رپورٹر: عصر حاضر کے شعرااور
ادبا کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے نیز آج کی شاعری اور نثر نگاری پر آپ
کیا فرماتے ہیں؟
ماضی کے شعرا اور ادبا کا نہ صرف یہ کہ کلام زندہ ہے بلکہ وہ بھی زندہ
ہیں،ہماری نصابی کتابوں میں ان کا کلام منشور و منظوم ایک مدت سے شامل ہے ۔عہد
جدید کے وہ شعرا اور ادبا جو اب بزرگی کے مقام پر ہیں، ان کی کوئی تخلیق اس
قابل نہیں کہ ادب عالیہ میں جگہ بنا سکے ۔
رپورٹر: کیوں؟
اس لیے کہ یہ بزرگ شعرا و ادبا ماضی کے وہ بگڑے نوجوان قلمکار تھے جنھوں نے
کبھی سنجیدگی سے ادب پرتوجہ نہیں دی۔
رپورٹر: کیوں نہیں دی
کیوں کہ وہ ادب کے آدمی ہی نہیں تھے، یہ با ت صرف حال پر منطبق نہیں ہوتی
کہ آج کے نوجوان شعرا سادے کاغذ پر اصلاح لیتے ہیں بلکہ یہ رسم تو عرصہ
دراز سے چلی آ رہی ہے ۔ دوسری بات یہ کہ جب اچھے لوگوں سے جگہ خالی ہو تی
جائے گی اور ان کی جگہ لینے والے خالص قلمکار نہیں ہوں گے تو ان کی خالی
جگہوں پر کون قابض ہو گا ۔
رپورٹر: کون قابض ہو گا؟
یہی دو نمبر کے لوگ۔جگہ تو کبھی خالی نہیں رہتی ہے۔آپ کی جگہ کو خالی
کرادینے کے لیے لوگ آپ کے مرنے کا انتظار نہیں کریں گے ، آپ کے ہٹتے ہی آپ
کی جگہ پر قابض ہو جائیں گے۔مزید براں اگرآپ ان لوگوں کے خلاف ہیں یا ان کی
اصلیت چاک کرتے پھر رہے ہیں تو پھر آپ کو اپنے جگہ سے ہٹنے کا انتظار نہیں
کرنا پڑے گا بلکہ یہ لوگ خود آپ کو ہٹا دیں گے ۔سو آج کے دور کے بزرگ جو
ماضی کے بگڑے قلمکار تھے، انھوں نے نہ صرف اپنی بقا کے لیے نئی نسل کے غیر
تربیت یافتہ نوجوانوں کو جمع کر کے اپنے اپنے اکھاڑے بنا لیے ہیں بلکہ اپنی
شان میں ان سے قصیدے بھی لکھوا رہے ہیں اور ان کے قصیدہ بھی پڑھ رہے ہیں۔
ہمارے اولین ،متقدمین اور آخرین میں اکثریت خالص ہل قلم کی تھی، ان کے بعد
کی نسل میں اگرچہ وہ خالص پن نہیں تھا تاہ وہ گوارا تھا ۔نئی نسل کے شعرا
کے کلام میں ناگوار یت کی کوئی انتہا نہیں ہے ۔
رپورٹر: آپ آج کے دور کے شعرا و ادبا اور ان کی نگارشات سے اتنے بددل کیوں
ہیں؟
بھائی میرے ! جھوٹ ، بناوٹ ، تصنع اورغلط بیانی کی کوئی حد تو ہونی چاہیے
نا ۔مگر آج کے دور میں ہمارے قلمکاروں نے تو ساری حدیں پھلانگ لی ہیں اور
دروغ گوئی میں وہ کمال حاصل کر لیا ہے کہ خود دوروغ شرمندہ ہے۔ آج کے کسی
بھی شاعر کا کلام پڑھیے، اس کے کلام پر اہل قلم کی رائے دیکھیے۔ ان کی
تحریریں یہ بتاتی ہیں کہ اردو ادب کی تاریخ میں یہ فرد واحد ہیں جن کا ڈکشن
،اسلوب ، طرز تحریر ، لفظیات اور ان کی حسیات میر ،غالب، اقبال اور دیگر
تمام بڑے شعرا سے الگ، منفرد اور جداگانہ ہے ۔گویا یہ سب پر بھاری ہے۔پھر
ستم یہ کہ ہمارے ایسے نقادوں ،تقریظ کاروں کی رائے اگر کسی ایک کے بارے میں
ہوتو کچھ صبر بھی کر لیا جائے ۔وہ تو ہر ایک کو اسی طرح نوازنے پر تلے ہوئے
ہیں۔
لفظوں کی بے حرمتی ،صنف نازک کی بے حرمتی سے کہیں زیادہ سہل ہے کہ اس پر حد
نہیں لگتی ۔نئی نسل لفظوں کی بے حرمتی ہی نہیں کرتی بلکہ ان کا قتل عام بھی
کررہی ہے۔ پرانی نسل کا کلام پھر ری سائیکل ہو جاتا تھا جو بعد کے نئے شعرا
کے کام آتا تھا مگر ان کے مقابلے میں نئی نسل کے قلم کار تو اس قابل بھی
نہیں کہ انھیں ری سائیکلنگ کر کے کنگھی ،لوٹا یا چپل بناجا جا سکے ۔ انھیں
تو بس دیگر کچرے کے ساتھ جلایا ہی جا سکتا ہے ۔ |