جس دن اس کو پھانسی ہوئی سارا ملک اشکبار تھا، 80 کی دہائی کے وہ ڈرامے جو سڑکیں سنسان کر دیا کرتے تھے

image
 
پاکستان ٹیلی وژن کا آغاز 1964 میں کیا گیا۔ محدود وقت میں شروع ہونے والی اس کی ٹرانسمیشن کو ایک خاص ضابطہ اخلاق کا پابند بنایا گیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اقدار اور روایات کا تحفظ کرتے ہوئے پروگرام پیش کیے جائیں گے-
 
اسی کی دہائی کو پاکستانی ٹیلی وژن کے عروج کا وقت کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا اس وقت میں لاہور میں اگر اشفاق احمد، بانو قدسیہ، امجد اسلام امجد، منو بھائی جیسے مصنف خوبصورت ترین ڈرامے تخلیق کر رہے تھے تو کراچی سے فاطمہ ثریا بجیا، حسینہ معین ،انور مقصود کمال کر رہے تھے-
 
یاد ماضی عذاب ہے یارب
آج کل جبکہ ٹی وی پر سینکڑوں کی تعداد میں چینلز موجود ہیں اور صارف کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے مزاج اور موڈ کے مطابق چوبیس گھنٹوں میں کچھ بھی دیکھ سکتا ہے وہیں پر ٹی وی کا ریموٹ ہاتھ میں لیں تو ہر چینل پر جو ڈرامے نشر کیے جا رہے ہیں-
 
ان میں گھریلو سیاست، ہیرو ہیروئين کے غیر اخلاقی مناظر، کمزور کہانیاں، بستر سے اٹھنے والی ہیروئين کا بھی میک اپ زدہ چہرہ اور بہت کچھ ایسا ہے جو کہ ماضی کے حسین اور بہترین ڈراموں کی یاد دلا دیتے ہیں- جن کو دیکھنے کے لیے لوگ اپنی شادیوں کے پروگرام دیر سے شروع کرتے تھے، جو سڑکیں سنسان کر دیتے تھے، جس میں ہونے والے واقعات لوگوں کو اشکبار کر دیتے تھے-
 
ڈرامہ وارث
امجد اسلام امجد کا تحریرکردہ ڈرامہ وارث جس کی مقبولیت صرف پاکستان تک ہی محدود نہ رہی بلکہ اس نے کامیابی کے جھنڈے سرحد پار تک گاڑھ دیے۔ ڈرامہ وارث کی کہانی زمینداری کلچر پر سے پردہ اٹھا رہی تھی جس کے بارے میں گاؤں کے غریب لوگ منہ کھولنے سے بھی قبل سیکڑوں بار سوچتے تھے مگر ان کے جذبات کو اس ڈرامے نے آواز دے دی تھی-
 
image
 
اس ڈرامے کا مرکزی کردار کوئی ہیرو نہیں تھا بلکہ محبوب عالم نامی ایک نوجوان اداکار نے چوہدری حشمت کا یہ کردار اس خوبی سے ادا کیا تھا کہ لوگ اس کو محبوب عالم کے اس دنیا سے جانے کے بعد بھی فراموش نہیں کر سکے-
 
اس ڈرامے میں چوہدریوں کے بنائے گئے عقوبت خانے اور وہاں پر غریبوں پر ڈھائے جانے والے ظلم اور ان کی مظلومیت ایسے واقعات تھے جو اس وقت ٹی وی اسکریں کو دیکھنے والے ہر فرد کو متاثر کرتے تھے-
 
ہوائيں
اصغر ندیم سید کا تحریر کردہ ڈرامہ ہوائیں اپنے منفرد موضوع کے سبب آج تک لوگوں کو یاد ہے خصوصاً اس ڈرامے میں یار محمد کے کردار میں طلعت حسین، غزالہ کیفی شہناز کے کردار میں نظر آئے-
 
یار محمد جو کہ ایک وڈيرے کا مزارعہ تھا اور جس پر وڈیرے نے جھوٹے قتل کا الزام لگا کر اس کو قید کیا ہوتا ہے جبکہ دوسری جانب یار محمد کی بیوی اور بیٹیاں ساری عمر یار محمد کو بے گناہ ثابت کرنے کی جدوجہد کرتی رہتی ہیں-
 
اس ڈرامے کی وہ قسط آج بھی لوگوں کی یاداشت میں محفوظ ہے جب کہ عدالت یار محمد کو پھانسی کی سزا سنا دیتی ہے اور جس قسط میں یار محمد کو پھانسی ہوئی تھی اس دن پورے پاکستان کی گلیوں اور سڑکوں پر ہو کا عالم تھا اور پورا ملک اس طرح خاموش تھا جیسے کہ ان کے اپنے گھر میں میت ہوئی ہے-
 
image
 
تنہائياں
حسینہ معین کی تحریر، شہزاد خلیل کی ہدائت کاری اور شہناز شیخ، مرینہ خان، آصف رضا میر، اور بہروز سبزواری کی اداکاری نے اس ڈرامے کو سب کا ہی فیوریٹ بنا دیا تھا-
 
حسینہ معین کے ڈراموں کی سب سے اہم خصوصیت اپنے ڈرامے میں خواتین کو مضبوط دکھانا تھا اس ڈرامے کی کہانی بھی ایسی ہی ایک لڑکی زارا (شہناز شیخ) کےگرد گھومتی تھی جس کے والدین کا ایک ایکسیڈنٹ میں انتقال ہو جاتا ہے اور ان کے مرنے کے بعد اس کو پتہ چلتا ہے کہ انتہائی پیار سے بنوایا گیا ان کا گھر ان کے والد نے گروی رکھا ہوا تھا اور زارا کو اپنی بہن کے ساتھ اس گھر کو والدین کے مرنے کے فوری بعد خالی کرنا پڑے گا-
 
اور اس کے بعد زارا کی ایک ماں باپ کی لاڈلی بیٹی سے کامیاب بزنس لیڈی بننے کی جدوجہد کا آغاز ہوتا ہے اس ڈرامے میں سنیعہ اور قطب الدین قباچہ کے کردار نے بھی مزاح کی وہ چاشنی بھی دی جو کہ اس ڈرامے کے بوجھل پن کو کم کرتی تھی-
 
اس ڈرامے کی کامیابی کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ یہ ڈرامہ ویک اینڈ پر پیش کیا جاتا تھا۔ اس دن عام طورپر لوگوں کی شادی بیاہ کی تقریبات کا آغاز ہی ڈرامے کے ختم ہونے کے بعد ہوتا تھا یہاں تک کہ شادی ہال میں اس وقت تک سناٹا رہتا تھا جب تک یہ ڈرامہ اسکرین پر چلتا رہتا تھا-
 
image
 
ڈراموں کی اس کامیابی کی وجہ
ڈراموں کی اس کامیابی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس وقت ڈرامہ ری ٹیلی کاسٹ نہیں ہوتا تھا بلکہ مقررہ وقت پر ایک ہی بار پیش کیا جاتا تھا اور اس کو دوبارہ دیکھنے کا کوئی طریقہ نہ ہوتا تھا اس وجہ سے لوگ سارے کام چھوڑ کر ٹی وی اسکرین کے آگے بیٹھ جاتے تھے-
 
دوسری سب سے بڑی وجہ ان ڈراموں کی کہانیوں کے موضوعات کی انفرادیت اور ان کا اسٹرونگ ہونا ہوتا تھا جس کی وجہ سے ہر کوئی ان میں دلچسپی رکھتا تھا- جب کہ آج کل کے ڈراموں میں یہ خصوصیت موجود نہیں ہے-
YOU MAY ALSO LIKE: