اے وطن کے لوگوں کہیں ہم بند گلی کی طرف تو نہیں جا رہے۔

اے وطن کے لوگوں کہیں ہم بند گلی کی طرف تو نہیں جا رہے۔

آج پاکستان گھمبیر مسائل کا شکار ہے ایک طویل فہرست ہے کس کس پر بات کریں ہر دوسرا ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرتا نظر آ تا ہے دوسرے کو ملک توڑنے کا الزام عائد کرنے میں عار محسوس نہیں کرتا لیکن خطرناک صورت حال جب پیدا ہوتی ہے جب سب مل کرکسی ایک کا محاصبہ شروع کر نے پر متفق اور مائل ہوتے ہیں۔ زرا غور کیجئیے کیا ہم نے اسی صورتحال کو ستر اور اسی کی دھائی میں نہیں دیکھا اس کا نتیجہ اس ملک کے لوگوں کو معلوم ہے۔ آج اپنے سینوں پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ ہمارا رویہ کیا اس دور میں ٹھیک تھا۔

کیا اس خطہ کے لوگوں جسے ہم مغربی پاکستان کہتے تھے کا رویہ مجرمانہ نہیں تھا کہ ایک بھرپور مینڈیٹ لینے والی جماعت کو سب نے مل کر دیوار سے لگانے اور فتح کرنے کے تمام حربے استعمال نہیں کیے کیا کیا ظلم ان پر نہ اٹھائے گئے۔ اس وقت ملک کی٥٥٪ آبادی کو غداری کا لیبل لگا کر ملکی سیاست سے نکالنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اس خطہ کے لوگ اسی تاریخ کا اعادہ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں ۔

کراچی کو فتح کرنے کے تمام حربے وہی قوتیں کر رہی ہیں جو نظریہ پاکستان کی مخالف ہی نہیں بلکہ کانگریس کی ہمخیال اور سرحدی گاندھی کہلانے پر فخر محسوس کرتی تھیں وہ پختونستان کی آزادی کی جدوجہد کرنے میں لگی رہیں اور ان کے قائد نے پاکستان میں دفن ہونا بھی گوارا نہ کیا اتنی نفرت اس خطہ سے کہ مر کر بھی اس سرزمین کا حصہ بننا گوارہ نہ کیا۔ کیا ان نظریات کی حامل پارٹیاں ملک کی بقا کے اقدامات کا مظاہرہ کرنے میں سنجیدہ ہو سکتی ہیں۔

مشرقی پاکستان میں لوگوں کو سبق سکھانے ہم نے وہاں ٹارگیٹ کلنگ کا طریقہ اپنایا اور تو ار ہم نے بنگالیوں کو سبق سکھانے ان کی منظم پیمانے پر انکی عزتوں کو پامال کر کے اپنایا ۔ کیا قوم جانتی ہے کہ تمام کے تمام بنگالی پاکستان سے علیحدگی نہیں چاہتے تھے لیکن ان واقعات کی رپورٹنگ کے بعد ملک ( مشرقی پاکستان)میں مخالفت کا لاوا پھوٹ پڑا کہ ہمارے محافظ ہماری عزتوں کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ محب وطنوں قوم کے لوگوں نے دیکھا پھر کیا ہوا وہ فوج جو نظریہ پاکستان کی حفاظت کے لئے بنائی گئی تھی ایک بزدل اور عیار دشمن کے آگے سرنگوں ہو گئی۔ اور مشرقی پاکستان ہم سے جدا ہو گیا یہ نظریہ پاکستان پر شدید ضرب تھی جو اس خطہ کے لوگوں نے لگائی۔

کیا اس سازش کے عناصر اس ملک کی قیادت پرمتمکن نہیں ہوئے اور انہیں سازشی عناصر کو اس ملک میں تمام مراعات سے نہ صرف نوازا گیا بلکہ اس ہتھیار ڈالنے والے جنرل کو مرنے کے بعد فوجی اعزازات کے ساتھ دفنایا گیا اسے تمام مراعات بہی عنات کی گئیں۔ اس نظریہ پاکستان پر ضرب لگانے والوں کا محاصبہ بھی نہ کیا گیا یہ اس خطہ کے لوگوں کا رویہ ہے۔

آج پھر ملک میں ایسی ہی سیاسی ہلچل نظر آرہی ہے کم وبیش اسی طرح کے بیانات سنائی دے رہے ہیں ویسی ہی ٹارگٹ کلنگ اور قتل عام جاری ہے ملک توڑنے کے الزامات وہی پارٹیاں لگا رہی ہیں جو نظریہ پاکستان کی ہمیشہ مخالفت کرتی رہی ہیں۔ وہی پارٹی اقتدار میں ہے جس نے اپنے اقتدار کی ہوس میں سلامتی کونسل میں پولینڈ کی پیش کردہ جنگ بندی کی قرار داد پھاڑ کر بائکاٹ کر دیا تاکہ جنگ بندی نہ ہو سکے اور پاکستان مکمل شکست سے دوچار ہو جائے اور وہی ہوا۔ چونکہ جنگ بندی کی اس صورت میں اسے اقتدار ملنا ممکن نہ تھا۔

اس بار اس خطہ کے لوگوں کا ٹارگیٹ متحدہ ہے جسے اس کی پیدائش کے بعد ہی سے مستقل تشدد اور مخالفت کا سامنا ہے اس کی خلاف ریاستی تشدد سے لے کر اداروں کا تشدد اسکی طاقت میں اضافہ کا باعث بنتا رہا ہے ۔ ۹۲ کا آپریشن اس کے ۱۵۰۰۰کارکنان کے قتل عام کے باوجوداسکی قوت مزید بڑھی ہے۔ اس آپریشن کی یاد سب کے ذہنوں پر تازہ ہے کہ کس کس طرح علاقوں کی ناکہ بندی کر کے مردوں اور عورتوں کو کھلے میدانوں میں انکے ہاتھ باندھ کر بٹھایا جاتا تھا ان کے گھروں کی تلاشیاں لی جاتی تھیں۔ لیکن انہوں نے کبھی بھی پاکستان کے خلاف کوئی بات نہیں کی تھی بلکہ ان پر الزامات لگانے والے ان پر ملک سے غداری کے لیبل لگانے رہے ہیں جو غلط ہے۔

ایوب خان نے ان کو مخالفت کرنے کے جرم میں ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا اور انکی اس وقت کی قائد محترمہ فاظمہ جناح کی موت مشکوک حالت میں ہوئی پھر قوم نے انکو اقتدار سے کس شان سے ر خصت ہوتے دیکھا بھٹو نے لسانی بل کی آڑ میں بانیان پاکستان اور انکی اولادوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر قوم نے انکا انجام بھی دیکھا۔ بینظیر نے انکی قوت کو توڑنے کے لئے پکا قلعہ آپریشن کرایا نواز شریف نے ان پر فوجی آپریشن نافذکیا لیکن کیا یہ سب مل کر اس قوم کی آواز دبانے میں کامیاب ہوئے ۔

آج اس خطہ کی قوتوں کا فیصلہ ہے کہ متحدہ کو دیوار سے اسطرح لگایا جائے اور اسکی آواز ہمیشہ کے لئے بند کر دی جائے کیا ایسا کرنے میں حق بجانب ہونگے کیا بانیان پاکستان کی اولادیں اسی سلوک کی مستحق ہیں کہ انکی آواز کو دبایا جائے۔ لیکن کیوں ! کیا متحدہ میں لوگ جن کی رگوں میں بانیان پاکستان کا لہو دوڑ رہا ہے اس ملک سے غداری کا تصور بھی زہن میں لا سکتے ہیں کیا نظریہ پاکستان پر اپنا تن من دھن نچھاور کرنے والے اپنے نظریہ کی مخالفت کر سکتے ہیں جنکے آباؤ اجداد کو آگ اور خون سے گزر کر یہ ملک حاصل ہوا تھا ۔ وہ اس ملک کو اپنے نظریات کے مطابق بنانا چاہتے ہیں جہاں لوگوں کو انصاف ملے لٹیروں کو سزا ملے ہر ایک کو انصاف کی فراہمی ممکن ہو کیا اس ملک میں قانوں اور انصاف دیا جا سکا۔

۶۵ ہو ۷۳ ہو یا ۹۲ ہو ان تمام کا ٹارگیٹ اردود بولنے والے ہی کیوں ہوئے انکی آواز کو دبانے پر اتنا تشدد سمجھ سے بالا تر ہے کیا انہیں پاکستان بنانے اور اسکی حمایت کی سزا دی جا رہی ہے جو ختم ہونے پر نہیں آتی۔ اگر لٹیروں اور چوروں کا محاسبہ کرنے کا مطالبہ غلط ہے وڈیروں کی بدمعاشی کے خلاف آواز اٹھانا غلط ہے قومی دولت لوٹنے والوں کو سزا دلوانے کا مطالبہ غلط ہے تو نظریہ پاکستان کی بنیاد غلط ہے جس کا مطالبہ کراچی کے عوام شروع سے کرتے رہے ہیں ایم کیو ایم اور اب متحدہ تو بعد کی آواز ہے جو نظریہ پاکستان پر قربان ہونے والوں کی آواز ہے جسے دبانا اور نقصان سے دوچار کرنا ملک کو نقصانات سے دوچار کرنے کا باعث ہو سکتا ہے۔

نظریہ پاکستان کی مخالف قوتیں آج عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر اس نظریہ کو توڑنے کے درپے ہیں اور ملک کے نظریاتی ڈھانچہ کو شدید نقصان پہنچانے کی کوششوں میں ہیں اور لسانی بنیادوں پر اس ملک کی تقسیم پر بظاہر متفقنظر آتے ہیں ۔

زرا سوچیں کیا اس ملک کے لوگوں کو بند گلی کی طرف تو دھکیلا نہیں جا رہا جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 75650 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More