چین اور روس کے درمیان تعلقات کو عہد حاضر میں بڑی طاقتوں
کے درمیان تعلقات کا ایک عمدہ ماڈل قرار دیا جا سکتا ہے۔دونوں ممالک عدم صف
آرائی، عدم تصادم اور تیسرے فریق کو نشانہ نہ بنانے کے اصولوں پر قائم ہیں۔
اسی بنیاد پر چین اور روس بین الاقوامی تعلقات میں ملٹی پولر ورلڈ اور عظیم
تر جمہوریت اور عالمی ترقی کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے
کوشاں ہیں۔اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے چینی صدر شی جن پھنگ اپنے روسی ہم
منصب پیوٹن کی دعوت پر پیر سے روس کا تین روزہ سرکاری دورہ کر رہے ہیں۔ یہ
چین کا دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد شی جن پھنگ کا پہلا غیرملکی دورہ ہے
جوکہ دوستی، تعاون اور امن پر مبنی دورہ ہوگا۔مبصرین کے نزدیک یہ دورہ ،
چین اور روس کے درمیان نئے عہد میں جامع اسٹریٹجک تعاون کی شراکت داری کے
لئے رہنمائی فراہم کرےگا۔ مارچ 2013میں صدر منتخب ہونے کے بعد شی جن پھنگ
نے اپنے غیرملکی دورے کے لئے روس ہی کا انتخاب کیا تھا اور یہ شی جن پھنگ
اور پیوٹن کی پہلی ملاقات تھی۔ گزشتہ دس سالوں میں شی جن پھنگ اور پیوٹن کے
درمیان چالیس سے زائد بار ملاقاتیں ہوئیں۔ موجودہ دورہ شی جن پھنگ کا روس
کا نواں دورہ ہوگا۔ چین کی وزارت خارجہ کے مطابق دورے کے دوران شی جن پھنگ
پیوٹن کے ساتھ دوطرفہ تعلقات اور مشترکہ دلچسپی کے اہم بین الاقوامی
اورعلاقائی امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کریں گے تاکہ فریقین کے درمیان
اسٹرٹیجک اشتراک اورٹھوس تعاون نیز دوطرفہ تعلقات کو مزید فروغ دیا جا سکے۔
یہ توقع بھی ہے کہ دورہ روس کے دوران چین اور روس بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو
اور یوریشیائی اکنامک لیگ کو مربوط کرنے کو فروغ دیں گے۔ رواں سال چین میں
جدیدسوشلسٹ ملک کی ہمہ گیر تعمیر کے نئے سفرکے آغاز کا سال ہے۔ چین اعلیٰ
معیار کی ترقی کو فروغ دیتے ہوئے اعلی معیار کے کھلے پن کو توسیع دےگا اور
ترقی کا نیا ڈھانچہ تشکیل دےگا جس سے امید کی جا سکتی ہے کہ یہ روس سمیت
دنیا کے دوسرے ممالک کے لئے نئے مواقع فراہم کرےگا۔روس بی آر آئی تعاون میں
چین کا ایک اہم شراکت دار ہے اور اس فریم ورک کے تحت فریقین کے مابین مزید
تعاون سے دنیا کو فائدہ ہوسکتا ہے۔اسی طرح یہ امید بھی ہے کہ چین اور روس
توانائی اور بنیادی ڈھانچے سمیت دیگر شعبوں میں منصوبوں کو تیزی سے آگے
بڑھا سکتے ہیں اور فریقین کے مابین تعاون کی مستحکم ترقی عالمی معیشت کی
بحالی میں مزید مثبت توانائی فراہم کرے گی۔یہ امر بھی غورطلب ہے کہ 2022
میں چین اور روس کے درمیان دوطرفہ تجارت 190.27 بلین ڈالر کی ریکارڈ سطح پر
پہنچ گئی ہے، توانائی کی تجارت نے دوطرفہ تجارت میں اور بھی اہم کردار ادا
کیا ہے، جبکہ چین کی روس کو برقی مصنوعات، آٹوموبائل اور آٹو پارٹس کی
برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ابھی حال ہی میں جمعرات کو چین
یورپ مال بردار ٹرین بیجنگ سے ماسکو کے لیے روانہ ہوئی۔ گھریلو سامان،
کپڑوں اور آٹو پارٹس سمیت دیگر مصنوعات سے بھری یہ ٹرین تقریباً 18 دن کے
بعد اپنی منزل پر پہنچ جائے گی۔انہی عوامل کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ
چین اور روس کی تجارت 2023 میں نئی بلندیوں تک پہنچ جائے گی، اور دونوں
فریق 200 ارب ڈالر کے تجارتی ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ایک جانب
جہاں دونوں ممالک کے درمیان ہمہ جہت تعاون فروغ پا رہا ہے وہیں عوامی سطح
پر افرادی اور ثقافتی تبادلے بھی فروغ پا رہے ہیں۔ رواں سال 2023 کو ،
دونوں ممالک کھیلوں کے تبادلے کے سال کے طور پر منا رہے ہیں۔
وسیع تناظر میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ممالک اور بڑے
ممالک کے طور پر چین اور روس کے درمیان تعلقات کا اثر و رسوخ دو طرفہ
پیمانے سے آگے بڑھ چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ صدر شی کے اس دورے کے دوران یوکرین
بحران کے بارے میں "انتہائی متوقع" بات چیت کے معاملے پر چین اپنے معروضی
اور منصفانہ موقف کو برقرار رکھے گا اور امن مذاکرات کو فروغ دینے میں
تعمیری کردار ادا کرے گا۔اس سے قبل سعودی عرب اور ایران کے درمیان مصالحت
میں "کامیاب ثالثی" نے نہ صرف امن مذاکرات کی افادیت کو ثابت کیا ہے بلکہ
اس امید کو بھی بڑھایا ہے کہ وہ یوکرین تنازع کو حل کرنے میں بھی ایسا ہی
کردار ادا کرسکتا ہے۔ایک ایسے وقت میں جب یوکرین بحران پوری دنیا کی توجہ
کا مرکز بن چکا ہے ، چین نے رواں سال فروری میں یوکرین بحران کے سیاسی حل
کے لئے اپنا پوزیشن پیپر جاری کیا، جسے روس نے مثبت طور پر دیکھا ہے۔اسی
باعث یہ امید بھی ظاہر کی جا رہی ہے کہ صدر شی کا دورہ روس امن کے لئے سفر
ہوگا۔ چین یوکرین کے معاملے میں منصفانہ موقف پرقائم رہتے ہوئے امن مذاکرات
کے لئے اپنا تعمیری کردار ادا کرےگا۔چینی وزارت خارجہ نے بھی اس حوالے سے
واضح کیا ہے کہ صدر شی جن پھنگ اس دفعہ امن کے لئے روس جا رہےہیں۔ یوکرین
تنازع پر چین ہمیشہ امن اور بات چیت کے لئے کھڑا رہا ہے۔چین ہمیشہ سمجھتا
ہے کہ سیاسی بات چیت تنازع کے حل کا واحد راستہ ہے۔ تنازع کو ہوا دینے ، یک
طرفہ پابندیاں عائد کرنے اور دباو ڈالنے سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے
اور کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے جو دنیا کے دیگرممالک کے مفاد میں نہیں
ہوگا۔یہ امید کی جا سکتی ہے کہ صدر شی جن پھنگ دورہ روس کے دوران ، یوکرین
تنازع کے سیاسی حل کے لئے چین کے تعمیری کردار کو مزید آگے بڑھائیں گے اور
چین کی امن دوست سفارتکاری کو مزید فروغ دیں گے۔
|