عمران خان۔ قسمت کا دھنی سیاستدان

 پاکستانی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف، الطاف حسین کے بعد عمران خان ان چند سیاستدانوں میں شامل ہیں جو ہر وقت چاہے ایوان اقتدار ہو یا اپوزیشن، سیاسی و غیر سیاسی حلقوں، عوامی حلقوں اور میڈیا میں توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔ عمران خان کا شمار چند خوش قسمت سیاستدانوں میں بھی کیا جاتا ہے۔ عمران خان کی شہرت کا طوطی سیاست میں انٹری سے بہت پہلے ہی سے بول رہا ہے۔ یہ کہنا دروغ گوئی نہ ہوگا کہ پاکستان کے شہر شہر گاؤں گاؤں میں کرکٹ کے کھیل کی پہچان و شہرت عمران خان اور جاوید میانداد کی بدولت ہے۔ 1992 کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے کے بعد شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کی تعمیر نے عمران خان کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ 1996 سے سیاست کا آغاز کیا ۔ 30 اکتوبر 2011 کے لاہور جلسہ عام کے بعد عمران خان نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا۔ ان 11 سالوں میں عمران خان نے وقت کیساتھ مختلف بیانئے دیئے۔ زرداری کو چور ڈاکو کہا مگر سینٹ الیکشن میں اسی زرداری کی بدولت اپنا چیئرمین منتخب کروالیا جو ابھی تک مسند اقتدار پر براجمان ہیں۔ پرویز الہیٰ کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دیتے رہے مگرانہی کو صوبائی اسمبلی کا اسپیکر اور بعد میں وزیراعلیٰ بنوا دیا۔ اور اب اپنی سیاسی جماعت کا صدر محترم بھی بنا ڈالا ہے۔ جناب شیخ رشید صاحب کو چپڑاسی جیسے القابات سے نوازتے رہے ۔ پھر انہی کو اپنی کابینہ میں شمولیت کا موقع بھی فراہم کیا۔کبھی جہانگیر ترین اور علیم خان انکی آنکھوں کے تارے تو کبھی یہ تارے زمین پر۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر خوب سیاست چمکائی مگر اپنے دور اقتدار میں نامزد ملزم بیوروکریٹس کو چن چن کر اعلیٰ ترین عہدوں پر ترقیاں دیں۔ ہالینڈ کے وزیراعظم کی سائیکل پر دفتر جانے کی مثالیں دینے والے عمران خان وزیراعظم آفس سے چند کلومیٹر فاصلہ پر واقع اپنی ذاتی رہائش گاہ سے ہیلی کاپٹر پر سفر کرنا پسند کرتے رہے۔ صحت، تعلیم جیسی بنیادی ضروریات کے لئے آواز بلند کرنے والے عمران خان صاحب نے اپنے دور اقتدار میں سوائے شوکت خانم پشاور اور کراچی برانچوں کے تعمیری منصوبوں کے علاوہ کوئی بڑا سرکاری ہسپتال، یونیورسٹی تعمیر نہ کرواسکے۔ مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے لئے امپائر اور بابے رحمتوںکے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے میں کامیاب رہے، دوران اقتدارامپائر کا کندھا استعمال کرکے ہر سیاسی حریف کو انارکلی کی طرح دیوار میں چنتے رہے۔ امپائر کی سرپرستی کی بدولت سیاہ سفید کے مالک بنے رہے، اور یہ بھول گئے کہ امپائر کبھی بھی کسی کا سگا نہیں ہوتا، پاکستانی تاریخ میں امپائر جس کو بھی اقتدار میں لیکر آئے پھر اسی کو گھر کی راہ بھی امپائر ہی نے دکھلائی۔ دوران اقتدار امپائر کیساتھ کندھے کے ساتھ کندھا ملاتے رہے اور یہ دعویٰ کرتے رہے کہ ہم سب ایک ہی صفحے پر موجود ہیں۔ دوران اقتدار اپنے آپکو پاکستانی تاریخ کا طاقتور ترین وزیراعظم اورہر کام میری مرضی سے طے کیا جاتا ہے کا دعوی کرتے رہے۔ مسند اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد اپنے سب سے بڑے محسن امپائر کو نان سٹاپ لعن طعن کا نشانہ بناتے رہے دوسرے لفظوں میں اپنے آپکو کٹھ پتلی ثابت کردیا۔ جناب عمران خان قسمت کے دھنی ہیں جنکو وزیراعظم بننے سے پہلے، وزارت عظمیٰ کے دوران بابے رحمتوں،امپائروں کا ساتھ نصیب رہا۔ حتی کہ کچھ مشہور و معروف مذہبی موٹیویشنل اسپیکرز کا بھی ساتھ نصیب ہوا۔ جناب عمران خان کے لئے حصول اقتدار کے لئے رستے ایسے صاف کئے گئے جیسا کہ کسی مہمان کی آمد پر گھر والے صفائی ستھرائی کا کام کرتے ہیں۔ دوران اقتدار جناب نے وزارت عظمیٰ کو خوب انجوائے کیا۔ چن چن کر اقربا پروری کا مظاہرہ کیا۔ امریکہ میں بیٹھے اپنے عزیز کو صحت کا شعبہ حوالے کردیا، اور امریکی عزیز آن لائن خدمات کا بھاری معاوٖضہ پاکستانی خزانہ سے لیتے رہے۔ اپنی سالی صاحبہ کو بھی ایچ ایس سی میں فٹ کروایا۔ شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو کابینہ کا حصہ بنائے رکھا۔ احتساب کا نعرے بلند کرکے اقتدار میں آنے والے جناب عمران خان نے اپنے دور حکومت میں وزیروں اور مشیروں کی کرپشن کے کیسوں پر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے رکھیں۔ نیب کے چیئرمین نے حکومتی وزراء کے ریفرنس دائر کرنے کا عندیہ دیا تو موصوف کی سر تا پاؤں چمی والی ویڈیوز ریلز کروادی گئیں۔ صحت، ادویات، گندم، مالم جبہ، پشاور ماس ٹرانزٹ بس، بلین ٹری میں میگا کرپشن کیسوں کی فائلوں پر منوں مٹی ڈلوادی گئی۔ اپنے ہر منصوبے دعوے پر یوٹرن لیتے رہے اور یوٹرن لینے کو عظیم لیڈر کی نشانی قرار دیتے رہے۔ خان صاحب کی عظمت کی مزید باتوں کو لکھنے کادل چاہ رہا ہے مگر بوجوہ اخبار کے ایڈیٹوریل صفحہ بندہ ناچیز کے لئے مشکل ہے کہ جناب کی عظمت بارے مزید لکھے۔ بہرحال ان سب باتوں کے باوجود جناب عمران خان صاحب قسمت کے واقعی دھنی سیاسی لیڈر ہیں کہ جنکے پیرو کار ہر لمحہ ہر موقع پر اپنے لیڈر کی ہر بات کو من و عن تسلیم کرلیتے ہیں۔ اور عمران خان صاحب کے پیروکار اپنے لیڈر کے خلاف ہونے والی سچی، حقیقی تنقید پر بھی جذباتی ہوکر سیخ پاہ ہوجاتے ہیں۔ شاید خان صاحب کے پیروکاروں کے نزدیک عمران خان صاحب غلطی کر ہی نہیں سکتے۔ چاہے وہ کرپشن معاملات ہوں یا خان صاحب کے یوٹرن۔ بظاہر اس وقت موجودہ حکومت کو عمران خان کو حراست میں لینے کے لئے پی ٹی آئی کارکنان کی شدید مزاحمت کا سامنا ہے، مگر دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن کے کارکنان ڈھول کی تھاپ پر اپنے لیڈر نواز شریف کو جیل تک چھوڑنے جاتے رہے۔ اب ان تمام باتوں کو بیانئے کی جنگ میں عمران خان کی جیت قرار دیا جائے یا پھر دوسری جماعتوں کے کارکنان کی اپنی پارٹی لیڈرشپ کیساتھ وابستگی صرف انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی حد تک تصور کیا جائے۔مجھے یہ دعویٰ کرتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ پاکستانی تاریخ میں خوش قسمت ترین سیاستدانوں کی ریٹنگ میں جناب عمران خان صاحب نمبر ایک پر آتے ہیں۔
 

Muhammad Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 207 Articles with 163936 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.