آج پاکستان جس نہج پر اس میں مورثی سیاست بھی بری الزمہ نہیں

پاکستان میں مورثی سیاست ملک کی بیشتر بڑی سیاسی جماعتوں پر گزشتہ دہائیوں سے ان پر اثر بڑھتا جارہا ہے. جس کی وجہ سے ملک میں بھی صیح جمہوریت و جمہوری نظام پنپ نہیں رہا ہے. اس پر آج کل کا پاکستان کے نوجوانوں کی اکثریت کا شکوہ بالکل درست و حق جانب ہے کہ ہر سیاسی و مذہبی و لسانیت جماعتوں میں صرف اور صرف موروثیت کو ہی ترجیح دی جاتی ہے اور یہ اثر و رسوخ رکھنے والے روایتی سیاستدان اکثر اپنی جگہ بھی بنا لیتے ہیں لیکن کب تلک اب ملک کی آبادی میں 65 %سے زائد نوجوان کی اکثریت ہے اور ہر سیاسی جماعتوں کے روشن مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اپنی ان جماعتوں کو جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے چہروں اور نئے خون مرکزی و صوبائی عہدیداروں کے روپ میں بھی انکو بھی سامنے لانا چاہیے۔

پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف کی قیادت سے بہت زیادہ پاکستانی لوگوں کو توقع تھی کہ یہ نئے چہرے اور نوجوان اہل لوگوں کو آگے لیکر آئیگی اور یہ اپنی جماعت میں ان کی حوصلہ افزائی بھی آگے بڑھ کر کریگی مگر وہی خلاف توقع اس کے بالکل برعکس ہوا بدقسمتی سے تحریک انصاف کے نوجوان بھی اس معاملے میں کافی مایوس بھی ہوئے اور اس کا کھلے عام ناراضگی کا اظہار بھی کیا. جب بھی کسی بھی جماعت کی وفاق میں یا صوبہ میں حکومت بنی ہے تو کابینہ کی تشکیل کا اہم مرحلہ جو آیا تو اس میں کسی بھی سیاسی جماعت کا پہلا معیار ان جماعتوں کے ارکان کی وفاداری اور قربانی ہی ظاہر کی جاتی ہے.جبکہ کسی فرد کی اہلیت و قابلیت کو پس پُش ڈالدیا گیا. ہر سیاسی جماعتوں نے یہی سوج اپنے دماغوں میں بیٹھا رکھی ہے کہ قربانی دینے والے وفاداروں کو بطور انعام کابینہ میں شامل کیا جانا چاہیے.

پاکستان میں خاندانی سیاست آج کل تو بڑی سیاسی جماعتوں وغیرہ میں نہیں رہی یہ طرز سیاست معاشرے کے نچلے طبقوں میں بھی بہت زیادہ باہم عروج پر ہے۔آج کل کی طرز سیاست ایک خاندان کی اجارہ داری صرف قومی یا صوبائی اسمبلیوں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ بلدیاتی شہری حکومتوں میں بھی امیدواروں کی شرح موروثی سیاست کو واضح طور پر ظاہر کرتی ہے۔ پاکستان کے الیکٹرونک میڈیا کے پر آئے دن بیٹھ کر موروثی یا خاندانی سیاست کو برا بھلا تو کہہ رہے ہوتے ہیں مگر کھبی اس پر چیرہے تو ہوتے ہیں اس حمام ھبرا بھلا تو کہا جاتا ہے مگر عملاً خود اپنی جماعتوں کے اندر اس پر کبھی آواز نہیں بلند کی کیونکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔

اگر پاکستانی عوام مورثی سیاست کا موازنہ چند دنیا کے بڑے ملکوں سے لگائے تو دوسرے ممالک سے موازنہ کریں تو ان دوسرے ممالک سے ان میں امریکی کانگریس میں 2022 میں موروثی سیاست کا حصہ تقریباً 7 فیصد تھا، بھارت کی لوک سبھا میں 2022 تک 29 فیصد، جبکہ پاکستان کی قومی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں موروثی سیاست دانوں کا حصہ 55 فیصد تھا۔ یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی کہلو یا جمہوریت میں (کسی بھی جمہوری معاشرے کیلئے موروثی سیاست کی یہ شرح ناقابل قبول ہے۔)
پاکستان میں خاندانی سیاست کی ایک اہم بنیادی وجہ جو سامنے آتی ہے یہ کہ گزشتہ تین دہائیوں سے پنجاب کے تقریباً 402 خاندان ہیں جو مسلسل ایسی پالیسیاں بناتے اور قانون سازیاں میں ہیر پھیر کرتے چلے آرہے ہیں جن کی وجہ سے قومی وسائل اور پرائیوٹ سیکٹر شعبوں میں ان کی طاقت بتدریج بڑھتی چلی جا رہی ہے اور ان کا اثرورسوخ بھی پورے مُلک میں پھیلتا ہی جارہا ہے.پاکستان میں 1985 کے انتخابات سے 2018 کے انتخابات تک ہر انتخابی حلقے میں پہلے تین امیدواروں کی مجموعی دو تہائی تعداد موروثی یا خاندانی سیاست سے تعلق ان کا تعلق چلا آرہا ہے اور تاحال یہ حالات پاکستان میں بدلنے کہ بجائے بڑھتا ہی چلا جارہا ہے اور اس پر لگتا بھی نہیں کہ کوئی بند باندھے.

پاکستان میں مکمل طور پر یہاں خاندانی سیاست دان 2018 کے انتخابات تک قومی اسمبلی میں 50% رہے ہیں۔ یہ ہی اس ملک کی بدقسمتی ہے ہے کہ ہر جماعت کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ "الیکٹ ایبلز" امیدوار ڈھونڈے اور اس وجہ سے ہمارے ملک میں نئی جماعت بھی آگے کامیاب نہیں ہوسکتی اور ان موروثی سیاست سے بچ نہیں پاتی ہے۔ مگر تحریک انصاف نے پھر بھی 22 سالہ جدوجہد کے بعد ان پرانی سیاسی جماعتوں میں ہم پلہ مقابلہ تو کیا ہے اور ابھی تلک کررہی ہے. مگر اس جماعت کو بھی بلوچستان، سندھ کے دیہی، پنجاب کے سرائیکی بیلٹ اور کچھ حد تلک پختونخواہ میں بھی مورثی مہروں کو ہی اسمبلیوں میں پہنچایا.

سندھ کے دیہی علاقوں سیاست ہمیشہ سے سندھ کے وڈیروں اور جاگیرداروں کے ہاتھ میں رہی اور ابھی بھی ان کے اردگرد ہی گھوم رہی ہے. سندھ کے دیہات میں موروثی سیاست معاشرتی طور پر بہت زیادہ مضبوط ہے۔ لیکن سندھ کے شہری علاقوں میں 1992 تک کی متحدہ قومی موومینٹ نے اپنے زیر اثر حلقوں میں ایک نئی جماعت ہونے کی وجہ سے موروثی یا خاندانی سیاست کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔ اب جبکہ یہ جماعت آپس کی چپقلش اور کچھ اکائیوں کے(عتاب) کا شکار ہے۔ بلوچستان ، پختونخواہ اور پنجاب میں بھی سندھ کے دیہات کی سیاست کی طرح ہے مگر پنجاب کے شہروں میں بھی بیشتر ایریاز میں بھی مورثی سیاست کی جڑیں مضبوط ہیں.

آمریت کے دور میں غیر جماعتی انتخابات میں نئے امیدوار انتخابات میں تو ضرور آئے مگر ان ہی میں سے نئے آنے والوں میں سے چند ایک نے اپنی نئی حاندانی رشتہ داریوں میں بدل لیں اور اس طرح سے یہ بھی مورثی سیاست میں قدم رکھ پائے اور ان کی سیاسی اجارہ داریاں بھی ساتھ ساتھ قائم ہوتیں رہیں.
کچھ پاکستانی دانشور حضرات کا اپنا تجزیہ ہے کہ موروثی سیاست کے اراکین کو جب اقتدار میں طاقت مل جائے تو پھر یہ اپنے تکبرانہ یا انا کے گھمنڈ میں مخالفوں کو محدود کرنے میں اپنی ساری قوت ضائع کرنے میں جھٹ جاتی ہے. جس کا نقصان اس کی سیاست کو تو ہوتا ہی ہے مگر مُلک بھی اس کا خمیازہ بھگتا ہے. تاریخی لحاظ سے بڑے سیاسی خاندان ریاستی وسائل، اپنی خاندانی دولت، حالات کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت اور مخالفین یا دوسروں پر تشدد کرنے کی صلاحیت پر اجارہ داری رکھتے ہیں اس لئے انہی خاندانوں کی اگلی نسل کے لیے سیاست میں اپنی حیثیت بنانا یا منوانا آسان ہوتا ہے۔

مگر اس کے برعکس کچھ نوجوان دانشور کا تجزیہ اپنے سینئر سے مختلف ہے ان کا کہنا یہ ہے کہ مورثی سیاست ان معاشروں میں زیادہ مضبوط اور پائیدار ہوتی ہیں جن میں جمہوری روایات ابھی کوسوں دور ہوتی ہیں اور غیر جمہوری قوتیں گاہے بگاہے جمہوری نظام میں مداخلت کرتی رہتی ہیں ۔ مگر گزشتہ دہائی سے پاکستان کا الیکٹرونک میڈیا ، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا نے شہروں میں کافی حد تک عوام میں جو مورثی سیاست اور ان کی اجارہ داری پر میڈیا اور سوشل میڈیا میں مورثی سیاست پر قافی بحث و مباحثہ نے ان کو یک نئی سوچ پروان چڑھی اب پاکستان کے شہروں میں اب ایک رجحان دیکھا جا رہا ہے کہ موروثی سیاست دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں میں کمزور ہوتی جارہی ہے ہوسکتا ہے کچھ سالوں بعد شہروں میں خاندانی سیاست اپنے آخری ایام گزار رہی ہوئیگی.

پاکستان میں موروثی سیاست یا قیادت کو بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ ایک غیر جانبدار عدالتی نظام حکومتوں کی کارکردگی کی نگرانی کرے جبکہ ایک طاقتور الیکشن کمیشن انتخابی نظام کی سختی سے نگرانی کرے۔اور قومی دولت کی بہتر تقسیم اور صنعتی ترقی بھی موروثی سیاست کو کمزور کر سکتی ہے. اگر دیکھا جائے تو پاکستان کو آج جس نہج پر آگیا ہے اس میں کچھ فیکٹروں کا تو واقعی عمل ہے مگر پاکستان کی سیاسی صورتحال ، معاشی مشکلات، داخلی و خارجی صورتحال میں آج جس پوزیشن پر لایا گیا ہے اس میں مورثی سیاست بھی بری الزمہ قرار نہیں دے سکتے.

انجئنیر ! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر ! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر ! شاہد صدیق خانزادہ: 392 Articles with 191887 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.