قاصر ہے حق کلامی سے ہر شخص کی زبان

قاصر ہے حق کلامی سے ہر شخص کی زبان

ابتدا ہے رب جلیل کے بابرکت نام سے جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے

صدر عالی وقار ، محترم اساتذہ کرام اور میرے ہم مکتب ساتھیوں السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

صدر عالی وقار میرا آج کا موضوع سخن "قاصر ہے حق کلامی سے ہر شخص کی زبان" اس موضوع پر بات کروں تو کیا کروں ۔ لاکھوں لوگوں کے خون کا غسل دے کر اس خطے کو پاک کیا تھا صدر عالی وقار

اور اس کا نام پاکستان رکھا

ارے ہم نے تو اپنے نظریے پر چلتے ہوئے ہر صدا حق کے ساتھ ہاتھوں کو بلند کیے رکھا مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم آج بھی حق کی بات کرنے اور حق دار کے ساتھ چلنے سے اکتاتے ہیں اس کی بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس مملکت خداداد میں آواز حق خاموش ہوتا نہیں صدر عالی وقار کروا دیا جاتا ہے کیونکہ ہر منظوم گیت کانوں میں رس گھول دیتا ہے سوائے حق کے ۔ یہ وہ موسیقائی تال سے تخلیق نہیں ہوتے بلکہ ان کا جنم بے ضمیری اور خوف کے جراثیموں کی موت سے مشروط ہے۔یہ دستور ان بے ضمیروں کے شہر کا ہے صدر عالی وقار کہ جس پر رحمان فارس نے لکھا

تم آؤ گے تو میں سستا تمہیں دلا دوں گا

ہمارے شہر میں قانون سیل ہوتا ہے

زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھے والے ہم لوگ یہ کہتے چلے جاتے ہیں کہ صدر عالی وقار میرا تعلق اس جنت نما جہنم سے کہ جہاں ماں کے قتل کے بعد چھ سالہ برمش بلوچ آنکھوں میں اشک سموئے ظلم کو ٹوکتی جاتی ہے جہاں کوئٹہ کی سر زمین پر قتل ہونے والے فیضان جتک کا ، تربت میں محافظ کی نشانہ بازی کی مشق بننے والے حیات بلوچ کا ، گوادر میں دم توڑنے والی شاہینہ شاہین کا ، خضدار میں جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے حفیظ بلوچ کا ، آئے روز اپنے تعلیمی حقوق کا مطالبہ کرنے والے بے گناہ طلباء کے قتل کا ، اور شاید مستقبل میں خدانخاستہ کسی ناانصافی کا شکار ہونے والے باسط ادیب کا جرم فقط اتنا ہوگا کہ اس نے حق گوئی کی بات کی اور اس کا ساتھ دیا ہو گا

بقول فیض احمد فیض:

نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کے جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے

جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے

بنے ہیں اہل حوس مرعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

یہی وجہ ہے کہ

قاصر ہے حق گوئی سے ہر شخص کی زبان

کیونکہ

آواز حق خاموش ہوتا نہیں کروا دیا جاتا ہے

ہماری تاریخ بھی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے

مرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے

کہ حلقہ زن ہیں مرے گرد لشکری اس کے

فصیل شہر کے ہر برج ہر منارے پر

کماں بہ دست ستادہ ہیں عسکری اس کے

کہا جاتا ہے کہ ایک مشاعرے میں یہ نظم پڑھنے کے بعد احمد فراز کو گرفتار کر لیا گیا تھا.اس کے علاؤہ بہت سارے شعراء کرام ، دانشور، صحافی ودیگر ایسے لوگ جو حق گوئی پر قائم رہے اور حق گوئی کی تلقین کرتے رہے ان کے ساتھ کیا کیا نہیں ہوا ۔

صدر عالی وقار

نہ جانے کب تک ہم اسی طرح جیتے رہیں گے ، کب تک بااثر لوگ آواز حق کو دباتے رہیں گے، نہ جانے کب تک اسی طرح ہمارے طلباء اور رہنماؤں کا قتل عام جاری رہے گا

‏تم شب کی سیاہی میں مجھے قتل کرو گے

میں صبح کے اخبار کی سُرخی میں ملوں گا۔

صدر عالی وقار

کیا یہ ہے وہ پاکستان جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا ، کیا یہ ہے وہ پاکستان جس کی آبیاری کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح نے رات دن ایک کیے ، کیا یہ ہے وہ پاکستان جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا جہاں آج حق بات کہنے پر بھی سو دفعہ سوچنا پڑتا ہے اور جہاں کے لوگ حق گوئی سے قاصر ہیں

یقیناً نہیں ، صدر عالی وقار مجھے، آپ کو اور ہم سب کو مل کر اس مملکت خداداد کے تحفظ اور ہماری قوم کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانا ہوگی ، ہمیں بحیثیت مسلمان اسلامی مملکت کو اسلام کے مطابق قانون سازی اور اس کے عملدرآمد کے لیے حاکم وقت کو باور کرانا ہو گا تاکہ ہماری قوم بلا جھجک حق بات کہہ سکے اور ہم اس مملکت خداداد کی حقیقی معنوں میں خدمت کر سکیں اور بروز قیامت سرخرو ہو سکیں

والسلام

Basit Adeeb
About the Author: Basit Adeeb Read More Articles by Basit Adeeb: 3 Articles with 6588 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.