سب کا یہی خیال تھا کہ ’قائد
تحریک‘کوئی ایسا تیر چلائیں گے ، جو ایک ہی جست میں کئی شکار کر لائے گا۔
یہ خیال خام بھی نہ تھا کہ اپنے ’پروگرام ‘کے آغاز میں ہی موصوف نے وضاحت
کردی تھی کہ آج میں ثبوت کے ساتھ بہت اہم باتیں کروں گا، یہ خبر بھی دے دی
تھی کہ ’خبر ‘اور تبصروں کے لئے میں نے الگ الگ پلندے رکھ رکھے ہیں۔الطاف
حسین نے تین گھنٹے تو گفتگو کی ، اس میں بے شمار تیر بھی چلائے ، شومئی
قسمت کہ وہ تیر نشانے پر نہیں لگے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ تیر ہوا میں ہی
چلائے گئے تو بے جا نہ ہوگا۔
ناظرین کو شروع میں ہی اطلاع کردی گئی تھی، کہ ہمیں جھوٹ اور فراڈ پر مبنی
تاریخ پڑھائی جاتی رہی، اگر مقرر کی بات کو سچ مان لیا جائے تو حقیقت یہ
سامنے آتی ہے کہ قوم سے بولا جانے والا یہ سب سے بڑا جھوٹ ہے ، کیونکہ قوم
کا بچہ بچہ جھوٹ کی اس مٹی سے گندھا ہے جس میں ابتدائی کلاس سے اسے بتایا
گیا کہ ”پاکستان کامطلب کیا ۔۔۔۔لاالہ الااللہ“
اب اگر ’قائد تحریک‘ نے نئی تحقیق فرما لی ہے اور نئے حقائق ڈھونڈ نکالے
ہیں تو وہ بھی قوم کے سامنے لائے جانے ضروری ہیں، اگر ان کی تحقیق درست ہے
تو پھر قوم کو بتایا جائے کہ اس کے ساتھ اس درجہ ’دھوکہ ‘ کیوں کیا گیا، دو
نمبر طریقے سے اس کے جذبات کو مذہب کے نام پر کیوں بڑھکایا گیا؟ اور اگر
موصوف کی تحقیق کسی اور نظریے پر مبنی ہے تو پھر قوم اور حکومت کا فرض ہے
کہ اس کی تردید کرے ۔
ممکن ہے کہ الطاف حسین کی تحقیق میں اس راز سے پردہ اٹھایاگیا ہو کہ قائد
اعظم نے کبھی خود یہ نعرہ نہیں لگایا، ہوسکتا ہے کہ یہ بات کسی حد تک درست
بھی ہو ، کیونکہ قائد اعظم ایک سنجیدہ اور باوقار انسان تھے ، وہ سیاست میں
نعروں، ڈراموں، فنکاریوں اور اداکاریوں پر یقین نہیں رکھتے تھے، وہ عمل پر
یقین رکھتے تھے ،تاہم اس علمی بحث میں ہمارے جیسے نیم خواندہ فرد کا الجھنا
مناسب نہیں، یہ کام ڈاکٹر صفدر محمود ، مجیب الرحمان شامی اور اسی قسم کے
دیگر محققین کا ہے جو قائد اعظم کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا باریک بینی سے
جائزہ لیتے ہیں۔
پاکستانی قوم پر یہ راز بھی آشکار نہیں ہوسکا کہ ’قائد ‘ کی جو ’پریس
کانفرنس‘ہر ٹی وی چینل نے براہ راست سنانی اور دکھانی فرض جانی ، اس میں
کیا کہا جانا مقصود تھا، اس کا تعلق ”پاکستان کا مطلب کیا ۔۔۔ لاالہ
الااللہ“ سے کس طرح جوڑا جا سکتا ہے،پاکستانی قوم کو اس نئی بحث میں
الجھانے کی کیا ضرورت محسوس کی گئی؟کیا وہ کراچی میں ذوالفقار مرزا کی
لگائی ہوئی آگ سے قوم کی توجہ ہٹانا چاہتے تھے ۔ اگر ایسا ہی تھا تو اپنی
صفائی پیش کی ہوتی۔ الٹا انہوں نے تو ان تمام الزامات کو دوسروں کے کھاتے
میں ڈال دیا ، جن کا الزام ہمیشہ ایم کیو ایم پر لگتا آیا ہے، خاص طور پر
بوری بند لاشوں اور ٹارچر سیلوں کی بانی تو آپ ہی کی جماعت ہے۔
موصوف نے اپنے طویل ”مزاحیے “ میں اے این پی اور جماعت اسلامی پر بھی کرپشن
کے الزامات لگائے ، مگر ساتھ ہی احتیاطاًً قوم کو یہ بھی بتا دیا کہ وہ
ثبوت وغیر ہ مانگنے کے جھمیلوں میں نہ پڑیں کہ یہ ان کے پاس نہیں ہیں، کیا
عجب ہے کہ اپنے ارد گرد دستاویزات کے پلندے رکھنے والے مقرر نے دو اہم
جماعتوں پر الزامات لگائے اور اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے ایک بھی
ثبوت پیش نہ کیا ۔ انہوں نے بے شمار باتیں کیں، مگر وہ اس طرف نہیں گئے
جدھر قوم ان کو دیکھنا چاہتی تھی، انہوں نے یہ تو بتایا کہ قرآن پاک علم
حاصل کرنے کے لئے ہے ، سر پر اٹھانے کے لئے نہیں (عمل کا ذکرنہیں کیا)مگر
یہ نہ بتایا کہ ذوالفقار مرزا نے جو باتیں کی ہیں وہ درست تھیں یا پاکستان
کے سرکاری تعلیمی نصاب کی طرح فریب اور جھوٹ؟ |