کاری ہے کیونکہ دہلی شہر کی حکومت میونسپلٹی چلانے جیسی ہے جبکہ پنجاب دہشت پسندی کی تاریخ رکھنے والا سرحدی صوبہ ہے ۔ منشیات اور بیروزگاری نے وہاں کے نوجوانوں کو مایوسی کا شکار کردیا ہے۔ پنجاب چھور کرجانے والے دوسرے صوبوں سے زیادہ ہیں ۔ وہاں کسانوں کی سالانہ آمدنی گھٹ رہی ہے۔ باہری مزدوروں کا مسئلہ ہے۔ ان مسائل سے نمٹنے کے بجائے وزیر اعلیٰ بھگونت مان کبھی سستی شہرت کے تماشے کرتے ہیں تو کبھی شراب کے نشے میں دھُت ہوائی جہاز سے اتار دیئے جاتے ہیں۔ ایسے میں پیدا ہونے والے خلاءکو امرت پال سنگھ پورا کررہے ہیں ۔ ان کوپنجاب کے مسائل کاعلم ہے اسی لیے ریاستی مسائل پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاتھا کہ پنجاب کی سرزمین مسائل سے گھری ہوئی ہے۔ اس میں بے روزگار نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ امرت پال سنگھ جانتے ہیں کہ یہی لوگ ان کے انتہا پسند نظریات کی راہ ہموار کریں گے۔پنجاب کے اندر یہ خیال عام ہے کہ امرت پال سنگھ جیسے لوگوں کی تیز رفتار مقبولیت کے لیے متعدد حکومتوں کی مختلف مسائل کو حل کرنے میں تاریخی ناکامی ذمہ دار ہے۔

ریاستِ پنجاب میں ویسے تو کئی عملی مسائل ہیں لیکن امرت پال سنگھ نے کئی فکری چیلنجز بھی پیش کردئیے ہیں جن کا جواب دینے سے لوگ کترا رہے ہیں۔ سنگھ پریوار سے اس کی زور دار مخالفت متوقع تھی لیکن سیاسی مصلحت ان کے پیروں کی بیڑی بنی ہوئی ہے ۔ اکھنڈ بھارت کا نعرہ لگا کر پاکستان کے زیر اثر کشمیر کو واپس لینے کا دعویٰ کرنے والوں کے لیے خالصتان کا مطالبہ سمِ قاتل ہے لیکن اس کا کوئی معقول ردعمل سامنے نہیں آرہا ہے۔ وارث پنجاب دے تنظیم کے سربراہ امرت پال سنگھ خود کو کھلے عام خالصتان کا حامی بتاتے ہیں۔ ان کا سوال ہے کہ اگر ہندو راشٹر کے مطالبے پر بحث نہیں ہوتی تو خالصتان پر کیوں کی جاتی ہے؟ روزنامہ بھاسکر کا نمائندہ جب ان سے پوچھتا ہے کہ ’’پر ہم اور آپ تو ہندوستانی ہیں نا؟‘‘ تو اس کے جواب میں وہ کہتے ہیں ’’یہ جو ٹیگ لائن ہے اسے سمجھیے۔ امریکہ ایک ملک ہے مگر جنوبی امریکہ کے لوگ بھی امریکی ہیں۔ کناڈا کے لوگ بھی امریکی ہیں ۔ اس لحاط سے ہم کہیں کہ ہندوستانی ہیں تو ضروری نہیں کہ ایک ہی ملک میں رہیں گے ۔

امر جیت کے مطابق تنوع کے انکار سےتنازع شروع ہوتا ہے۔ اگر سکھوں کو ہندووں کا حصہ نہیں کہا جاتا تو بات یہاں تک نہیں پہنچتی ۔ نہ دربار صاحب پر حملہ ہوتا ، نہ خودمختاری کی بات آتی۔ ان کے مطابق جمہوریت میں گفت و شنید کو دبایا نہیں جاسکتا۔ سکھوں کی خالصتان کے مطالبے کو بھی دبایا نہیں جاسکتا۔ ان کاکہنا ہے چونکہ ریفرنڈم نہیں ہوا ہے اس لیے یہ معلوم نہیں کہ کتنے سکھ اس کے حامی ہیں لیکن وہ فی الحال استصواب کے بجائے تشہیر کی اجازت چاہتے ہیں ۔ وہ اسے اپنا جمہوری حق مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس پر بات چیت کے بعد اگر سرکار یہ سمجھا دے کہ وہ غلط ہیں تو مان جائیں گے۔ سرکا ر کے ساتھ سمجھوتے کی میز پر امرت پال سنگھ نے ناانصافی کی بھرپائی، جیلوں میں بند سکھوں کی رہائی، پانی ، منشیات ، نقل مکانی پر روک اور اس سے لاحق تہذیبی خطرات کے علاوہ وہ مسائل اٹھا دیئے جو کشمیر میں دفع 370کے تحت دئیے گئے تھے ۔ انہوں نے کہا ہماچل کی طرح پنجاب میں زمین کی خرید پر پابندی ہونی چاہیےاورسرکاری ملازمت میں پنجابیوں کو95% ریزرویشن وغیرہ ۔

امرت پال کے خیال میں جمہوری ملک کے اندر یو اے پی اے جیسے قوانین کی کوئی جگہ نہیں ہےنیز پر امن طریقہ سے خودمختاری کی بات کرنا جرم نہیں ہے لیکن پچھلے دنوں اجنالاکےپولس تھانے سے ایک ملزم کو بزور قوت چھڑوانے کے بعد پنجاب کی سیاست، حکمرانی اور امن و امان پر بے شمار سوالات کو جنم دیا ہے ۔اس کے ساتھ ماضی کی وہ یادیں بھی تازہ ہوگئی ہیں جب ریاست میں عسکریت پسندی اور خونریزی کا بول بالا تھا۔پنجاب کے اندر شدت پسندی کا خاتمہ 6 جون 1984 کو بدنام زمانہ آپریشن بلیو اسٹار سے ہوا جس میں سنت جرنیل سنگھ بھنڈارن والے کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ یہ آپریشن ہندوستانی فوج نے گولڈن ٹیمپل میں انجام دیا تھا کیونکہ اس میں خالصتانی جنگجو پناہ لیے ہوئے تھے۔ حالیہ ہنگامہ آرائیوں کا مرکز 30 سالہ امرت پال سنگھ اپنا تعارف سنت جرنیل سنگھ بھنڈران والے کے پرجوش پیروکارکی حیثیت سے کراتا ہے۔ بھنڈران والے کی بابت سبھی جانتے ہیں کہ وہ خالصتان کے کٹر حامی عسکریت پسند رہنما تھے ۔ محض چھ سات مہینوں کے اندر پنجاب میں خالصتان کےحامی بنیاد پرست مبلغ کے طور پر شہرت یافتہ امرت پال سنگھ بھاری ہتھیاروں سے لیس نہنگ سکھوں کے ساتھ گھومتے ہیں ۔

’’وارث پنجاب دے‘‘ کا سربراہ مقرر ہونے سے قبل وہ دبئی کے اندر ایک انسپورٹ کمپنی میں کام کرتے تھے ۔ اداکار دیپ سدھو نے یہ تنظیم قائم کی تھی۔ اسی دیپ سدھو نے 2021 میں اپنے کسان ساتھیوں کے ساتھ لال قلعہ پر سکھوں کا پرچم نشان صاحب لہرا یا تھا۔ دیپ سدھو کی تصاویر وزیر اعظم اور بی جے پی رکن پارلیمان سنی دیول کے ساتھ شائع ہوچکی تھیں اس لیے شکوک شبہات نے جنم لے لیا تھا ۔ کسان تحریک کے رہنما وں نے اس سے دوری بنائی ہوئی تھی اور دہلی میں کسی فرد کا یوم جمہوریہ کے دن ایسا کچھ کرکے بحفاظت نکل جاناباعثِ حیرت تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ معمولی باتوں پر این ایس اے لگانے والی حکومت نے دیپ سدھو یا امرجیت کو اس قانون کے تحت گرفتار کرنے کی زحمت کبھی نہیں کی؟ دیپ سدھو نے ’’وارث پنجاب دے‘‘ نامی تنظیم کی تشکیل کا مقصد پنجابی عوام کے حقوق کی خاطر مرکز کے خلاف آواز اٹھانا بتایاہے۔ پچھلےسال فروری کے اندر ایک سڑک حادثے میں وہ ہلاک ہو گیا۔ اس کے بعد امرت پال سنگھ کو پر اسرار طریقہ پر ’وارث پنجاب دے‘ کا سربراہ مقررکیا گیاحالانکہ دیپ سدھو سے ان کی کبھی بھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ ان کے درمیان اختلاف کے سبب دیپ نے امرجیت سے رابطہ توڑ لیا تھا ۔

امرت پال کی تقرری بھنڈران والے کے آبائی گاؤں میں کی گئی ۔ اس موقع پر عسکریت پسند لیڈر کی طرح لباس پہن کر یہ پیغام دیا گیا کہ وہ کس کی نمائندگی کررہے ہیں ۔اس تقریب میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی تھی۔ تب سے امرت پال سنگھ نے پنجاب کی سیاست میں قدم جما لیے۔امرجیت سنگھ سکھ مذہب کو فروغ دینے کے لئے ’’پنتھک وہیر‘‘ جیسے لانگ مارچ کرتے ر ہے ہیں۔ ان کی اشتعال انگیز تقریروں نے مختلف تنازعات کو جنم دیاہے۔ان کو عیسائی مشنریوں پر حملے کرتے اور ریاست میں منشیات کی لعنت کے خلاف بولتے ہوئے بھی دیکھا گیا لیکن اجنالا کےمظاہرے نے نہیں عالمی شہرت عطا کردی ۔ امرتسر کے جلوپور کھیرا میں رہنے والے امرت پال سنگھ نے اس ماہ کے اوائل میں اپنے آبائی گاؤں کے اندر ایک سادہ سی تقریب میں برطانیہ کے اندر مقیم کرن دیپ کور سے شادی کی ۔ اس موقع پر بیرون ملک جانے کی حوصلہ شکنی کرنے والے رہنما سے پوچھا گیا کیا شادی کے بعد بھی وہ اپنی این آر آئی بیوی کے ساتھ امرتسر میں رہیں گے ؟ تو ان کا جواب تھا کہ یہ شادی ریورس مائیگریشن کی مثال ہے۔ وہ اور ان کی بیوی پنجاب میں ہی رہیں گے۔امرجیت کو لوگ’’بھنڈران والا 2.0‘‘ کہنے لگے ہیں۔وہ خالصتان کے مقصد کو فکری نقطہ نظر سے دیکھنے اور اس کے جیو پولیٹیکل فائدوں پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک نظریہ ہے اور نظریہ کبھی نہیں مرتا ۔

 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449578 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.