آٹو رکشا نظر کے آخری سرے پر
جاکر دا ہنی طرف مڑ گیا۔
اور میرے غم اسی طرح آہستہ آہستہ پگھلنے لگے جس طرح ماضی کے دنوں میں میری
شعلہ بار ہتھیلی پرآہستہ آہستہ اور دل بستہ گدگدی کے ساتھ برف پگھلا کرتی
تھی۔
جس وقت میری رگوں میں گرم خون دوڑتا تھا اور میرے جسم کی آنچ ہروہ شخص
محسوس کئے بنا نہیں رہ سکتا تھا جواس جگہ بیٹھتا جہاں سے میں اٹھتا تھا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے۔یہ ماضی کے انہی دنوں کی باقی ماندہ یادداشتوں میں سے
ایک ہے۔
”بھائی صاحب“ نورین دبے پاؤں چل کر آتی اور میرے عقب سے چہکتی۔
”کیا ہے؟“
”ہاتھ دکھانا ذرا“
”کیوں؟“
”دکھاؤ توایک بات ہے“
اور میں بھولے پن کے ساتھ اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیتا۔مئی وجون کی سلگتی
ہوئی دوپہروں میں ،جب چڑیاں گھنی ٹہنیوں پر دم سادھے بیٹھی رہتی تھیں اور
نومبر ودسمبر کی نیم سرد شاموں میں ، جب چڑیاں درختوں پر چہچہا رہی ہوتی
تھیں۔نورین کو ہر نئے موسم میں نئی شرارت سوجھا کرتی تھی۔
اور پھر اگلے لمحے اپنی ہتھیلی پر فریج سے نکالی ہوئی برف کی ڈلی کی ٹھنڈک
ہتھیلی کی نسوں میں گہرائی تک اترنے کا احساس ہوتااور پھر وہ کھلکھلا کر
ہنستی اور اپنے من میں خوش ہوتی ، یہ سوچ کر کہ آج اس نے مجھے ستانے کی ایک
چال میں ہنرمندی دکھائی ہےمگر جب وہ مجھے پرسکون دیکھتی اور میری ہتھیلی پر
تیزی کے ساتھ پگھلتی ہوئی برف کا نظارہ کرتی تو ایک بار پھر شکست خودرگی کے
احساس سے اس کے من میں ڈھیر ساری چیزیں ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جاتیں اور وہ بس
منہ بسور کر رہ جاتی۔
میرے من میں غموں کے پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر بکھررہے تھے اور میں دورجاتے ہوئے
آٹو رکشا کی اندھیرے اور دھند میں ڈوبتی ہوئی عقبی لال بتیوں کو غم آلود
نگاہوں سے دیکھ رہا تھایہاں تک کہ وہ نظر کے آخری سرے پر جاکر دا ہنی طرف
مڑ گیااورمیرے من میں ریزہ ریزہ ہوکر ٹوٹتے بکھرتے غموں کے پہاڑوں کے ٹوٹنے
بکھرنے کے عمل میں مزید شدت پیدا کرگیا منظر جب ٹوٹتے ہیں تو شدتِ غم کے
احساس کو نشتر چبھوتے ہیں۔اور دکھتے دلوں میں داغ لگاتے ہیں۔اردو کے ایک
بڑے شاعر نے پتہ نہیں کن احساسات کے تحت آسمان کی بلندیوں پر ایک اور منظر
بنانے کی تمنا کی تھی؟میں اگر ان کا ہم عصر ہوتا تو انہیں اس سے باز رکھنے
کی اپنی سی کوشش ضرور کرتا۔
”کہاں رہتے ہو؟“میں ایسے مواقع پر عموما خاموش رہتا ہوں مگر آج پتہ نہیں
کیوں اور کس انجانے جذبے کے تحت میں آٹو والے سے پوچھ ہی بیٹھا تھا۔
”نئی بستی“ ڈرائیور نے اپنے سامنے ذرااوپر کی طرف لگے ہوئے مستطیل آئینہ
میں میرے چہرے کا بغور معائنہ کرتے ہوئے جواب دیاتھا۔
”اور اِدھر کہاں جا رہے ہو؟“
”غفورنگراپنی پہلی بیوی کے پاس میری دو بیویاں ہیں سرجی، ایک میری اپنی
پسند کی اور دوسری میرے گھروالوں کی پسند کی اللہ کا شکر ہے دونوں کو خوش
رکھتا ہوں“
اس سے قبل کہ میں دوبیویوں والی بات پر حیرت کا اظہار کرتا یا اس سے متعلق
کوئی تیکھا سوال کرتا اس نے میری متجسس نگاہوں کو آئینہ میں دیکھا
اورخودبخود اپنی داستانِ عشق شروع کردی۔
شاید اسے یہ خوف تھا کہ میں دوبیوں کی بات سن کر ناگواری کا اظہار کروں
گایا پھر اس سے کوئی ایسا سوال کر بیٹھوں گاجس کا جواب اس کے پاس نہیں
ہوگا۔ اس لیے وہ بغیر سانس لئے شروع ہوگیا۔
”اللہ کا شکر ہے دونوں کو خوش رکھتا ہوں“یہ جملہ اس کے خوف کی چغلی کھا رہا
تھا، ہوسکتا ہے اس کو دوبیویوں کے تعلق سے سماج کی طرف سے بہت سے بے ہنگم
سوالات کاسامنا کرنا پڑتا ہواس کے بعض مُنقّہ نما سر والے دوست اسے چڑھا تے
ہوں اور ہرگلی کے نکڑ پر آلتی پالتی مار کر نکلتی ہوئی توند اور پچکے ہوئے
پیٹوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے بعض بزرگ اس پر جملے کستے ہوںبے ہودہ اور غلیظ
جملےشاید اس نے مجھے بھی اسی قماش کا آدمی سمجھا ہوگا ۔ تبھی تو وہ خوف کی
ایک انجانی کیفیت میں مبتلا ہوا۔اور اس کیفیت پر غلبہ پانے کے لیے مذکورہ
جملے کا سہارا لیاتو کیا الفاظ بھی سہارا بنتے ہیںشاید۔”اونہومیں بھی ناپتہ
نہیں ہر وقت یہ الٹی سیدھی باتیں کیوں سوچتا رہتا ہوںتھو“ میں اپنے پر
جھنجھلایا اور الٹے پاؤں بھاگتی ہوئی کولتار کی سڑک پر منہ کی غلاظت
پھینکی۔ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر پہلی والی پوزیشن میں سنبھل کر بیٹھا ، سامنے
والے آئینہ میں ڈرائیور کو دیکھا اور اس کو زچ کرنے والا سوال داغا۔
”تو اب کونسی والی کے پاس جا رہے ہواپنی پسند والی کے پاس یاماں باپ کی
پسند والی کے پاس؟“
”اپنی والی کے پاس“ اس کااشتیاق دیدنی تھا، اس کا لہجہ بتا رہا تھا کہ اس
وقت اس کے من میں ستارے جھل ملا رہے ہیں۔اس کا چہرا بھرابھراتھا، آنکھیں
بڑی بڑی اور پیشانی کشادہ تھی پہلی نظر میں وہ تیس پینتیس کا لگتا
تھا۔نکلتا ہوا قد،سڈول جسم اور چہرے پر ہلکی خشخشی داڑھی۔ آواز میں ترنگ
تھی اور آنکھوں میں سرور عشق کی شفق زدہ لہریں موجزن تھیں۔
اس نے ’پسند‘ کا لفظ بیچ سے غائب کردیا۔ اور مجھے لگا جیسے دوسری والی اس
کی اپنی نہ ہوآج پہلی بار مجھے ان تمام لڑکیوں پر ترس آیا جو اپنی پسند کے
مقابلے میں ماں باپ کی پسند کو ترجیح دیتی ہیں۔
”اچھا“ میں اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکا۔ میں دوسری فکر میں الجھاہوا
تھادوسروں پر ترس کھانے والی فکر میں اس لیے مجھے کوئی جواب نہ سوجھ
سکا۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دوسروں پر رحم کھانے کے چکر میں میری اپنی حالت
قابل رحم ہوجاتی ہے۔اور مجھے اُن دِنوں سے رغبت ہونے لگتی ہے جن میںچنار کے
دیو پیکر درخت آگ کا چولا پہن لیتے ہیں۔اور اکیلے اور تنہا دلوں کو گرم
راکھ میں دبے ہوئے اپلے کی طرح سلگاتے ہیں۔
”لو ، پچاس اپنی پسندوالی کو دیدینااور پچاس ماں باپ کی پسند والی کو“میں
نے پچاس پچاس کے دو نوٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔میں ’پسند‘ کے لفظ کو اس
کی اپنی جگہ بحال کرنا نہیں بھولا تھا۔میرے ہونٹوں پر تمسخرانہ مسکان تھی
باوجود اس کے کہ مجھے مسخرہ پن اور مسخرے لوگ بالکل بھی پسند نہیں۔میں اپنی
اِس متضاد افتادِ طبع پر ہمیشہ متعجب رہتا ہوں۔
”سرجی، دعا کرنا میرے لیےمیری چار بہنیں ہیں اور دو بیٹیاںباپ بیمار رہتے
ہیں اوربڑی بیٹی معذور ہے۔ اورمیں اکیلا کمانے والا ہوںبس یہی ایک فکر ہے
کہ کسی طرح میری بہنوں کا گھر بس جائےان کا حق بھی ادا کرنا ہےبیٹیاں تو
ابھی چھوٹی ہیں“
”کیوں! کیا ہوا اس کو؟“
میں نے باپ کی بیماری کو نظر انداز کرتے ہوئے خصوصی طور سے اس کی بیٹی کے
بارے میں قدرے حیرت اور دکھ کے ساتھ دریافت کیا۔
” وہ پیدائشی نابینا ہے“اس نے دومنزلہ بس کو مہارت کے ساتھ اور ٹیک کیا اور
قدرے توقف کے بعد بولا۔
”اُف! یہ تو بہت دکھ کی بات ہے“
”جی ؛ مگر اب کیا کیا جاسکتا ہےجیسی اللہ کی مرضی، اس کی مرضی میں تو کوئی
دخل نہیں دے سکتا نا“
”ہوں “ میں بس’ ہوں‘ کرکے ہی رہ گیا ۔کیونکہ میں اس وقت پیدائشی طورپر
نابینا افراد کی زندگی کی مشکلات کے بارے میں سوچنے لگا تھا۔جن کے لیے رنگ
کچھ معنٰی نہیں رکھتے۔جن کے لئے حسن بے کیف ہے اور جو تاریکی کی ایک صورت
کے سوا کسی اورصورت کو نہیں پہچانتے۔ایک لمحہ کو مجھے لگا جیسے ان کی تلخ
زندگی کا زہر میرے رگ وپے میں قطرہ قطرہ اتر رہا ہے۔اور میں تلخیِ کام ودہن
کی آزمائش کے کرب سے کب کا گزر چکا ہوں۔
مگر میں تو دانا وبینا ہوں پر میری زندگی کے ساگر میں ان سے کئی گناہ زیادہ
تلخی گھلی ہوئی ہے۔انہوں نے رنگوں کو نہیں دیکھا اس لئے وہ ان کے انتخاب کے
آزار سے محفوظ ہیں ، انہوں نے حسن کو نہیں جانا اس لیے وہ اس کی سادگی پر
فریفتہ نہیں ہوئے اورجب فریفتہ نہیں ہوئے تو اس کی پرکاری کے جال سے بھی بچ
کر نکل گئے۔وہ کم از کم ان سے تو اچھے ہی ہیں جو میری طرح بینا ہیں مگر
محروم تماشاہیں۔جو چیزوں کو دیکھ اور محسوس تو کرسکتے ہیںمگر شاد کام نہیں
ہوسکتے،روشنیوں کے شہر میں عدم مساوات کی تاریکیوں کے پھلنے پھولنے کے باعث
۔اور اس باعث کہ ان کے ملک میں آسمان کا غرور خاک میں ملانے والی اونچی
اونچی عمارتیں ہیں مگر ان کے سائے میں چین کی نیند سوتی ہوئی بھوک کا سینہ
غرور سے پھٹا جا رہا ہے۔
”مگر اللہ نے اسے بے مثال خوبصورتی اور لا ثانی آوازسے نوازا ہے۔ایسا لگتا
ہے جیسے اس کابے مثال حسن اور لاثانی آوازاس کی آنکھوں کا کفارہ ہیں۔ اس کی
ماں میری پہلی بیوی اسے بازار اور شادی کی تقریبات میں بھیجتے ہوئے بھی
ڈرتی ہےاسے ہر وقت ڈر لگا رہتا ہے کہ اسے نظر لگ جائے گی اِدھرایک ذرا جسم
گرم ہوا، ذرا چھینک آئی اوراُدھر اس نے نئے کپڑوں کی کترن جلانا شروع
کیں۔نظر اتارنے کا یہ طریقہ اس نے اپنی ماں سے سیکھا تھا جب وہ کلام پاک
پڑھتی ہے تو راہ گیر بھی ٹہر جاتے ہیںایسا لگتا ہے جیسے ساتویں آسمان سے
فرشتے قطار در قطاراتررہے ہیں“
وہ اپنی بیٹی کی تعریف میں مگن تھا اور میں اپنی فکر میں ڈوبا ہواتھا۔جب
آٹو نے ہلکا سا جھٹکا لیااور بریک کی ہلکی چرچراہٹ کے ساتھ انجن کی گھرگھر
کم ہوئی تو میرے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیااور میں نے رسمی انداز میں اس کو
تسلی دیتے ہوئے کہا۔
”ضرور دعا کروں گا بھائی تمہارے لئے ، تم اتنے اچھے انسان ہوخوش اخلاق اور
ملنسار۔“
”جی سرجی، ضرور دعا کیجئے گا۔اللہ حافظ“
”اللہ حافظ“ میں آٹو سے اترا اور تارکول کی ٹھنڈی سڑک کے کنارے کھڑا
ہوگیا۔سڑک کے دونوں اطراف کھڑے چھوٹے بڑے درختوں نے سڑک کو دونوں طرف سے
لمبی لمبی ٹہنیوں کی آغوش میں لیا ہوا تھا۔
اس نے گیئر ڈالا اور رکشا آگے بڑھا دیاعقبی لائٹیں دھند اور اندھیرے میں
آہستہ آہستہ غائب ہورہی تھیں اور میں ایک جگہ پر جامد کھڑا سوچ رہا تھا کہ
یہ شخص جو راستہ بھر چہکتا رہااور خوش اخلاقی کامظاہرہ کرتا رہا اپنے من کے
سمندر میں غموں کے اتنے سارے پہاڑ چھپائے ہوئے تھا۔
آدمی کے من میں سمندر سے کہیں زیادہ وسعت ہے وہ اپنے اندر سمندر سے بھی
زیادہ خزانے چھپا سکتا ہے۔آٹو ڈرائیور کو دیکھ کر آج پہلی بار میرے دل میں
یہ احساس جاگااور میرے غم آہستہ آہستہ اسی طرح پگھلنے لگے جس طرح جوانی کے
دنوں میں میری گرم ہتھیلی پر برف پگھلا کرتی تھی ۔ آہستہ آہستہ اور دلگداز
ٹھنڈک کے احساس کے ساتھ۔مجھے اِس وقت نورین کی برف والی شرارت شدت کے ساتھ
یاد آرہی تھی۔نورین کو میں نے آخری بار اس وقت دیکھا تھا جب وہ اپنے پہلے
بیٹے کی پیدائش کے سوا ماہ بعد اپنے ماں باپ کے پاس آئی تھی،اس کی گود میں
اس کا بیٹا تھا، موٹا تازہ اور گول مٹول۔اس وقت وہ بہت کمزور لگ رہی تھی
۔جیسے کسی بڑی آزمائش سے گزری ہو۔
میرا گھر ایک فرلانگ کے فاصلے پر تھامگر مجھے کوسوں دور معلوم ہورہا تھا۔
میرے پیر من بھر کے ہو رہے تھے، کھلے آسمان تلے سرد ہوائیںمستی بھری چال چل
رہی تھیں اور میرے دماغ میں باقی ماندہ غم کی تلچھٹ ہچکولے کھا رہی تھی۔
میں صبح اندھیرے منہ گھر سے نکلا تھا اور اب شام کا دھندلکہ گہرے اندھیرے
میں تبدیل ہورہاتھا۔آج میرا کم ازکم یہ دسواں انٹر ویو تھا اور ناامیدی؛ غم
واندوہ کے سایوں کو مزید گھنیرا کر رہی تھی۔نوکری چھوٹے ہوئے پانچ ماہ ہو
چکے تھے اور اس مدت میں دسیوں انٹرویو دے چکاتھاقرض بڑھتا جا رہا تھا اور
میرا بلڈ پریشر ڈاؤن ہوتا جا رہا تھا۔آج ہی گھر سے فون آیا تھا کہ امی کی
طبیعت مسلسل بگڑتی جا رہی ہے ان کے علاج کے لیے نقدی کی ضرورت ہےادھر گھر
پر میرے تین بچوں کاکھانستے کھانستے برا حال ہو رہا تھامجھے ایسا لگ رہاتھا
جیسے میںجہنم کی طرف بڑھ رہاہوں کاش آٹوہی میں بیٹھے بیٹھے رات بسر ہوجاتی
اورصبح ہوتے ہی گیارھویں انٹرویو کے لیے پھر کسی دور دراز کے علاقے کی طرف
روانہ ہوجاتاتاریکی بڑھ رہی تھی اور ہوا میں طوفانی شدت آتی جارہی
تھی۔خوشحالی کے دنوں میں ایسے موسم سے اکثر لطف اندوز ہوتاتھا۔ تن من میں
گدگدی کرکے گزرتی ہوئی ہوائیں مجھے ہمیشہ سے ہی اچھی لگتی تھیں۔مگر آج
معاملہ بر عکس تھا ، آج مجھے ان پر غصہ آرہا تھا جیسے یہ باہر نہ چل کر
میرے دماغ میں چل رہی ہوں اور ان نا گفتہ بہ حالات کے مجھ پر وارد ہونے میں
کچھ نہ کچھ ان کا بھی دوش رہا ہو۔ مگر یہ مکمل سچ نہیں تھا۔
جب میں خیالات کی بھول بھلیوں سے واپس لوٹا تو اپنے آپ کو مسجد کے صحن میں
پایا، مجھے اس کا احساس ہی نہ ہوا کہ کس طرح گھر کے راستہ پر چلنے کے بجائے
مسجد کے راستے پر چل نکلا تھا۔
میں نے وضوکیا او ر دورکعت صلاة الحاجةکی نیت باندھ لی، میرے اندرون میں
آندھی وطوفان چل رہے تھے۔آج مجھے اپنی حالت پر رونا آرہا تھا، کشادہ مسجد
میں اکیلے روشن بلب کی ملگجی روشنی اور ڈراؤنا سناٹا مجھے رونے میں مدد دے
رہا تھامیں زور زور سے تلاوت کرنے لگاحالانکہ میں زیادہ تر چھوٹی سورتیں
پڑھنے کو ترجیح دیتا تھاکہ اس طرح کم سے کم وقت میں فرض ادا کیا جاسکتاہے
مگر آج میں نے خلاف معمول نسبتاً طویل سورت کا انتخاب کیاشاید اس لیے کہ
صلاة الحاجت میں فرضیت ساقط کرنے کی فکر جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی بلکہ اس
میں سراسراپنی غرض ہوتی ہےاور اپنی غرض سے کیا جانے والا تقریبا ہر کام
مرغوبِ خاطر ہوتا ہے۔میں زندگی میں پہلی بار صلاة الحاجة پڑھ رہا تھا اور
مجھے پہلی بار یہ احساس ہورہا تھا کہ میں آج مکمل طور پر مسجد میں موجود
ہوں ، دل ،دماغ اور نظر، یہاں تک کہ قوتِ تخیل بھی میرے ساتھ نہ جانے کس
انجانی قوت کے احساس سے میرے لہجہ میں رقت آگئی۔ مسجد کے سکوت پر سحر طاری
ہونے لگا۔ مجھے لگاجیسے درو دیوار بھی مجھے سن رہے ہیں اور تنہا ئی کے
احساس سے جھوجھتے ہوئے واحد روشن بلب کے پاس خاموش اور بے حس وحرکت بیٹھی
ہوئی گوری چھپکلی بھی مجھے بغور دیکھ رہی ہےکیڑے اس کے ارد گرد منڈلارہے
ہیں اور وہ ان کی طرف ذرا بھی التفات نہیں کررہی حالانکہ اس کا پچکا ہوا
اور دھوکنی کی طرح چلتا ہواپیٹ بتا رہا ہے کہ وہ بھوکی بھی ہے مجھے لگا کہ
آسمان سے فرشتوں کا نزول ہورہا ہے اور خدایہیں کہیں میرے آس پاس
موجودہےاورپھراچانک بونداباندی ہونے لگی حالانکہ ابھی کچھ دیر قبل آٹو سے
اترتے وقت آسمان پر بادل دکھائی نہیں دئے تھےمجھے لگا جیسے یہ میری گریہ
وزاری سے متاثر ہوکر یکجا ہوگئے ہیں اور اب ان کے من میں بھی سیلابِ گریہ
جوش مار رہاہے دفعتاًوضو خانے کی چھت موٹی موٹی بوندوں کی پیہم چوٹوں سے تڑ
تڑ تڑ بجنے لگی باہر آسمان رو رہا تھا اور اندر میری آنکھیں برس رہی تھیں۔
میں نے نگاہ اٹھائی گوری چھپکلی کو دیکھا وہ بدستور خاموش تھی ، منھ دیوار
کی سطح پر رکھے ہوئے اور پونچھ کو ہلکی جنبش دیتے ہوئے۔ بلب بھی اپنی جگہ
پرُ سکون تھا۔پھرکبوتر پھڑ پھڑانے لگے اور زور زور سے غٹر غوں غٹر غوں کرنے
لگے، جیسے اپنی ماداؤں کو رجھا رہے ہوںمیری آواز خود بخود دھیمی ہوگئی
کبوتروں کی آواز میں جادو اتر آیا ۔ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کہیں
شہنائیاں بج رہی ہیں ، لوک گیت گائے جا رہے ہیں ۔بارشیں گھر آنگن کو گیلا
کررہی ہیںاور نیم کی ڈالیوں پر جھولے پڑ گئے ہیں۔میں اندر سے بھیگنے لگا
اور ماضی کے ان دنوں کی یادیں ذہن کے پردے پر رقص کرنے لگیں جب میرے جسم سے
شرارے پھوٹا کرتے تھے اور انہیں ہر وہ شخص محسوس کرتا تھا جو اس جگہ بیٹھتا
جہاں سے میں اٹھتا تھا۔وہ بھی کیا دن تھے جب ہڈیوں میں رس تھا، من میں امنگ
تھی اور جسم میں خطائیں کرنے اور ان کی سزاپانے کا حوصلہ تھا۔جب فریب کھانے
اور پلکوں سے نمک چننے میں مزا آتا تھا۔مجھے یاد آیا جب نورین سیانی ہوگئی
تھی تو کس طرح اس کے ساتھ تنہائی میں رہنے کی سزا پائی تھی حالانکہ ہم نے
خطا نہیں کی تھی، پر گھر کے بزرگ کہتے تھے کہ تنہائی میں رہنا بھی تو خطا
ہے اور خطاؤں کی سزا مقرر ہے۔
”ہم خطا کرتے ہیں تو ان کی پوری پوری سزا پاتے ہیں اور زندگی بھر ان کا
بوجھ بھی ڈھوتے ہیں اوریہ کبوتر خطاؤں پر خطائیں کرتے ہیں ، نہ ان کی
سزاپاتے ہیں اور نہ ان کا بوجھ ڈھوتے ہیں۔ایسی ہی بہت ساری باتیں ہیں جن کے
باعث انسان اشرف المخلوقت ہونے کے باوجود اپنے آپ پر پرندوں اور کیڑوں
مکوڑوں کو ترجیح دیتے ہیں۔اور خود ان کی طرح ہونے کی خواہش میں مرے جاتے
ہیں۔“ میں ایک بار پھر اُس فکر کی رو میں بہنے لگا جو زیادہ کتابیں پڑھنے
کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔یا پھر زیادہ سوچنے کی وجہ سے۔مگر بڑھاپے میں پڑھنے
اورسوچنے کے علاوہ اور کیا بھی کیا جاسکتا ہےبڑھاپے سے میری نفرت بجاہے۔
پھر کسی کبوتر کے دم گھٹنے کی آوازآئی اور پھر کئی کبوتر ایک ساتھ پھڑ
پھڑانے لگے۔اُڑے اور دوسری اونچی جگہوں پر جا بیٹھے جو مجھے قبلہ رو ہونے
کی باعث نظر نہیں آرہی تھیں۔سفیدی مائل سیاہ رنگ کے چھوٹے بڑے کئی سارے پَر
فضا میں تیرنے لگے سفید رنگ کی موٹی تازی بلی نماز کاٹ کر گزری ،اس کے
جبڑوں میں کالے پروں والا کبوتر دم توڑ چکا تھا ۔ بلی کے نوکیلے دانتوں سے
گرم خون کے قطرے ٹپک رہے تھےمجھ پر وحشت طاری ہوگئی اور میںنے جلدی جلدی
نماز پوری کی۔
نماز پوری کرکے میں نے چاروں طرف کا بغور معائینہ کیا خطرے کی کوئی بات نہ
تھی۔بلیاں روزانہ سیکڑوں کے حساب سے کبوترپکڑتی ہیںیہ کوئی انوکھی بات نہیں
اور نہ ہی یہ کوئی ایسی بات ہے کہ اس پر دکھی ہوا جائے اس سوچ نے وحشت کو
اطمئنان سے بدل دیا اور میں مسجد کا جائزہ لینے لگا۔
”مسجد تو خوبصورت ہےکافی پیسہ خرچ کیا ہے محلہ کے لوگوں نے“ میں مسجد کو
ستائشی نظروں سے دیکھ رہا تھا”مگر یہ کیا ؟“میری نظر ،محرابوں ،ستونوں اور
ان پر کئی گئی تزئین کاری پر جمی ہوئی تھی ۔میں نے چشمہ اتارا منہ کی بھاپ
کی مدد سے گلاس صاف کئے اور دوبارہ آنکھوں پررکھا، شہادت کی انگلی سے ٹھیک
ناک کے اوپر والے حصہ کو آہستگی سے دبایا اورچشمہ ٹھیک اپنی جگہ پر بیٹھ
گیا۔ ”بتاؤ ! اتنی اچھی عمارت کو داغ لگا دیاکیسے اوٹ پٹانگ نقش بنائے ہیں
اور بے جوڑ رنگ بھرے ہیں کوئی بھی رنگ ایک دوسرے سے میچ نہیں کررہا اور یہ
قالین لگتا ہے لنڈا بازار سے اٹھا لائے ہیں“ میںقالین کے ایک سرے کو داہنے
پیر سے کریدتے ہوئے من ہی من میں بڑبڑایا۔
”جب اتنے پیسے خرچ کیے ہیں تو تھوڑے اور نہیں کرسکتے تھےاس سے تو یہی اچھا
تھا کہ چٹائیاں ہی بچھا لیتے “ میں انتظامیہ کی نا اہلی اور بد ذوقی پر اند
ر ہی اندر سلگ رہا تھا۔
”کیا کوئی قوم محض دو تین صدیوں میں اس قدر بد ذوق بھی ہوسکتی ہے کیا یہ
انہی کی اولاد ہیں جنہوں نے تاج محل اور قصر الحمراءجیسی عمارتیں بناکر
ساری دنیا کو حیرت زدہ کردیا تھا۔“ جب میرا بلڈ پریشر ہائی ہوجاتا ہے تو
مجھے اکثر ایسی ہی باتیں سوجھتی ہیں اور میں تاریخ کی ظلمتوں میں گم ہونے
لگتا ہوں۔اور اپنی قوم کو کوسنے دیتا ہوںیہ میری فطرتِ ثانیہ بن چکی ہے۔
بیزاری کے سلگتے ہوئے احساس کے ساتھ میں مسجد سے نکل آیا اور وہیں سیڑھیوں
پر گھٹنے کھڑے کرکے بیٹھ گیا۔اندرسے کبوتروں کے غٹرغوں غٹرغوں کرنے کی مستی
بھری آوازیں آرہی تھیں۔جس مادہ کا جوڑا سفید بلی کی بھوک کی بلی چڑھ گیا
تھا اس کے گھونسلے میں دوسرا نر گھس آیا تھایہ نر اکیلا تھااور اسے مادہ کی
تلاش تھی ابتداءًقدرت اپنے آپ ہی ان کے جوڑے بنایا کرتی ہے مگر جب یہ جوڑے
ٹوٹ جاتے ہیں تو اُنہیں پھر سے جوڑنے کے لیے کبوتروں کو خود ہی کوشش کرنا
ہوتی ہےنر گزشتہ کئی ماہ سے اسی کوشش میں تھا۔ اور پھر مادہ کی دکھی چونچ
میں اپنی گرم چونچ داخل کرکے اس کا غم غلط کرنے کی کوششوں میں جٹ گیا۔جب
کالی بلی نے اسے تنہا کیا تھا تو اس نے ہفتہ بھر سوگ منایاتھا اور دوسرے
کبوتروں کو ساتھ لے کر اس کے خلاف مہم بھی چلائی تھی مگر اس بار اسے سفید
بلی پر غصہ نہیں آیااسے اس کا جوڑا مل گیا تھا اسے اور کیا چاہئے تھا۔
پھر کئی سارے نر اور مادہ کبوتر ایک ساتھ غٹرغوں غٹرغوں کرنے لگےڈرے سہمے
ننھے ننھے دلوں میں زندگی کی رمق لوٹ آئیجیسے دھماکوں اور انکاؤنٹر کے بعد
ہوتا ہےجتنی دیر آپریشن چلتاہے بس اتنی ہی دیر سراسیمگی پھیلتی ہے اور پھر
زندگی اپنے پیٹرن پر لوٹ آتی ہے۔فروٹ جُوس اور بریانی کی دکانیں کھل جاتی
ہیں اور لوگ کام ودہن آشنا لذتوں کے حصول کی فکر میں ڈوب جاتے ہیں۔
بیزاری اور جھنجھلاہٹ کی زیریں لہریں میرے من کے ساحل پر سر پٹخ رہی تھیں
اور میں پشیمانی کے سمندر میں غرقاب ہورہا تھامیں نے خود پر نظر کی اور
اپنے اندرون کا جائزہ لیا۔ جب میں مسجد کی طرف بڑھ رہا تھا تو میری کیا
حالت تھی اور اب جب مسجد میں ہوں تو مجھ پرکیسی حالت طاری ہے۔ اُس وقت بے
کلی کے جذبات سے دل امنڈا آتا تھا،امید کی شمع روشن تھی، گناہگاریوں پر
پچھتاوا تھا ۔دل میں یادِ خدا تھی اور لبوں پر دعاؤں کا ہالہاور اب اب من
میں پراگندہ خیالات کا ہجوم ہے اور لبوں پر تنز،تمسخر اور بس گلہ شکوہ۔
”یا اللہ یہ کیسی حالت میں گرفتار ہوں میں اس سے تو یہی بہترہے کہ میں زندہ
ہی نہ رہوںیہ حالت تو کسی بھی شخص کے قتل کے جواز کے لیے کافی ہےمیں سالہا
سال سے خدا کی عبادت کررہا ہوں مگر وہ ہنوز عبادت نہیں بنی۔“میں نے دل میں
سوچااور آواز لگائی۔
”ہے کوئی جو مجھے قتل کرکے ثوابِ دارین حاصل کرے“ابھی میں نے یہ اعلان کیا
ہی تھا کہ لوگوں کی امڈتی ہوئی بھیڑمیں اپنی چشم تصور سے دیکھنے لگاان کے
ہاتھوں میں تیز دھار والے ہتھیار تھےمجھ پر خوف طاری ہوگیااس سے پہلے کہ وہ
مجھ تک پہونچ پاتے او ر مجھے قتل کرکے جنت کے حقدار بنتے میں کھڑا ہوااور
زور سے چلایا۔”میں جانتا ہوں کہ تم سب جنت کے متلاشی ہو اور اسے پانے کا
آسان راستہ میرا قتل ہےپر میری ایک شرط ہے کہ جو مجھے جہنم رسید کرکے خود
اپنے لئے جنت کا ٹکٹ خریدنا چاہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خوداسی طرح کی
حالت میں گرفتار نہ ہوہے کوئی؟“پتہ نہیں میری بات میں ایسی کیابات تھی کہ
سب کے سب اپنی جگہ پر ٹہر گئے اور پھر الٹے پاؤں واپس پلٹ گئے۔
میں مسجد کی سیڑھیوں سے اٹھا اور کالی اور بھیگی بھیگی رات میں اپنے گھر کی
طرف چل دیا۔ |