ملک ایک طرف سنگین معاشی مسائل سے دو چار ہے تو دوسری
جانب قومی اعلی اداروں کی باہمی اختلافات نے ایک خطرناک صورتحال اختیار کر
لی ہے۔حالات کا تقاضا تویہ ہے کہ ایسے میں حکومت بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے
اور روز روز لگنے والے اس تماشے کو بند کرنے کیلئے قانونی راستہ اپنائے اور
جان لیوا مہنگائی ، بھوک و مفلسی سے نبرد آزما عوام کو اس بے یقینی کی
کیفیت سے باہر نکالے۔وگرنہ حالات کا بگڑنا کوئی نیک شگون نہیں بلکہ کسی بڑے
طوفان کا پیش خیمہ دکھائی دیتا ہے۔پی ٹی آئی سربراہ کی تو ضرورت ہے کہ وہ
سڑکوں پر رہیں ، تاکہ سٹریٹ پاور کو شو کرتے ہوئے حکومت سمیت دیگر اداروں
پر دباؤ بڑھا رہا۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ کس طرح عمران خان کی کورٹ پیشی کے
موقع پر پی ٹی آئی کارکنوں نے توڑ پھوڑ کی اور سرکاری املاک کو نقصان
پہنچایا۔سوال تو یہ ہے کہ آ خر عمران خان کے ساتھ قانون موم سے بھی زیادہ
نرم ہوتا جا رہا ہے۔عدالت عظمیٰ نے سوموٹو ایکشن کے ذریعے الیکشن کی تاریخ
بھی دیدی ۔ انتخابات مقررہ وقت پر انعقاد اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از
وقت ہے۔ پی ٹی آئی کی مکمل کوشش ہے کہ وہ صرف اسٹیبلیشمنٹ سے بات کرے۔جبکہ
سا ئفر سے لیکر جیل بھرو تحریک تک ان کے سارے یوٹرن سامنے آ چکے ہیں۔یعنی
ملک کا مایہ ناز و مقبول ترین سیاسی لیڈر سیاسی قوتوں کے بجائے ان سے بات
چیت کرنا چاہتے ہیں جن کا سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں بنتا۔قبل ازیں عدلیہ
کو بھی متنازع بنا کر رکھ دیا ہے۔اپنے مفادات اور حکمرانی کی لالچ نے ملک
کو سیاسی انتشار کے اندھے کنوئیں میں دھکیل دیا ہے ۔ اس عدم استحکام کا
خمیازہ بے چاری بے بس قوم کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔سیاسی پارٹیوں نے ہوس
اقتدار میں اخلاقیات کو ہی پس پشت ڈال دیا ہے۔ایک جانب پی ٹی آئی سربراہ
سمیت اس کے رہنما سیاسی مخالفت میں اس قدر آگے نکل گئے کہ اپنے حریفوں کو
برے القابات سے پکارا گیا۔اس ایجاد کا سہرا پی ٹی آئی کے سر ہی ہے۔تو دوسری
جانب ن لیگ کے رہنما اپنے سیاسی جلسوں میں ایسے ہی نازیبا الفاظ استعمال کر
تے ہیں جو قومی مفاہمت کے حق میں بہتر نہیں۔ واضح رہے کہ ملک میں عدم
برداشت اور گالم گلوچ کا یہ کلچر قوم و ملت کے زہر قاتل ہے۔المیہ تو یہ ہے
کہ ریاست کے سٹیک ہولڈرز میں جس معیار کی دور اندیشی اور تدبر کی ضرورت
ہے۔وہ دور دور تک نظر نہیں آ رہا ہے۔
نظام انصاف ‘ انتظامیہ مفلوج ہو چکی ہے‘ عدلیہ میں سیاسی نوعیت کے مقدمات
اور پٹیشنز کی بھرمار ہے جب کہ عام شہریوں کے مقدمات برسوں سے التوا میں
پڑے ہوئے ہیں۔ چنانچہ اس سیاسی خلفشار اور محاذ آرائی کے نتیجے میں پاکستان
ایک ایسے کثیر الجہتی بحران کی لپیٹ میں ہے، جس سے نکلنے کی کوئی راہ
حکمران طبقوں کو نہیں سوجھ رہی۔ ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت کو موردِ
الزام ٹھہراکر ملک کو ایک نئے بحران کے حوالے کرکے رخصت ہوجاتی ہے۔ ایسے
میں غریب عوام جائیں تو کہاں جائیں؟، مہنگائی، افراط زر اور معاشی بحران کا
زیادہ تر بوجھ مختلف ٹیکسز اور یوٹیلٹی بلز کی صورت میں آئے روز ہوشربا
اضافوں کے ذریعے عوام پر ڈال دیا جاتا ہے۔گزشتہ چار برس کے دوران روپے کی
قدر نصف رہ گئی ہے۔ ایسے میں اجرت اورتنخواہوں میں اضافہ کم از کم 50 فیصد
توہونا چاہیئے تھا جس کی طرف کسی کی کم ہی توجہ ہے۔عام شہری کیلئے معیشت ہی
سب سے بڑا مسئلہ ہے اورملکی معیشت بدقسمتی سے بحران در بحران کا شکار
ہے۔پاکستان اسٹارٹ اپس اور نالج اکانومی میں شاید دنیا کے پسماندہ ترین
ممالک میں سے بھی بہت پیچھے ہے۔ہمارے لوگ دنیا بھر میں جاکر ہر شعبہ زندگی
میں نہ صرف اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہیں بلکہ کامیابی کے وہ جھنڈے
گاڑتے ہیں کہ دنیا ششدر رہ جائے۔سوال یہ ہے کہ ہمارے سسٹم میں وہ کونسی
خرابی ہے جو ہمارے شہریوں کو موجودہ نظام میں ترقی کرنے سے روکتی ہے اور
جیسے ہی ہمارے لوگ پاکستان سے باہر جائیں وہ کامیاب ہوجاتے ہیں؟ارباب
اختیار کو اس بارے میں ضرور سوچنا ہوگا۔عالمی بینک کی عالمی معاشی اثرات سے
متعلق رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مہنگائی 70 ء کی دہائی کے بعد بلند ترین
سطح پر پہنچ گئی ہے،زرمبادلہ کے ذ خائر بہت کم رہ گئے ہیں۔ معیشت ڈوب رہی
ہے۔ ایسے میں عوام کو شدید دشواری ہورہی ہے۔ رواں سال پاکستان کی شرح نمو
میں6 فیصد کمی کا امکان ہے۔ اس سے قبل پاکستان کی شرح نمو میں4 فیصد اضافے
کی پیش گوئی کی گئی تھی۔ بدترین سیلاب اور سیاسی بحران پاکستان کی معاشی
مشکلات کے اہم اسباب ہیں۔ بیرونی قرض بھی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ حالیہ سیلاب
کے باعث جی ڈی پی کو1.4 فیصد کے برابر نقصان پہنچا۔ ڈالر کے مقابلے میں
روپے کی قدر14 فیصد گر گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے معاشی ایمرجنسی کے نفاذ کو
خارج از امکان قرار دینے کے باوجود پاکستان میں زرمبادلہ کے زخائر میں کمی
اور آئی ایم ایف سے اگلی قسط آنے میں تاخیر کی وجہ سے معیشت سے متعلق تشویش
بڑھتی جا رہی ہے۔چین نے مشکل وقت میں مدد کر کے پاکستان کے لیے آسانی پیدا
کر دی ہے۔ اب پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ طے پانے کے امکانات
بھی روشن ہو گئے ہیں لیکن اصل سوال پھر وہیں ہے کہ عوام کو ریلیف کیسے ملے
گا؟ اور حکومت کے پاس اس حوالے سے کیا طریقہ کار موجود ہے۔ بلا شبہ پاک چین
دوستی ہمالیہ سے بلند ، شہد سے میٹھی ہے جس کا ثبوت دیتے ہوئے ایک بار پھر
ہمارے دوست چین نے تقریباً 6.5 ارب کی بیرونی ادائیگیاں کی ہیں جن میں دو
ارب چینی بینکوں جب کہ ساڑھے تین ارب دیگر عالمی بینکوں کو دیے ہیں۔وفاقی
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں تصدیق کی کہ چائنیز بینک
آئی سی بی سی نے تمام کارروائی مکمل ہونے پر پاکستان کے لیے ایک ارب 30
کروڑ ڈالر کی فنانسنگ رول اوور کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ پاکستان کو چائنیز
بینک سے یہ رقم تین قسطوں میں ملے گی۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا ٹویٹ میں
مزید کہنا ہے کہ 50 کروڑ ڈالر کی پہلی قسط اسٹیٹ بینک کو موصول ہوچکی ہے۔
چائنیز بینک سے پچاس کروڑ ڈالر ملنے کے بعد ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں
اضافہ ہوا ہے۔لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ عوام کو کوئی ریلیف ملے گا یا نہیں
؟ یا انہیں اسی طرح طفل تسلیاں دے کر ہی کام چلایا جائے گا ۔فکریہ لمحہ تو
یہ ہے کہ ہمارے سیاسی قیادت کو بھی ہوش کے ناخن لینا چاہئیے وہ سب مسائل کو
اتفاق رائے سے حل کی طرف لے جانے کے بجائے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر بیٹھے
ہوئے ہیں ۔ اگر کسی ایک وقت میں کوئی بھی اپوزیشن بہتر حکمت عملی اور ملکی
مفادات کے پیش نظر کام کرے تو حالات بہتر ضرور ہوتے لیکن بدقسمتی سے آج تک
کسی نے ایسا نہیں کیا۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات اس کی بڑی مثال ہیں۔
ہارنے والوں نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے کے بجائے نظام کو مشکوک بنانے کا
سلسلہ شروع کر دیا۔ کون ضمانت دے سکتا ہے کہ عام انتخابات میں تمام پارٹیاں
انتخابی نتائج تسلیم کر لیں گی ۔یقیناً نہیں کیے جائیں گے۔ حالات یہی ہوں
گے پھر ملک کی سڑکوں پر مظاہرے ہو رہے ہوں گے۔ دراصل سب ہی وزارت عظمی کے
امیدوار ہیں اور اس خواہش کی تکمیل کے لیے چاہے کتنی تباہی کیوں نہ ہو جائے
ان سب کی منزل ایوان وزیراعظم ہی ہے۔ یہ کیسی جمہوریت کا طرز عمل ہے۔ سیاسی
رہنماؤں کے یہی رویے دنیا بھر جگ ہنسائی کا باعث بن گئے ہیں ۔اور مہنگائی
کی چکی میں پستی بے چاری عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ |