میڈیا ایک خوبصورت آئینہ ہے !

ملکی حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ جس میں سنجیدہ پن اپنانے کی اشد ضرورت ہے اس سلسلے میں احتیاطی اور دفاعی تدابیر اختیار کی جائے تو حالات میں بہتری لائی جاسکتی ہے جوکہ ہرصورت میں لانی ہوگی۔ ملک میں جس قسم کی ہیجانی کیفیت پیدا کردی گئی ہے اس کے تدارک کے لیے ٹھوس اقدامات اور مضبوط منصوبہ بندی کرنی ہوگی ۔موجودہ حالات میں ہر شخص کو اپنا اپنا کردار مثبت انداز اور اصولی طریقے سے ادا کرنا ہوگا ،یہ تمہید پیش کرنے کا بنیادی مقصد آئین اور قانون کی بالادستی کی پاسداری کرنا ہم سب پر لازم ہے ۔ ذرائع ابلاغ (میڈیا) میں لوگوں کی ملکی حالات واقعات اور دیگر معاملات پر مختلف قسم کے نظریات ،فطرت ،خیالات اور سوچ کاسامنے آنا اور ان کو من وعن تسلیم کرلیا جائے میں سمجھتا ہوں ہرگز نہیں بلکہ اس پر غور و فکر کیا جائے کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح ہے۔ ہمیں ان روِش کو ترک کرنی ہوگی جس بات سے انسان کی شخصیت بری طرح متاثر ہورہی ہو جس طرح کہ آج ہمارے سامنے اس کا نقشہ نظر آرہا ہے ۔ہر شخص کو آزادی اظہار رائے کا پورا پورا حق ہے اور اس کو اپنے اظہار رائے کرنے کاحق انسان کے بنیادی حقوق میں دیا گیا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے ضابطہ اخلاق بھی ہیں حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی موضوع کو زیربحث لانا اوراصولوں کے مطابق ایک دوسرے کو قائل کرنا ہی دنیا کا نظام چلتا ہے۔ یہ ذہین نشین کرلیں کہ مثبت پروپیگنڈامعاشرے کو بہتری کی طرف لے جاتا ہے جبکہ دوسری جانب گمراہ کن پروپیگنڈاکرنے والے کو ہمیشہ رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ پرنٹ، الیکٹرانک ، اورسوشل میڈیا پر دنیا میں رونما ہونے والے واقعات حالات کے مناظر سامنے آتے ہیں جس میں ضروری مثبت آگاہی کے پہلو شامل ہوتے ہیں۔ اس کی صحیح عکاسی سے مثبت خیالات ،سوچ اور اصولی نظریہ رکھنے والے افراد اپنے مقصد میں کامیابی کے ساتھ ساتھ اپنی ترقی کی منازل بھی طے کرتے چلے جاتے ہیں ۔ جبکہ منفی سوچ، خیالات اور نظریہ رکھنے والے افراد اپنے گمراہ کن پروپیگنڈاکا پرچار کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور پھربالآخر انھیں گمراہ کن پروپیگنڈاکا نتیجہ انتہائی پریشانی، مصیبت اور اذیت کی صورت میں ملتا رہتا ہے۔ دراصل گمراہ کن پروپیگنڈاجس کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی اور وہ وقت بھی آتا ہے کہ اس گمراہ کن پروپیگنڈے کے عمل سے بیزاری محسوس کرتے ہوئے اسے خیر باد کہہ دیتے ہیں، پرنٹ ،الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں حسن سلوک ، بہترین اخلاق اور مدلل انداز سے اپنا کردار ادا کریں جو آپ کی شخصیت کو نکھارتا ہے۔ یہ بات یاد رکھیں کہ میڈیا ایک خوبصورت آئینہ ہے یوں سمجھ لیں میڈیا ایک آئینے کی مانند ہے جسے صاف ،شفاف رکھنے والے افراد ہی اس میں اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں اگر اس میڈیا کوجو ایک خوبصورت آئینہ ہے اسے توڑ دیا جائے گا تو اپنا چہرہ دیکھنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے یہ بہت گہری باتیں ہیں اسے وہی سمجھیں گے جنھیں میڈیا کی قدر ہوگی لہذا اپنے خوبصورت قلم کو پرنٹ ،الیکٹرانک اور سوشل میڈیا میں خوبصورت انداز میں پیش کریں ۔ سوشل میڈیا پر زہریلا پروپیگنڈا جس انداز سے پیش کیا جاتا اورکیا جا رہا ہے سوشل میڈیا پر مذموم منفی مہم چلائی جاتی ہے جس سے دشمن ملک کی خواہش ہوتی ہے کہ پاکستان کا دفاع کمزورہو۔ا س قسم کی نفرت، اشتعال انگیزی اور جھوٹ اور تقسیم پر نوجوانوں کو اداروں کے مقابل کھڑے کرنے والا رویہ بہت ہی افسوسناک اور شرمناک ہے۔ روز نامہ جنگ اپنے اداریہ میں لکھتا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ قرض پروگرام میں ہونے والی تاخیر کو سوشل میڈیا سمیت مختلف فورموں پر پھیلائی جانے والی قیاس آ رائیوں کے ذریعے خدشات کی شکل دے کر جس طرح ابھارنے کی کوشش کی جارہی ہے یہ ایک حساس معاملہ ہے جس پر وزیراعظم شہباز شریف نے بجا طور پر واضح کیا ہے کہ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام ایک قومی اثاثہ ہے، ریاست اس کی غیرت مندی سے حفاظت کرتی ہے اور یہ مکمل طور پر فول پروف،کسی بھی دباؤ سے بالاتر ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سینیٹ کی گولڈن جوبلی سے متعلق خصوصی اجلاس سے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ ہمیں ہر حال میں قومی مفادات کا تحفظ کرنا ہے اور نیوکلیئر پروگرام پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ اداریہ مزید لکھتا ہے کہ بارہا ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ ہرمرتبہ منفی سوچ رکھنے والے عناصر کو پاکستان کے پرامن ایٹمی پروگرام کا پیغام ملا۔نیوکلیئر ٹیکنالوجی سے سماجی اور معاشی ترقی حاصل کرنے کیلئے پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کی 1956 میں بنیاد رکھی گئی تھی۔ مشہور شاعر کے کچھ اشعار ملاحظہ ہو: دوسروں پر اگر تبصرہ کیجئے، سامنے آئینہ رکھ لیا کیجئے،(خمار بارہ بنکوی) آئینوں کو زنگ لگا، اب میں کیسا لگتا ہوں (جون ایلیا) خواب کا رشتہ حقیقت سے نہ جوڑا جائے، آئینہ ہے اسے پتھر سے نہ توڑا جائے( ملک زادہ منظور احمد) چاہے سونے کے فریم میں جڑ دو ، آئینہ جھوٹ بولتا ہی نہیں( کرشن بہاری نور)٭٭٭
 

Aslam Qureshi
About the Author: Aslam Qureshi Read More Articles by Aslam Qureshi: 32 Articles with 27623 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.