رقعہ بنام قاضی پاکستان محترم افتخار محمد چوہدری صاحب

قاضی پاکستان عزت مآب محترم افتخار محمد چوہدری صاحب
السلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ
آپ کی کراچی آمد کو جان کر میں نے مناسب سمجھا کہ عدلیہ عظمیٰ میں بحیثیت صحافی و کالم کار کے کچھ گزارشات پیش کرسکوں کیونکہ ایک پاکستانی ہونے کے ناطے موجودہ حالات کی روشنی میں اپنے فرائض منصبی کے تحت آپ کے زیر گوش کچھ بہتر مسودے اور پلان پیش کرنا چاہتا ہوں ۔براہ مہربانی اپنے قیمتی اوقات میں سے کچھ وقت دیکر اس رقعہ کا مطالعہ ضرور کیجئے گا۔

جناب محترم قاضی پاکستان افتخار محمد چوہدری صاحب
پاکستان اسلامی نظریہ کے تحت معروض وجود میں آیا تھا، اُس وقت ابتدائی دور ہونے کے بابت انتہائی مشکلات سے دوچار ہونا پڑا ملکی خزانے ناپید ذخائر ہونے کے سبب سب نے مخلص، جانفشانی اور انتھک محنت و مشقت کا مظاہرہ پیش کرتے ہوئے پاکستان کو بہتر ڈھانچہ میں ڈالنے کیلئے شب و روز انتھک محنت اور قلیل سہولت کے ساتھ پاکستان کوانتہائی سلیقہ و کرینہ سے پاکستان کے انتظام کی باگ دوڑ سنبھالی، اُس وقت سر زمین سندھ نے لازوال ، بے مثال قربانیوں اور ایثار کے جذبہ سے ہجرت یافتہ مسلمانوں کو سینے سے لگایا اور انہیں اپنا بھائی کا درجہ دیا ، انتہائی محبت واخوت کا دور دورہ تھا، ہجرت یافتہ اردو بولنے والوں نے بھی اپنی شرافت، خاندانی روایت کو اپناتے ہوئے اس سرزمین پاکستان بالخصوص سندھ کیلئے اپنی عملی، فنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس خطے کی ترقی میں اہم ترین کردار ادا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔

کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، نوابشاہ ، خیرپورمیرس، سکھر، شہداد پور، ٹنڈو آدم، ٹنڈو الہ یار، کوٹ غلام محمد، عمر کوٹ، کھپرو، شادی پلی، صوفی، ٹنڈو جام ، بدین، ماتلی، مٹیاری، سکرنڈ، گمبٹ، رانی پور، کوٹری، سہون، جامشورو، نوکوٹ، مٹھی، ڈگری، سجاول، میرواہ گورچانی، شکارپور،نگرپارکر،لاڑکانہ، خانپور،چشتیاں، ڈی آئی خان، بہاولپور، بہاولنگر، لیہ، رحیم یار خان، صادق آباد، کشمور، روہڑی، گجرانوالہ، ساہیوال، پاکپتن، ملتان، جھنگ، جہلم، راولپنڈی، اسلام آباد، پشاور، لاہور، کوئٹہ، سبی، قلات، جعفرآباد، چمن، خضدار، سہون اور بہت سے گاﺅں دیہات کو معروض پاکستان کے وقت انڈیا سے آئے مہاجرین نے آباد کاری میں موثر اور حسین تر خدمات پیش کرکے اس بیاں بان علاقوں کو شہروں میں منتقل کردیا ۔ شعبہ ہائے زندگی سے مختلف علوم میں مہارت رکھنے والے ان مہاجرین نے سرزمین پاکستان بالخصوص سندھ کی ترقی کیلئے نہ صرف ۱ ہم کردار ادا کیا بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا وقار بلند بھی کیا۔تجارت و صنعت، سائنس و ٹیکنالوجی، تعلیم و تربیت، صحت و علاج، انتظامی و عدلی نظام، سیاسی و معاشرتی فلاحی اصلاحات، فنی و آرٹ کی پروان، تحریرو ادب کا گہوارہ، شاعری و نثر کی اشاعتیں، صحت مند آزادی ابلاغ عامہ و جمہوریت گو کہ اس صحرا کے ہر ذرے کوروشن و تابناک بنانے کیلئے کوئی قصر نہ چھوڑی۔۔ یہ وہ دور تھا جب اشیاءضرورت انتہائی سستی اور خالص وافر مقدار میں دستیاب تھیں ، ہر شخص ایمان کی دولت سے معمور تھا نہ کسی قرفہ پر نقطہ چینی کی جاتی تھی اور نہ ایک دوسرے مسلمان کو کافر کہا جاتا تھا سب کے سب اپنے اپنے عقائد پر امن و سلامتی کے ساتھ جی رہے تھے ،مساجد ہو یا امام بارگاہیں تمام کی تمام مسلمانوں سے بھری رہتی تھیں نہ ڈر تھا اور خوف۔۔ ایک دوسرے فرقوں میں رشتے کے بندھن بھی بنائے جاتے تھے، امام ہو یا عالم یا پھر پیر و مرشد سب کا ایک ہی درس ہوتا تھا کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور آپس میں نفاق کو داخل نہ ہونے دو!! وقت گزرنے کے ساتھ منافق، خود غرض، غدار وطنوں نے پاکستان کو شدید نقصان پہنچانے کیلئے اپنی کاوشیں تیز کردی اسی بابت انھوں نے پاکستان کی سیاست، نوکر شاہی، اور دفاع میں گھسنا شروع کردیا اور پاکستانیوں میں اپنے آلہ کاروں کو داخل کرکے ان کے اتحاد ،اخوت محبت اور بھائی چارگی میں دراڑیں ڈالنا شروع کردی اس مشن میں انڈیا ، امریکہ، اسرائیل، انگلستان اور دیگر غیر مسلم ممالک شامل تھے اور ہیں کیونکہ کسی بھی غیر مسلم ممالک کو یہ گوارہ نہیں ہے کہ پاکستان اس دنیا کے نقشہ میں ابھرا رہے اسی بابت یہ ممالک مکارپن سے ہماری درمیان چند غدار وطن کو تلاش کرکے بھاری اعانت کے ساتھ ان سے کام لیئے جاتے رہے ہیں ان میں اسلامی تنظیمیں بھی ہیں تو سیاسی جماعتیں بھی ۔۔۔۔

آج کے دور میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کا کہیں بھی مثبت کردار نظر نہیں آتا شائد ان سیاسی جماعتوں کا تعلق کہیں نہ کہیں ،کسی نہ کسی طرح ان عناصر سے جا ملتاہے جو پاکستان کے خیر خواہ نہیں۔۔ اب پاکستان کے اداروں کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ پاکستان کی سلامتی و بقاءکیلئے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر خالصتاً خدمات پیش کرنی ہونگی اور اپنے نظام کی بہتری کیلئے ہر زاویئے سے سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کرکے بہتر لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا اس کیلئے پاکستان کی عدلیہ، انتظامیہ، پولیس ، ایجنسیاں اور افواج پاکستان کے حساس شعبوں کو ملک و قوم کے مستقبل اور بقاءکیلئے ایک بڑا آپریشن کرنا ہوگا جس میں خود بیوروکریٹس اپنی اصلاح کرتے ہوئے سیاستدانوں کے کرائم کو عدلیہ عظمیٰ میں پیش کریں اور عدلیہ عظمیٰ انہیں مکمل تحفظ فراہم کرے گو کہ یہ مرحلہ شدید مشکلات اور تکلیف دہ ہے مگر ہمارے اداروں کو بڑی قربانی سے گزر کر پاکستان کا تحفظ کرنا ہوگا کیونکہ بیرونی طاقتیں پاکستان کی قدرتی دولت کو ہتھیانے کیلئے اس قوم میں ایک دوسرے کیلئے انتہائی بلند پیمانے پر زہر نفرت،زہر تعصب، زہر لسانیت، زہر اقربہ پروی، زہر فرقہ بندی کو پروان چڑھانے کیلئے ہر ممکن کوشش کررہی ہیں جس میں خود کش حملے، بم بلاسٹ بھی شامل ہیں۔پاکستانی غیور اور بہادر افواج نے ہمیشہ اس وطن عزیز کیلئے قربانی دی ہیں اب اندرونِ خانہ جنگ کیلئے افواج پاکستان کے ساتھ عدلیہ اور انتظامیہ کو ملکر پاکستان میں بڑھتے ہوئے سیاسی جرائم و کرائم کو جلد قلع قمع کرنا ہوگا اس کیلئے الیکشن کے نظام میں تبدیلی نا گزیز بن چلی ہے اور اس میں جدید خطوط پر اسکینک کے عمل کو لازمی قرار دیا جائے تاکہ اصل ووٹر اپنے حق سے مستفیض ہوسکے، موجودہ الیکشن کمیشن کا نظام پاکستان کے حالات کیلئے غیر مناسب ، ناقص اور ناکام ہے ، اب الیکشن کمیشن کے نظام اور اختیارات میں تبدیلی ناگزیر بن چلی ہے اگر اس محکمے کو مکمل حکومت سے آزاد کردیا جائے اور با اختیار بنا دیا جائے تو ممکن ہے کل کا پاکستان روشن ہو ۔محکمہ الیکشن کمیشن میں بھی احتساب کا عمل شامل کیا جائے تاکہ کسی کوتاہی کا عمل پیدا نہ ہوسکے ،
اسے ڈیٹا سے لیکر انتخابات تک مکمل کمپیوٹرائز کے ساتھ ساتھ لازماً اسکینگ کے عمل کے ساتھ منسلک کردیا جائے تاکہ اصل ووٹر اپنے حق حاصل کرسکیں اور اس طرح جعلی ووٹوں کی روایت کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ممکن بن سکے ۔۔تب کہیں جاکر کوئی بھی سیاسی جماعت یا پارٹی یہ کہنے میں حق بجانب ہوگی کہ وہ اصل عوامی مینڈیٹ سے آئی ہے اور اس طرح انھیں ووٹر اور ووٹ کی اہمیت کا احساس بھی پیدا ہوگا اور وہ اپنے سیاسی مستقبل کیلئے منفی راہ سے اجتناب بھی کرسکیں گے اس کے ساتھ الیکشن کمیشن میں ایسی شق بھی موجود کی جائے جو کسی بھی سیاسی جماعت کے کرائم میں ملوث ہونے کے ثبوت پر فی الفور عمل تادیبی کاروائی کرسکے ۔۔۔ تھانوں کو مکمل کمپیوٹرائز کے ساتھ تمام تھانوں اور عدالتوں سے نیٹ ورک یعنی منسلک کردیا جائے اور ایف آئی آر کے طریقہ کار کو بھی بدل کر کمپیوٹرائز نیٹ ورک کردیا جائے۔ پولیس اور تھانوں کو اصل مجرموں کے پکڑنے پر تنخواہ کے ساتھ ایک کمیشن کی حد مقرر کردی جائے تاکہ رشوت کا عمل ختم ہو سکے۔محکمہ پولیس کو جدید ہتھیار اور ٹرانسپورٹ سے مزین کردیا جائے۔ اس محکمے کو مکمل آزاد اور خود مختار اس حد تک بنا دیا جائے کہ کسی بھی سیاسی رہنما کی مداخلت نہ ہونے پائے۔ تاکہ سیاسی مجرم کو پکڑنے اور پھر عدلیہ تک پہنچانے میں آسانی ہوسکے اور تفتیشی عوامل کو با اختیار بناتے ہوئے انہیں بھی قانونی بندش میں رکھا جائے کہ کسی بھی پولیس افسر کی کوتاہی اور کرپشن کے ثبوت پر مجرم ہونے پر وہی سزا دی جائے جو مجرموں کیلئے مختص ہے اس کے ساتھ عہدہ و نوکری کا خاتمہ بھی شامل ہو۔بہتر کارگردی پر فی الفور انعامات و تمغوں سے نوازا جائے تاکہ ہمت افزائی کا عمل بھی تیز نظر آسکے۔ شہدا کیلئے ایک الگ شعبہ بنایا جائے جس میں اہل خانہ کی امداد و وظائف کے عمل کو کم وقت میں مکمل کیا جائے۔اسی طریقہ پر دیگر محکمے کو بھی پابند کیاجائے۔ امریکہ سے آہستہ آہستہ ملکی معاملات ختم کردیئے جائیں جو رکھے جائیں ان میں پاکستان کی جانب سے سخت شرائط لاگو کی جائیں جس میں پاکستان اور قوم کے مفادات زیادہ ہوں۔دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے بھی ترقی کی ہے اُس نے اپنے محکمہ صحت اور تعلیم کو بہتر انداز میں مزین کیا ہے ، پاکستان کوگر ترقی یافتہ بنانا ہے تو سب سے پہلے تعلیم و صحت کے میدان میں بہتری لانی ہوگی اور ان کے ادروں کو پابند کیا جائے کہ وہ ملک و قوم کی بہتری کیلئے جدید خطوط پر اپنی مدارس و اسپتال کے نظام کو استوار کرنے کیلئے اپنے اسٹاف کو تربیتی مراحل سے گزاریں تاکہ یہ ملک و قوم کیلئے نہ صرف بہتر ثابت ہوں بلکہ بین الاقوامی سطح پر اپنا مقام بنا سکیں۔کسی بھی ترقی کیلئے تعلیم اور صحت کا بہتر ہونا لازمی شرط ہوتا ہے۔ تمام صوبوں کو پابند کیا جائے کہ سرکاری تعلیمی مدارس اور اسپتال کی زبوں حالت کو بہتر بناتے ہوئے اسے ماڈل انداز میں شکل دی جائے تاکہ نجی اسکولوں اور اسپتالوں سے کہیں زیادہ سودمند اور پائیدار ثابت ہوں تاکہ ہماری نئی نسلیں بہتر صحت کے ساتھ بہتر ماحول میں اس وطن عزیز کیلئے سودمند ثابت ہوسکیں ، اس کے علاوہ تمام مدارس اور اسپتالوں سے سیاسی مداخلت اور سیاسی طلبہ تنظیمیں کا خاتمہ کیا جائے اور میرٹ پر تعلیم کا انحصار رکھا جائے ۔۔۔پاکستان زرعی و انہار کے شعبہ میں خود مختار رہا ہے لیکن ہماری سیاستدانوں کی نا اہلی نے اس قدرتی دولت کو ناپیدی کی طرف دکھیل دیا ہے ، ان شعبوں میں فی الفور بہتری کی ضرورت ہے اس میں نئے ڈیم، سیم و تھور کا خاتمہ، بنجر زمین کو پانی فراہم کرکے آباد کرنا، کچے کی زمینوں کو شرط لاگو کرکے غریب کسانوں میں تقسیم کرنا کہ وہ اسے آباد کریں اور انہیں پابند کیا جائے اس شرط میں کہ وہ ان کچے کی زمینوں کو آباد نہ کرنے پر سزاوار ہونگے اور ان پربھاری جرمانہ عائد بھی کیا جائے گا تاکہ یہ اس سہولت سے ملک و قوم کیلئے بہتر اور وافر مقدار میں اجناس پیدا کرسکیں۔ زمین کی آبادی پر حکومت نہ صرف زمینیں دے گی بلکہ انہیں آباد کرنے کیلئے مشینیں ، کھاد اور بیج بھی فراہم کریگی۔۔۔

جناب محترم قاضی پاکستان افتخار محمد چوہدری صاحب
۰۷۹۱ءکے الیکشن میں ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی سطح پر بھاری اکثریت روٹی، کپڑا اور مکان کے وعدہ پر حاصل کی تھی لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ وہ صرف نعرہ تھا اور نعرہ ہی رہ گیا جبکہ بھٹو نے پاکستان کے وڈیروں، چوہدریوں اور خانوں کو زمینیں تقسیم کیں ، انہیں زرعی مشنریاں حکومتی خزانے سے دی گئی اس کے علاوہ ان کیلئے زرعی بنک بنایا گیا تاکہ کسی بھی وقت یہ مالی مدد حاصل کرسکیں ، تاریخ نے بتایا کہ اس دولت کو ان خانوں، چوہدریوں اور وڈیروں نے صرف اور صرف اپنی عیش و تعائش میں استعمال کیا ، بڑی بڑی گاڑیاں خرید لی گئی ، بنگلے بنائے اور محفلیں سجائیں یہ عوامی دولت کو اس طرح لوٹنے کا کیا قانونی حق حاصل ہے ان زمینداروں کو؟؟؟ ۰۷۹۱ءسے ۱۱۰۲ءتک کا محاسبہ کرتے ہوئے پاکستان کے تمام زمینداروں، وڈیروں اور خانوں اور صنعت کاروں، تاجروں کی املاک و دولت کا مکمل ڈیٹا بنایا جائے کہ کہاں سے آئیں یہ دولت ، کس طرح کمائی یہ دولت، ٹیکس کی مد میں کتنی رقم قومی خزانے میں جمع کرائے گئے گوشوارے تو شائد بڑے بڑے ساستدانوں کے نام سامنے آئیں گے کہ انھوں نے ان غاصبوں اور ظالموں کے قرضے معاف کرانے میں کسی طرح کوئی قصر نہ چھوڑی ، قومی خزانے کو آج تک اپنے باپ دادا کی میراث سمجھتے ہوئے ان سب نے بڑی بے رحمی سے لوٹا ہے اور لوٹتے چلے آرہے ہیں۔۔۔!! اس سلسلے میں ایک نظم میں نے لکھی ہے جو آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں عرض کیا ہے :
پاکستان
کوئی دُودھ سے دُھلا نہیں یہاں پر
سیاست لپٹی ہوئی ہے جرم میں یہاں پر
دوسروں پر الزام لگانا ہے آسان لیکن
اپنے گریباں میں جھانکنا مشکل یہاں پر
ہاتھ ہیں ڈوبے ہوئے ناخون حق میں
مقتل گاہ ہیں سیاسی تنظیمیں یہاں پر
بن گیا ہے شب و روز فیشن یہاں سیاست کا
کہ لاشوں پہ چلتی ہے سیاست یہاں پر
قوموں میں انتشار در انتشارہے پھیلا
غدار وطن کا ہوا راستہ ہموار یہاں پر
ظالم و قاتل ہےں آزاد ہماری صفوں میں
کس سے کرے گا فریاد اب آدمی یہاں پر
ضمیر بکتا ہے یہاں چند کوڑیوں پر
انسانیت کو قتل کرتا ہے انساںیہاں پر
یہ کیسی جمہوریت ہے میرے پاک وطن میں
ابلاغ کو بھی زنجیر میں پنہاں کیا ہے یہاں پر
ہر ایک نے اوڑھ لی ہے چادرِ فرعونی
ہے کوئی جاوید اب وارثِ ا بن قاسم یہاں پر

یہاں مفادات کی سیاست کا عمل چلتا چلا آرہاہے کسی کو بھی پاکستان کی فلاح و بہبود اور ترقی کا احساس نہیں ۔ ۔۔۔۔۔

پاکستان میں جب جب جمہوری حکومتوں کا دور آیا ہماری سیاستدانوں نے حاصل کردہ فنڈ کو انصاف کے ساتھ نہ رکھا بلکہ اپنی سیاسی تنظیموں اور اپنی جائیداد میں اضافہ کیلئے سمیٹتے رہے۔ سیاسی پارٹیوں نے اپنے اخراجات کے ذرائع میں اضافہ کیلئے مختلف راستے اپنا لیئے ہیں جن میں مذہبی احکامات کے مالی ذرائع بھی شامل ہیں جبکہ مذہب اسلام نے ہر مسلمان کو پابند کیا ہے شرعی اصولوں پر جس میں چرم قربانی، زکواة، خیرات و صدقات شامل ہیں مگر سیاسی جماعتوں نے اسے بھی نہ چھوڑا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو چاہیئے کہ اگر وہ ذیلی جماعت فلاح و بہبود کیلئے چلا رہے ہیں تو اسے سیاسی جماعت سے قطعی دور رکھیں اور کسی پر زرو و جبر کا عمل اختیار نہ کریں کیونکہ یہ احکام الٰہی ہے مسلمانوں کو شرعت کے مطابق عمل کرنے دیا جائے۔ موجودہ جمہوری حکومت میں حکومتی ہو یا دیگر گروہ نے مذہب اور اخلاقیات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر پاکستانی کا جینا حرام کر رکھا ہے، ہر پارٹی زور زبردستی ، دھمکی اور کہیں تو قتل و غارت اور اغوا کرکے تاوان طلب کیا جارہا ہے، یہ کیسی حکومت ہے جس میں قانون کہیں نہیں دکھائی دیتا البتہ ان حالات سے استفادہ کرنے کیلئے قانون کے رکھوالوں نے بھی اپنے ہاتھ میں کنگھن سجا لیئے۔۔۔کراچی میں آپریشن غیر جانداری کی بنیاد پر کیا جائے عوام الناس کو پاکستان رینجرز اور عدلیہ عظمیٰ سے بہت توقعات ہیں کہ وہ کراچی کے حالات کو بہتر کرنے کیلئے مثبت اور غیر جانداری کا مظاہرہ پیش کرتے ہوئے امن و امان پیدا فرمائیں گے اور مستقل بنیادوں پر قانونی چارہ گوئی اس طرح عمل میں لائی جائے جس سے جرائم و کرائم، مافیہ کے قلع قمع یقینی بن سکے ۔

جناب محترم قاضی پاکستان افتخار محمد چوہدری صاحب
پاکستان میں تین نظام پائے جاتے ہیں ایک مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ ۔۔۔۔ مقننہ نظام میں عوام الناس کے ووٹوں سے منتخب کیئے جاتے ہیں عوامی نمائندے جو ایوانوں میں پہنچ کر عوام لاناس کی فلاح و بہبود اور بہتری کیلئے قانون سازی کرتے ہیں اور انتظامیہ اس قانون پر عمل درآمد کرانے کی پابند ہے ، قانون شکنی پر انتظامیہ یعنی پولیس عدلیہ کے روبرو پیش کرنے کی پابند ہے اور عدلیہ کسی کے ذریعے ثبوت و شواہد کی بنیاد پر جزا و سزا دیتی ہے لیکن کیا پاکستان میں اسی طرح کا عمل دیکھا جارہا ہے ؟؟؟شائد ہرگز نہیں !!نہ آئین کی پاسداری عمل میں لائی جارہی ہے اور نہ عوام الناس کے تحفظ کو یقینی بنایا جارہا ہے ، اگر حالات اسی طرح چلتے رہے تو یقیناپاکستان کی سلامتی کو نا تلافی نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ سیاست اور ریاست کے نظام میں سدھار کی جائے اور ہر قوم کو اس کا بنیادی حقوق دیئے جائیں تاکہ عوام الناس اور قوموں میں پائی جانے والی بے چینی ،عدم حقوق، عدم تحافظ، عدم انصاف کا عمل تحلیل ہو اور ریاست ایک مضبوظ و مستحکم اور کامیاب نظر آئے اور پاکستان حقیقی معنوں میں ترقی و کامرانی کی راہ پرگامزن ہوسکے۔ ۔۔۔سیاسی جھنڈوں پر سختی عائد کی جائے صرف پاکستانی جھنڈے استعمال میں لائے جائیں تاکہ ہم سب ایک قوم کی شکل میں دنیا میں نظر آئیں ۔اللہ تعا لیٰ پاکستان کا حامی و ناظر رہے آمین ۔ پاکستان زندہ باد پاکستان پائیندہ باد ٭٭٭٭٭
جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی: 310 Articles with 273803 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.