ارشادِ ربانی ہے: اور اے نبیؐ، میرے بندے اگر آپ سے میرے متعلق پوچھیں، تو
اُنہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہی ہوں پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے،
میں اُس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر
لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں یہ بات تم اُنہیں سنا دو، شاید کہ وہ راہ
راست پالیں‘‘۔ اس آیت کے شان نزول کی بابت روایات میں آتا ہے کہ سوال کیا
گیا ’اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟ وہ قریب ہے یا دورہے ؟ ‘ یہاں پر نہ صرف ان
سوالات کا جواب دیاگیا بلکہ یہ بھی بتایا گیا کہ رب کائنات قریب ہونے کے
ساتھ ساتھ تمہاری خبر گیری اور مشکل کشائی بھی کرتا ہے یعنی دعاوں کو قبول
فرماتا ہے۔ نبیٔ کریم ﷺ نے اس آیت کی تلاوت کرکے اس طرح دعا کی کہ :’’اے
اللہ تو نے دعا کا حکم دیا ہے اور اجابت کا وعدہ فرمایا ہے۔ میں حاضر ہوں
الٰہی میں حاضر ہوں۔ الٰہی میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں۔ اے لاشریک اللہ میں
حاضر ہوں حمد و نعمت اور ملک تیرے ہی لئے ہے تیرا کوئی شریک نہیں ۔ میری
گواہی ہے کہ تو نرالا یکتا بےمثل اور ایک ہی ہے۔ تو پاک ہے، بیوی بچوں سے
دور ہے تیرا ہم پلہ کوئی نہیں تیری کفو کا کوئی نہیں تجھ جیسا کوئی نہیں
میری گواہی کہ تیرا وعدہ سچا ہے۔ تیری ملاقات حق، جنت ودوزخ، قیامت اور
دوبارہ جینا یہ سب برحق امر ہیں‘‘۔
تجدیدِ ایمانی کی اس روح پرور دعا کے علاوہ حدیث قدسی یہ بھی ہے کہ :’’
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ جب مجھے یاد کرتا ہے اور اس کے ہونٹ
میرے ذکر میں ہلتے ہیں میں اس کے قریب ہوتا ہوں‘‘۔ یعنی ذکر و دعا اللہ
تبارک و تعالیٰ کی قربت کاوسیلہ ہے۔ ان فضائل سے قطع نظر مذکورہ بالا آیت
کا سیاق و سباق بھی بہت اہم ہے کیونکہ اس کے آگے اور پیچھے دونوں جانب
روزوں کا بیان ہے۔ احکامات صوم کے درمیان میں دعا کی ترغیب روزے سے اس کا
گہرا تعلق ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ سلسلۂ کلام کے بیچ میں یہ ایک جملۂ
معترضہ ہے۔ یہ فقرہ اگر درمیان میں موجود نہ ہو تب بھی کلام میں خلل نہیں
پڑتا ۔ جملۂ معترضہ کی تعریف یہی ہے کہ کسی بات کے درمیان یہ جملہ اس امر
یا وضاحت یا تحسین کلام یا دعا وغیرہ کے لیے آتا ہے۔ یہاں پر وہ نہ صرف حسن
کلام میں اضافہ کرتا ہے بلکہ نہایت خوبصورت انداز میں روزے کی روح یعنی دعا
کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ حدیثِ رسول ﷺ میں دعا کو عبادت کا مغز بتایا گیا ہے۔
پھل کے چھلکے اور گودے کا فرق سبھی جانتے ہیں ۔ انگورکی مانند چھلکا اگر
بہت مہین ہوتو اسے الگ نہیں کیا جاتا مگر کیلے کے ساتھ مختلف معاملہ ہوتا
ہے اور اخروٹ کے چھلکے کو توڑ کر الگ کرنا پڑتا ہے۔ روزے کے چھلکے یعنی
ظاہری پہلو اگر بہت دقیق ہوجائیں تو انہیں الگ کیے بغیر باطن میں چھپے
تقویٰ تک رسائی ممکن نہیں ہیں ۔اس لیے ماہِ رمضان میں دعا کے اہتمام کی
ضرورت و اہمیت بہت زیادہ ہے۔
رمضان المبارک کی آمد سے قبل آپ ﷺ نے صحابہ کرام کو یہ دعا سکھلائی:’’ اے
اللہ! آپ مجھے اس مہینے میں(گناہوں سے)بچا لیجیے، اور مجھے رمضان تک پہنچا
دیجیے، اور اور اس مہینے کی (عبادات )کو میری طرف سے قبول فرمائیے‘‘۔ اس کے
علاوہ ان مناجات کی تلقین بھی فرمائی کہ:’’اے اللہ! رمضان کا مہینہ قریب آ
گیا، پس آپ اس مہینے کو میری سلامتی کا ذریعہ بنائیے اور مجھے اس مہینے میں
گناہوں سے محفوظ فرمائیے اور میری طرف سے اسے سلامتی والا بنائیے۔ اے اللہ!
مجھے صبر اور اجر کی امید کے ساتھ اس کے روزے اور راتوں کی عبادت کی توفیق
عطا فرمائیے، اور اس مہینے میں مجھے کوشش کرنے کی، محنت کرنے کی، طاقت کی
اور چستی کی توفیق عطا فرمائیے، اور مجھے اس مہینے میں اکتاہٹ، تھکنے، سستی
اور اونگھنے سے بچا لیجیے ۔ اس مہینے میں مجھے شب قدر نصیب فرمائیے جس کو
آپ نے ہزار مہینے سے بہتر بنایا ہے‘‘۔ان دعاوں کا اہتمام بہت ضروری ہے۔
رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ روزے دار افطار کے وقت جو دعا کرتا ہے اللہ
تعالیٰ اسے قبول فرماتا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ افطار کے وقت اپنے اہل
خانہ اور بچوں کو بلا لیتے اور دعا کرتے :’’ اے اللہ میں تیری اس رحمت کو
تجھے یاد دلا کر جس نے تمام چیزوں کو گھیر رکھا ہے تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ
تو میرے گناہ معاف فرما دے ‘‘۔ حدیث شریف میں جن تین ا شخاص کوقبولیتِ دعا
کی بشارت دی گئی ہے ان میں عادل بادشاہ اور مظلوم کے علاوہ روزے دار شامل
ہے۔ اس لیے ماہِ رمضان کے دوران دعا کا خاص اہتمام ہونا چاہیے۔ حضرت عائشہ
ؓ نے پوچھا اے اللہ کے رسول !! رمضان کا مہینہ آگیا ہے، میں اس میں کیا دعا
کروں ؟ تو آپ نےتعلیم فرمائی :’’ اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے، معافی کو
پسند کرتا ہے، پس مجھے معاف فرمادے‘‘۔ دعا دراصل بندۂ مومن کے عزم و ارادہ
کا وہ اظہار ہوتا ہے جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی توفیق کا سبب بن کراسے
رمضان کی برکتوں سے مالا مال کرواتا ہے۔ رب کائنات اس ماہِ مبارک میں ہمیں
دعا کرنے کی توفیق عطا فرما کر انہیں شرف قبولیت عطا فرمائے۔
|