حضور اکرم ص،محسن_انسانیت سیاستدان۔

سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری کی
سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی

حضور ،خاتم النبیین ،حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ ، رہتی دنیا تک ،عالم_ انسانیت کے لئے اسوہء حسنہ اور مینارہ ء نور ہے ،جس سے مشرق و مغرب میں رہنے والے انسانوں کے لئے رہنمائی موجود ہے۔نظام معاشرت ہو یا نظام معیشت ،سیاست ہو یا نظام قانون و عدل ،نظام تعلیم ہو یا خارجہ پالیسی ،غرض ہر شعبہء زندگی کے لئے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ،سرچشمہء رشد و ہدایت ہے۔
میں سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ایک منفرد گوشے کے حوالے سے قلم کشائی کرنا چاہتی ہوں ،وہ آپ کا 'انداز_حکمرانی' ہے ،جس طرح حضور اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم ،ایک شفیق والد تھے ،بہترین شوہر تھے ، حکمت و دانائی کا انداز لئے معلم تھے ،اسی طرح آپ ایک بہترین رہنما اور حکمران بھی تھے ،اپنی ملت کے لئے دردمندی کا احساس رکھنے والے مدبر و منتظم بھی تھے۔ بقول شاعر
وہ دیکھو ،نور برساتا، عرب کا تاج دار آیا
ملی راحت غلاموں کو ،یتیموں کو قرار آیا !
صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالٰی ہے:
ترجمہ: بے شک تمہارے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمہارا کسی نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے ،تمہاری بھلائی کا وہ حریص ہے ،ایمان لانے والوں کے لئے روؤف و رحیم ہے ۔سورہء توبہ ، آیت 128.
اس سے بڑھ کر اور کیا گواہی ہوگی کہ خود رب_ کائنات ،آپ کی ہمدردانہ طبیعت کی گواہی دے رہا ہے !
حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ،اس لحاظ سے بھی محسن_انسانیت تھے کہ آپ نے 'ریاست_مدینہ ' کی صورت میں وہ 'سیاسی نظام اور وہ مدبرانہ نظام حکومت' انسانیت کو دیا ،جس کی تاریخ _عالم میں نظیر نہیں ملتی۔وہ نظام جونہ صرف اسلامی معاشرے کی بقا کا ضامن ہے بلکہ ریاست کے لئے بھی حفاظتی حصار ہے،جو تہذیب و تمدن ،اخلاقی اقدار اور خاندانی استحکام کے ساتھ انسانیت کی فلاح کی ضمانت ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہء حیات ہے اور سیاست اس زندگی کا حصہ ہے۔بقول اقبال
جدا ہو ،دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی !
حضورِ اقدس صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی پہلی سیاسی تدبیر 'ہجرت_ حبشہ' کی صورت میں نظر آتی ہے،وہ سفر جو مسلمانوں کی جان و ایمان بچانے کے لئے ناگزیر تھا ،تاریخی مثال بنا۔ آپ کی ایک اور سیاسی تدبیر 'بیعت_ عقبہ ثانیہ ' تھی،جب مسلمانوں نے عہد کیا کہ وہ ہر حال میں حضور کی اطاعت کریں گے۔اس موقع پر آپ نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو اپنا نمائندہ بنا کر یثرب یعنی مدینہ کی طرف بھیجا اور بعد میں آپ نے خود بھی اپنے جاں نثاروں کے ساتھ مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی ۔ مدینہ منورہ میں آپ نے ایک مثالی اسلامی فلاحی ریاست قائم فرمائی اور خود اپنی رعایا کے لئے رحیم و شفیق حکمران ثابت ہوۓ۔انصار اور مہاجرین کو مواخات کے رشتے میں جوڑ کے بھائی بھائی بنادیا۔قوم کو متحد و منظم کیا۔ داخلی تدابیر اختیار کرنے کے بعد آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے خارجہ پالیسی کی طرف توجہ فرمائی اور ' صلح حدیبیہ ' کا شان دار معاہدہ کیا جسے اللہ تعالٰی نے 'فتح_مبین' قرار دیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قول کے پکے اور وعدے کے پابند تھے ۔آپ کے دشمن بھی آپ کی صداقت اور وعدہ وفائی کی گواہی دیتے تھے۔اس سے مدینہ منورہ کے معاشرے میں امن وسکون نے قرار پکڑا اور دعوت و تبلیغ کے مواقع کھلے ،حتی ' کہ چند سال کے اندر 'فتح مکہ ' کی بڑی کامیابی مل گئ اور آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، دس ہزار صحابہء کرام کے جلو میں ،اپنے آبائی وطن مکہ میں ،فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے ۔فتح مکہ کے موقع پر آپ کے جانی دشمن ،اپ سے خوف کھا رہے تھے لیکن آپ نے ' لا تثریب علیکم الیوم' کہہ کر ان کے دل بھی جیت لئے۔آپ نے کسی دشمن سے ذاتی انتقام نہیں لیا ،سواۓ ان چند گستاخوں کے ،جو منصب_رسالت کی توہین کے مرتکب تھے ،انھیں سزا سنائی ۔
آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے لوگوں کو کبھی ذات ،برادری ،قبیلے یا زبان ورنگ کے امتیازات کی بنیاد پہ نہیں ابھارا بلکہ ایک کلمہء طیبہ، لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ کی بنیاد پہ جمع کیا اور اس کلمہ کے نظام کو عملی صورت میں نافذ کرکے دکھایا۔
بطور حکمران ، 'میثاقِ مدینہ' ،آپ کے فہم و فراست کا شاہکار ہے۔ آپ نے مدینہ کے اطراف میں قبائل کے ساتھ ' سیاسی معاہدات ' کئے۔آپ نے مختلف قبیلوں کے مابین رشتہ داری کو بھی رواج دیا، تاکہ باہم متحد ہوکے ،کسی بیرونی یلغار کا مقابلہ کیا جاسکے۔ ایک بار کسی جنگ کے موقع پر کسی کی بیٹی ،مسلمان فوج کی قید میں آئی،آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے شانوں سے کملی مبارک اتار کر اس کے اوپر ڈال دی۔ کسی نے کہا کہ یہ تو کافر کی بیٹی ہے ،آپ نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ تقدیسِ نسواں کی حفاظت کیسے کی جاتی ہے !
رحمت للعالمین صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے اسلام کا پیغام ،دنیا کے دیگر گوشوں میں پہنچانے کے لئے دعوتی وفود بھیجے ،آپ نے اس وقت کی سپر پاورز قیصرو کسری' اور ایران کے حکمرانوں کے نام خطوط بھیجے ۔ آپ کا عدل و انصاف نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیر مسلموں کے لئے بھی مبنی برحق تھا۔
ایک بار قریش کے کسی معزز خاندان کی عورت نے چوری کی اور آپ کے حضور مقدمہ پیش ہوا ،لوگوں نے اس عورت کی رہائی کے لئے سفارش کی تو آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور آپ نے فرمایا کہ پچھلی قومیں اس لئے ہلاک ہوگئی تھیں کہ جب ان کا کوئی کمزور شخص چوری کرتا تو اسے سزا دیتیں ،جب کوئی طاقتور شخص چوری کرتا تو اسے رہا کردیتی تھیں ،خدا کی قسم اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا ۔ بحوالہ سلسلہ احادیثِ صحیحہ۔ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ،اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا کرتے تھے۔
آپ کے اعلیٰ اخلاق و کردار اور عادلانہ فیصلوں کی بدولت ،عالم_انسانیت کے دکھوں کو درمان مل گیا اور لوگ جوق در جوق ،حلقہ بگوش_اسلام ہونے لگے۔آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ،پہلے مسجد_ قبا اور پھر مسجد_ نبوی تعمیر فرمائیں،نظام_ صلو'ۃ قائم کیا، مساجد مسلم معاشرے کا مرکز تھیں۔ حکمران کو امام ہونا چاہئے ،یہ آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد الٰہی ہے :
ترجمہ: یہ لوگ ،اگر ہم انھیں زمین میں اقتدار عطا کریں تو یہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ ادا کریں گے،نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے اور سب کاموں کا انجام کار اللہ ہی کی طرف ہے -سورہء حج ،آیت نمبر 41.
فی زمانہ ،سیاست کے لفظ کو بدنام کردیا گیا ہے ،جب کہ اصطلاحی معنوں میں سیاست کا مفہوم ،کسی چیز کو اصلاح کرکے درست کرنا اور استحکام بخشنا کے ہیں۔ سیاست دان کو ملک کا نظام درست کرنے والا ہونا چاہئے ۔ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
بنی اسرائیل کی سیاست ،انبیاء کرام فرماتے تھے ،جب کوئی نبی انتقال کر جاتا تو ان کی جگہ دوسرے نبی آتے اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ،البتہ خلفاء ہوں گے۔ صحیح بخاری ۔
حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم محسن_ انسانیت ہیں ،اس لحاظ سے بھی کہ آپ نے اسلامی ریاست کی بقا اور مسلمانوں کی جان و مال کے تحفظ کی خاطر کفار سے کئ جنگیں بھی لڑیں اور نبیء ملاحم کہلاۓ !
ہو حلقہء یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم_ حق و باطل ہوتو فولاد ہے مومن !
بحیثیت حکمران ،بحیثیت سیاست دان حضورِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم محسن _انسانیت اور رحمتہ للعالمین تھے۔
#