|
|
ایک زمانہ تھا جب کہ پاکستان ٹیلی وژن سے دکھائے جانے
والے ڈرامے اس خیال کے ساتھ بنائے جاتے تھے کہ ان میں کوئی نہ کوئی پیغام
اور مقصد ضرور ہونا چاہیے۔ یہ وہ وقت تھا جب کہ وسائل محدود ہوتے تھے
کمپیوٹر گرافکس کا اتا پتہ نہ تھا مگر کام کرنے کا جنون ہوتا تھا۔ |
|
پاکستان ٹیلی وژن کی طرف سے دکھائے جانے والے تاریخی
ڈرامے |
ارطغل غازی کی پاکستان میں مقبولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ
پاکستانی قوم اپنی تاریخ سے نہ صرف محبت کرتی ہے۔۔ بلکہ ہماری نوجوان نسل
ان کے بارے میں جاننے میں دلچسپی بھی رکھتی ہے- |
|
مگر یہ حقیقت ہے کہ تاریخی اسلامی ڈرامہ آسان نہیں ہوتا ہے اس کے لیے مکمل
تحقیق، کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بعد اس کو اسکرپٹ سے اسکرین تک اتارنے میں
بھی بہت سارے مراحل ہیں جن کو کامیابی سے انجام دینے کے لیے سخت محنت درکار
ہوتی ہے۔ |
|
پاکستان ٹیلی وژن کی تاریخ گواہ ہے کہ اسی کی دہائی میں محدود وسائل کے
باوجود ایسے مثالی تاریخی ڈرامے بنائے گئے- جن کے بعد ہمارے نوجوان کو محمد
بن قاسم، یوسف بن تاشفین جیسے نوجوانوں سے محبت ہوئی بلکہ وہ ان جیسا بننے
کی کوشش بھی کرنے لگے- |
|
شاہین
|
شاہین نامی یہ ڈرامہ غرناطہ اسپین میں اسلامی مملکت کے زوال کے اسباب کی
کہانی کو بیان کرتا ہے۔ یہ ڈرامہ جو کہ نسیم حجازی کا تحریر کردہ تھا اس
میں مرکزی کردار ایک مجاہد بدر بن مغیرہ کا تھا- جن کے کردار کو مرحوم
اداکار اسماعیل شاہ ن ادا کیا تھا۔ اسی کی دہائی میں پیش کیے جانے والے اس
ڈرامے میں بدر بن مغیرہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والے ایک بہادر اور جری
مجاہد تھے- جنہوں نے اپنے لشکر کی مدد سے ہر ہر موقع پر عیسائی حکومتوں کی
سازشوں کا مقابلہ کیا- |
|
|
|
آخری چٹان |
ڈرامہ آخری چٹان جو کہ 1985 میں پیش گیا گیا- یہ ڈرامہ
وسط ایشیا میں چنگیز خان کے دور حکومت اور اس کے ڈھائے جانے والے مظالم پر
مبنی تھا- اس ڈرامے میں چنگیز خان کا کردار ظہور احمد مرحوم نے ادا کیا تھا-
جبکہ اس ڈرامے میں قاسم کے کردار میں انور اقبال مرکزی کردار میں نظر آئے-
جنہوں نے ظالم چنگیز خان کے سامنے بہادری سے علم بلند کیا اور اسلامی لشکر
کی نمائندگی کی. جب کہ اس ڈرامے میں طاہرہ واسطی چنگیز خان کی زوجہ کے
کردار میں نظر آئيں- |
|
|
|
لبیک |
سندھ کو باب السلام کہا جاتا ہے راجہ داہر
کے ظلم و ستم اور اس کے بعد محمد بن قاسم کا سندھ کے مسلمانوں کی مدد کے
لئے آنا ایسے واقعات تھے جو ہم اپنے نصاب میں تو پڑھتے تھے. مگر اسکرین پر
ان کو دیکھ کر خون کی گردش کا تیز ہو جانا ایک خوبصورت احساس تھا۔ جس کو آج
کے بچے محسوس نہیں کر سکتے۔ اس ڈرامے میں محمد بن قاسم کے کردار میں بابر
علی نظر آئے اور اس ڈرامے کو بھی نسیم حجازی نے ہی لکھا تھا- |
|
|
کیا آج کے دور میں ایسے ڈرامے نہیں بن سکتے
|
جیسا کہ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ رمضان کی آمد
آمد ہے اور اس موقع پر ہر چینل کی جانب سے افطار کے فوراً بعد ڈرامہ سوپ
پیش کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے. جو کہ رمضان کے موقع پر خصوصی طور پر
بنائے جائيں گے- مگر ان ڈراموں میں سوائے سستی تفریح کے علاوہ کچھ نظر نہیں
آرہا ہے. سوال یہ ہے کہ کیا رمضان میں ہم ایسے ڈرامے بنا کر قوم کو اچھا
سبق نہیں دے سکتے ہیں- |