راہل گاندھی: آئینہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے

راہل گاندھی کا برطانوی دورہ فی الحال موضوعِ بحث بنا ہواہے۔ ایک زمانے میں مودی جی پر غیر ملکی دوروں کا جنون سوار تھا۔ یوروپ اور امریکہ میں رقص و سرود محفل میں شرکت کے لیے ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے۔ مودی جی یہ مفت میں فراہم کردیتے تھےاس لیے لوگ جمع ہوجاتے اور درمیان میں مودی جی کی تقریر زہر مار کرلیتے ۔ اس خطاب کو ہندوستان میں براہِ راست نشر کروا کر گودی میڈیا یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا کہ ساری دنیا کے مودی پر فداہے ۔اس طرح مودی جی خودبھی اپنے فریب میں مبتلا ہوگئے اورنرگسیت کے زیرِ اثر اعلان کردیا کہ پہلے لوگ ہندوستانی ہونے پر شرمندہ ہوتے تھے اور مودی کے الفاظ میں کہتے ’ہم نے کیا گناہ کیا تھا جو ہندوستان میں پیدا ہوگئے؟‘لیکن اب فخر محسوس کرتے ہیں یعنی یہ چمتکار مودی جی کے اقتدار کی بدولت رونما ہوگیا ۔ اُس وقت کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ وزیر اعظم نے اپنے پیش رو حکومتوں کی اہانت کے ساتھ پورے ملک کی توہین فرمادی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے سر زمینِ فرانس میں کہا تھا کہ، "ہم نے پچھلے پانچ سالوں میں کئی سماجی برائیوں کی بیخ کنی کردی ہے۔ نئے ہندوستان میں بدعنوانی، اقربا پروری، لوگوں کے پیسے کی لوٹ مار، دہشت گردی کے خلاف جس طرح کارروائی کی جا رہی ہے ویسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔" اس طرح انہوں نے غیر ملکی سر زمین پر ملک کے اندرپہلے جاری و ساری اقربا پروری ، لوٹ مار اور بدعنوانی کا اعتراف کیا تھا۔ یہ حسن اتفاق ہے فرانس کے اندر ہی ان پر رافیل جنگی جہازوں کی خرید میں رشوت خوری کا الزام لگا اور پوار ملک چوکیدار چور ہے کے نعرے سے گونج اٹھا۔ قطر میں وزیر اعظم نے کہا تھا کہ، "ہم نے (ابھی تک )صرف سطحی (بدعنوانی) کو صاف کیا ہے اور تفصیلی صفائی باقی ہے۔" بدعنوانی کی موجودگی کےاس اعتراف پر کوئی اعتراض نہیں ہوا ۔ ویسے اڈانی کی مددسے مودی جی نے بدعنوانی کاجو ریکارڈ بنایا ہے کہ اس کو توڑنا ماضی تو کجا مستقبل میں بھی کسی وزیر اعظم کے لیے مشکل ہوگا۔

مودی جی کے غیر ملکی دوروں کی تاریخ بہت دلچسپ ہے۔ وزیراعظم بننے کے بعد پہلے ہی سال آٹھ مہینوں میں انہوں نے آٹھ دورے کردئیے اور دوسرے سال تو چوبیس ممالک ہو آئے۔ سرکاری خرچ پر مفت میں دنیا بھر کی سیر کرنے کا موقع ملے تو اس کو بھلاکون ضائع کرے گا؟ لیکن اب ان کا موہ بھنگ ہوچکا ہے یا وہ تھک چکے ہیں ۔پچھلے پورے سال میں انہوں نے صرف دس ممالک کا دورہ کیا۔ اس میں سے ایک شیخ خلیفہ کے انتقال پر غیر سرکاری دورہ تھا اور ایک سابق جاپانی وزیر اعظم کی میت میں شریک ہونے کے لیے سرکاری دورہ تھا۔ ان دونوں کو کم کردیا جائے تو وہ صرف آٹھ ممالک میں بادلِ نخواستہ گئے۔ ان دوروں پر بھی پہلے جیسا دھوم دھڑاکا یعنی ناچ گانا اور بھاشن بازی نہیں تھی۔ غیر ملکی دوروں کے جوش ِ جنون کی خستہ حالی پر علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں

نریندر مودی ہندوستان کے وہ واحد وزیر اعظم ہیں جن پر عہدہ سنبھالنے سے قبل گجرات فساد کے سبب امریکہ سمیت کئی ممالک میں داخلے پر پابندی تھی۔ شاید یہی وجہ ہوکہ موقع ملتے ہی انہوں نے اس کا بھر پور استعمال کیا۔ وہ جس وقت امریکہ گئے تو ان کی ایک پرانی تصویر شائع ہوئی جس میں کچھ گجراتیوں کے ساتھ کھڑے جھولا ٹانگےدکھائی دیتے ہیں۔ ان دوروں پر مودی جی نے کیا کیا یہ کوئی نہیں جانتا ممکن ہے پارٹی کے لیے کچھ چندہ وغیر جمع کیا ہو ۔ اس کے برعکس راہل گاندھی جب غیر ملکی دورے پر جاتے ہیں تو دھوم مچ جاتی ہے۔ فی الحال برطانیہ کے دورے پر ان کا اپنے مادرِ علمی کیمبرج یونیورسٹی میں پرو وائس چانسلر اور کیمبرج بزنس اسکول میں حکمت عملی اور پالیسی کےپروفیسر کمل منیر نے راہل گاندھی کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ان کا تعلق عالمی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ وہ ایک ایسے خاندان سےتعلق رکھتے ہیں جس نے ہندوستان کی بڑی خدمت کی ہے۔جواہر لعل نہرو جو آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم تھے ان کی بیٹی کے پوتے راہل گاندھی ہیں۔ نہرو کیمبرج کے سابق طالب علم بھی تھے۔ اندرا گاندھی جن کے راہل گاندھی پوتے ہیں وہ ملک کی تیسری وزیر اعظم تھیں۔راجیو گاندھی کیمبرج کے سابق طالب بھی علم اور ہندوستان کے وزیر اعظم بھی تھے ۔ راہل گاندھی ان کے بیٹے ہیں ۔ یعنی اندرا گاندھی کے علاوہ سبھی نے کیمبرج میں تعلیم حاصل کی ۔یہ اعزاز تومودی جی کو حاصل نہیں ہوسکتا۔

ان موروثی چیزوں سے علی الرغم راہل گاندھی نے پریس کانفرنس کی وہ تو وزیر اعظم مودی کرسکتے ہیں مگر نہیں کرتے ؟ کیوں نہیں کرتے یہ ایک سوال ہے؟؟ وہ اگر چاہیں تو یونیورسٹی میں خطاب بھی کرسکتے ہیں لیکن انہیں بلایا نہیں جاتا ۔ کیوں نہیں بلایا جاتا ؟ یہ بھی ایک سوال ہے؟؟ مودی کی سرگرمیاں ہندوستانی نژاد تارکین وطن یا ہاوڈی مودی اور نمستے مودی تک کیوں محدود رہتی ہیں ؟ یہ بھی ایک معمہ ہے ؟؟ خیر ایسے بے شمار سوالات ہیں جن کاکوئی جواب سنگھ پریوار کے پاس نہیں ہے۔ راہل گاندھی نے لندن میں جب یہ کہہ دیا کہ آر ایس ایس نامی انتہا پسند اورفسطائی تنظیم نے ہندوستان کے تقریباً تمام اداروں پر قبضہ کر لیاہے۔ پریس، عدلیہ، پارلیمان اور الیکشن کمیشن سب خطرے میں ہیں تو پورا سنگھ پریوار جل بھُن گیا ۔ انہوں نے آگے بڑھ کر یہ بھی کہا کہ ہندوستان میں دلتوں، آدی واسیوں اور اقلیتوں کے ساتھ جو کیا جا رہا ہے وہ آپ دیکھ سکتے ہیں ۔راہل نے دعویٰ کیا کہ آپ کسی بھی اپوزیشن لیڈر سے پوچھ سکتے ہیں کہ ایجنسیوں کو کیسے استعمال کیا جا رہا ہے؟یہ حملہ جس آگ کو لگانے کے لیے کیا گیا تھا وہ خوب بھڑکی اور راہل گاندھی کو نظر انداز کرنے والا گودی میڈیا ان پرٹوٹ پڑا اور عدو کا بھلا کردیابقول مصطفیٰ خان شیفتہ؎(ترمیم کی معذرت کے ساتھ)
الزام کے دینے سے تو الزام نہ ہو گا ​
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا​

تاریخ اپنے آپ کو دوہرا رہی ہے۔ ایک زمانے میں مودی کی مخالفت نے انہیں مشہور کردیا تھا اور اب یہی راہل کے ساتھ ہورہا ہے۔ راہل کا مقابلہ کرنے کے لیے بی جے پی نے ’دیش کے غداروں کو ،گولی مارو سالوں کو‘ کا نعرہ لگانے والے بدزبان مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکرکو میدان میں اتار ااور انہوں نے وہی پرانا راگ الاپ دیا۔ وہ بولے کہ راہل گاندھی جی، ہندوستان کے ساتھ غداری نہ کریں۔ ہندوستان کی خارجہ پالیسی پر اعتراضات اس مسئلے کے بارے میں آپ کی ناقص فہم کا ثبوت ہیں۔ آپ نے غیر ملکی سرزمین سے ہندوستان کے بارے میں جو جھوٹ پھیلایا ہے کوئی بھی اس پر یقین نہیں کرے گا ۔ ایسا ہی ہے کہ کوئی بھی اس پر یقین نہیں کررہا ہے ہوتا توآخر تو انوراگ ٹھاکر کواس کا جواب دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان کڑوی سچائیوں کی مخالفت نے راہل کی مقبولیت میں جو اضافہ کیا ہے اس سے مودی سرکار پریشان ہے۔

آرایس ایس کے علاوہ راہل گاندھی کا دوسرا حملہ ملک میں نافذ آمریت پر تھا۔ انہوں نے کہا، ’ہندوستان میں جمہوریت ایک عالمی عوامی بھلائی ہے۔ ہندوستان بہت بڑا ہے اور اگر ہندوستان میں جمہوریت کمزور ہوتی ہے تو وہ کرہ ارض پر کمزور پڑ جاتی ہے۔ ہندوستان کی جمہوریت امریکہ اور یورپ سے تین گنا بڑی ہے اور اگر یہ جمہوریت ٹوٹ جاتی ہے تو یہ زمین پر جمہوریت کے لیے بہت بڑا دھچکا ہوگا۔ راہل گاندھی نے ہندوستان کے جمہوری ڈھانچے پرحملوں کا ذکر کرکے کہا بی جے پی ملک کو خاموش کرنا چاہتی ہے ۔ انہوں نےالزام لگایا کہ ہمیں نوٹ بندی جیسے تباہ کن معاشی فیصلہ پر بولنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ ہمیں چینی فوجیوں کے ہندوستانی علاقے میں داخلے پر بات کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ گھٹن کا ایک دور چل رہا ہے اور یہ صرف کانگریس نہیں کہہ رہی ہے بلکہ ہندوستانی جمہوریت کولاحق سنگین مسائل کو اجاگر کرنے والے مضامین ہمیشہ غیر ملکی میڈیا میں شائع ہوتےرہتے ہیں۔

یہ حسن اتفاق ہے کہ ابھی راہل وطن لوٹے بھی نہیں کہ سویڈن میں قائم ورائٹیز آف ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ نے انکشاف کیا کہ گزشتہ دس سالوں کے اندر ہندوستان ’بدترین آمروں‘ میں سے ایک رہا ہے۔۔ ایک آزادعالمی تحقیقی ادارے کا جائزہ جسے تقریباً 4,000 ماہرین نے تیار کیا یہ اعلان کرتا ہے کہ "ہندوستان کی حکمران بی جے پی وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں مذہبی آزادی کو دبا رہی ہے‘‘۔یہ رپورٹ ہندوستان کے اندر سیاسی پولرائزیشن میں سب سے زیادہ اضافہ کی تصدیق کرتی ہے ۔یہ منافرت اقتدار کی خاطر جمہوری اصولوں کو ترک کرنے پر اکساتی ہے۔اس حقیقت کا مظاہرہ ہر انتخابی مہم میں ہوتا ہے۔ رپورٹ میں یہ اعتراف موجود ہے کہ پولرائزیشن کی زہریلی سطح اکثر مطلق العنان رہنماؤں کی حمایت میں اضافہ کرتی ہے۔ بی جے پی کی انتخابی کامیابیاں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ دو سال پہلے اسی ادارےنے ہندوستان کو انتخابی آمریت سے موسوم کردیا تھا ۔پچھلے سال اس نے ہندوستان کو دس بدترین آمریت میں شمارکیا اور اس بار انتخابی جمہوریت کی عالمی درجہ بندی میں اسے 108 واں درجہ دیا ہے ۔ راہل گاندھی پر تنقید کرنے والے کیا اس رپورٹ بھی جھٹلا دیں گے؟سنگھ پریوار کی موجودہ جھنجلاہٹ پر پرویز انجم کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
عیب ہر شخص میں جو ڈھونڈ رہے تھے انجمؔ
آئنہ ان کو دکھایا تو برا مان گئے


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451493 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.