اٹھائيس سال کی عمر میں بھی میری ماں نے مجھے جوتوں سے مارا، طلعت حسین اپنی ماں کو کون سا پیغام نہ دے سکے جس نے ان کو اشکبار کر دیا

image
طلعت حسین اپنی اہلیہ ڈاکٹر رخشندہ حسین کے ساتھ
 
لفظ ماں میں قدرت نے ایسی ٹھنڈک رکھی ہے کہ انسان جتنا بھی بوڑھا ہو جائے جب بھی اپنی ماں کا ذکر کرتا ہے تو اس کے اندر کا بچہ دوبارہ سے زندہ ہو جاتا ہے- اور وہ اپنے بچپن کی ان یادوں میں کھو جاتا ہے۔
 
طلعت حسین کی والدہ
معروف اداکار طلعت حسین کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ ان کی خوبصورت آواز اور لہجہ، الفاظ کی ادائیگی کا انداز انہیں آج کے تمام اداکاروں میں ایک منفرد مقام دیتا ہے-
 
یہاں تک کہ اکثر نو آموز افراد ان کے انداز سے اداکاری سیکھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں- مگر طلعت حسین کا یہ ماننا ہے کہ ان کے اس خوبصورت انداز کا سبب کوئی اور نہیں بلکہ ان کی والدہ تھیں-
 
طلعت حسین کی والدہ کے حوالے سے بہت کم افراد یہ جانتے ہیں کہ ان کا نام شائستہ بیگم تھا۔ جو کہ ریڈيو پاکستان کی اولین اناؤنسر میں شمار کی جاتی ہیں۔ ایک طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان کی صبح کی نشریات میں میزبانی کے فرائض انجام دیتی رہی تھیں۔
 
ان کی والدہ کا تعلق میسور سے تھا اور انہوں نے پاکستان ہجرت کرنے سے قبل اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ بمبئی میں گزارا مگر اس کے باوجود ان کی اردو اور اس کا تلفظ مثالی تھا-
 
والدہ کی سختی
طلعت حسین کا یہ کہنا تھا کہ ان کی والدہ تربیت کے حوالے سے بہت سخت تھیں یہاں تک کہ وہ والدہ کے سامنے کانپتے تھے-
 
image
 
اپنے بچپن کا والدہ کی سختی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کی والدہ ایک بہترین کک تھیں۔ ان کے ہاتھ کی پکی مچھلی بہت لذيذ ہوتی تھی۔ طلعت حسین کا کہنا تھا کہ ان کی عمر طرف چار سال تھی ایک دن دوپہر میں ان کی والدہ نے مچھلی پکا کر نعمت خانے میں رکھی تھی اور خود وہ سو رہی تھیں-
 
طلعت حسین مچھلی کی خوشبو سونگھ کر بے چین ہوئے اور انہوں نے نعمت خانے سے وہ مچھلی والدہ کی اجازت کے بغیر نکال کر کھانی شروع کر دی، باورچی خانے میں ہونے والی کھٹ پھٹ کی آواز سے ان کی والدہ کی آنکھ کھل گئی-
 
انہوں نے طلعت حسین کو مچھلی کھاتے دیکھا تو ان کو ہاتھ سے پکڑ کر باہر لائیں اور ان کا ہاتھ منہ اچھی طرح دھلوانے کے بعد ان کو خوب مار لگائی-
 
طلعت حسین کا یہ کہنا تھا کہ ان کو مار کھانے کے دوران بھی یہ پتہ نہیں لگا کہ ان سے کیا غلطی ہوئی ہے جس کے بدلے میں ان کو اس طرح کی مار پڑ رہی ہے- تاہم جب وہ بڑے ہوگئے تو انہوں نے اس واقعہ کے حوالے سے اپنی والدہ سے دریافت کیا کہ انہوں نے ان کو کیوں مارا-
 
طلعت حسین کا کہنا تھا کہ یہ سن کر ان کی والدہ کا رنگ فق ہو گیا اور انہوں نے حیرت سے پوچھا کہ اس وقت تو تم بہت چھوٹے تھے تو تمھیں اس وقت کی باتیں کیسے یاد ہیں- تو طلعت حسین کا کہنا تھا انہوں نے اپنی والدہ کو بتایا کہ ان کو تو اس وقت کی باتیں بھی یاد ہیں جب کہ وہ صرف دو سال کے تھے- تو والدہ نے ان کو گلے لگا لیا اور کہا کہ کسی اور کو یہ مت بتانا کہیں تمھاری یاداشت کو نظر نہ لگ جائے-
 
اداکاری کی طرف آنے پرردعمل
طلعت حسین کا یہ بھی کہنا تھا کہ اداکاری کے شعبے میں آنے سے قبل وہ بھی اپنی والدہ کی طرح ریڈیو پاکستان کے ڈراموں میں صدا کاری کرتے تھے۔ مگر ان کی نانی ان تمام باتوں کے سخت خلاف تھیں بیٹی کا ریڈیو پر کام کرنا بھی اس لیے برداشت کر لیتی تھیں کہ وہ شکل نہیں دکھاتی ہیں بلکہ صرف اناؤنسمنٹ کرتی ہیں-
 
لیکن ٹیلی وژن پر آنے کے بعد جب انہوں نے پہلی بار طلعت حسین کو ٹی وی پر دیکھا تو ان کا پہلا جملہ یہی تھا کہ کیا تم نے بھانڈ کا کام شروع کر دیا ہے- طلعت حسین کا یہ کہنا تھا کہ ان کے لیے اپنی نانی کو یہ سمجھانا بہت دشوار تھا کہ اداکاری اور بھانڈ ہونے میں بہت فرق ہوتا ہے-
 
image
 
والدہ کے ہاتھ کی آخری مار
طلعت حسین اپنی والدہ کی یادوں کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی والدہ کو جب غصہ آجاتا تھا تو وہ ان کو جوتوں سے مارتی تھیں۔ آخری بار ان کی والدہ نے جب ان کو مارا تو اس وقت ان کی عمر 28 یا 29 سال تھی-
 
کسی بات پر والدہ کو غصہ آیا تو انہوں نے طلعت حسین کو جوتا لے کر مارنا شروع کر دیا۔ مار کھانے کے دوران طلعت حسین ہنسنے لگے تو ان کی والدہ نے ان سے پوچھا کہ تمھیں درد نہیں ہو رہا ہنس کیوں رہے ہو-
 
تو طلعت حسین نے ان کو بتایا کہ ان کو درد نہین ہو رہا تو والدہ کا کہنا تھا کہ اچھا یعنی اب تم بڑے ہو گئے ہو اس کے بعد انہوں نے ان پر ہاتھ اٹھانا چھوڑ دیا-
 
والدہ کے نام پیغام
شو کے دوران جب طلعت حسین سے کہا گیا کہ وہ اپنی والدہ کے نام کوئی پیغام دینا چاہیں تو وہ کیا ہوگا- یہ بات سن کر طلعت حسین کی آنکھوں میں آنسو آگے اور رندھے ہوئے گلے کے ساتھ وہ صرف اتنا کہہ سکے چھوڑیں اس بات کو میں کچھ کہہ نہیں پاؤں گا-
 
اگرچہ اس موقع پر طلعت حسین لفظوں میں تو کوئی پیغام نہ دے سکے مگر ان کی آنکھوں میں آئے اشکوں نے یہ بتا دیا کہ انسان جتنا بھی بڑا ہو جائے اپنی ماں کے معاملے میں ایک بچہ ہی رہتا ہے اور اس کو کبھی بھول نہیں سکتا ہے-
YOU MAY ALSO LIKE: