کسی کے لیے بھی بڑا مشکل ہو تا ہے اپنی آپ بیتی لکھنا۔
انسانی زندگی مختلف واقعات سے بھری ہوتی ہے۔ ان میں خوشگوار بھی ہوتے ہیں
اور تلخ بھی۔ میٹھے بھی ہوتے ہیں کھٹے بھی۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں جو آپ کومتا
ثر تو بڑا کرتے ہیں لیکن پھر وقت کی برف میں دھیرے دھیرے دب جاتےہیں۔کچھ
وقتی طور پر اچانک ظاہر ہو جاتے ہیں اور پھر فوراً محو بھی ۔ کچھ بڑے اہم
واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کوظاہر نہ کرنے کا وعدہ لے رکھا ہوتا ہے ۔
جنہیں بیان کرنا امانت میں خیانت کرنے کے مترادف کوتا ہے۔ایسے میں جب کوئی
انسان اپنے گزشتہ واقعات لکھنے کے لئے قلم پکڑتا ہے تو یہ فیصلہ کرنا کہ کس
قصے کو لکھے اور کسے حذف کرے،کس کس کو سراہے اور کس پر تنقید کرے۔ خدشہ ہو
تا ہے کہ کہیں دوست ، دوست نہ رہے اور دشمن ، مزید دشمنی پرنہ اتر آئے۔ وہ
ایک پلِ صراط سے گزر رہا ہوتا ہے اور یہ کوئی آسان کام نہیں ۔ بڑی ہمت اور
دلیری درکار ہے اس میں۔مگر ذولفقار علی بخاری نے یہ کام "جی دار " لکھ کر ،کر
دکھایا ہے۔
اپنی دوسری باقاعدہ کتاب ہی اپنی آپ بیتی لا کر بخاری صاحب نے ادبی دنیا
میں ہل چل ہی مچا دی ۔ اس سے کچھ ماہ پہلے ان کی کتاب "قسمت کی دیوی " نے
آکر دھوم مچارکھی تھی۔ میرے خیال سے اس سے پہلے اردو ادب میں کبھی نہیں
ہواکہ کسی ادیب کی دوسری کتاب ہی اس کی آپ بیتی ہو۔ اسی طرح ادب اطفال میں
ان سے پہلے اپنی آپ بیتی صرف اشتیاق احمد نے لکھی ہے۔
میں نے کئی محفلوں اور مجالس میں "جی دار" کے بارے میں بڑی منفی چہ مو
گوئیاں سنیں کہ آپ بیتی تو ایک عمر گزار کر لکھی جاتی ہے۔ اس بارے میں کئی
بڑے حوالے بھی سننے کو ملے کہ فلاں سینئر نے کہا کہ یہ طرزِ عمل درست نہیں
ہے، وغیرہ وغیرہ!اگر دیکھا جائے تو تاریخی حوالہ سے وہ شاید درست کہہ رہے
ہیں۔ اور عام طور پر دیکھا بھی یہی گیا ہے کہ لوگ ریٹائیر ہو کر، آرام کرسی
پر بیٹھ کرسگار پیتے ہوئے ان لوگوں کے سچے جھوٹےتذکرے لکھنے لگتے ہیں جو یا
تو دنیا میں نہیں رہے یا جن کا کوئی اتا پتا نہیں۔گویا جب کسی سیٹ پر بیٹھے
رہے تو سسٹم کا پرزہ بنے رہے اور جب وقت ہاتھ سے نکل گیا تو سسٹم اوران
انسانوں کو جو اب بے ضرر ہو گئے ہیں ، روندنے لگے۔ دلیری تو یہ ہے کہ آپ
زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کلمہ حق کہیں۔
مصنف اس بارے میں لکھتا ہے: "سچائی وہ شیر ہے جو اپنا مقابلہ خود کر سکتی
ہے۔"
اور پھر کیا انسان لکیر کا فقیر بنارہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی لکھاری
کوئی منفرد کام کرنے لگے تو اسے سراہنے کی بجائےسارے مل کر اسے تاریخ کا
تازیانہ مارنے لگتے ہیں۔
مصنف کےمطابق :
"…..اگر ہم کچھ ایسا بیان کر یں جس سے دوسروں کی زندگی بہتر ہو سکے یا ان
میں مشکلات سے لڑنے اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ بیدار ہو جائے تو پھر ہمارے
لکھنے کا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔"
اصل میں جہاں لوگ سچ بولنے میں ہچکچاتے ہیں وہاں سچ سننے کی ہمت بھی کسی
کسی میں ہوتی ہے۔
بخاری صاحب نے مجھے "جی دار" جس دن دی اس دن شدید سردی تھی اور ہم دونوں
راولپنڈی سٹیلائیٹ ٹاؤن میں ایک چائے خانے میں بڑی دیر تک بیٹھے گفتگو کرتے
رہے تھے۔ میں رات گئے واپس آیا مگر تجسس نے اتنا تڑپایا کہ اسے رات میں نے
"جی دار "پڑھ ڈالی تھی۔ مگر پھر کئی بار پڑھی ۔اور جب بھی پڑھتا ایک الگ ہی
لطف ملتا۔
کتاب کا سرورق دیکھتے ہی ایک امنگ ،جوش اور جذبہ طاری ہو جاتا ہے۔ اس کا
نیلا رنگ جو کہ ثابت قدمی اور وفاداری کی علامت ہے، اس امر کو مزید جلا
بخشتا ہے۔
اس کا انتساب بخاری صاحب نے اپنے والدین کے نام کر کے انہوں نے یہ باور
کرایا ہے کہ وہ جو کچھ بھی ہیں اپنے والدین ہی کی بدولت ہیں۔
اس سے پہلے بخاری صاحب کراچی سے نکلنے والے ایک مجلے "انوکھی کہانیاں" میں
بھی اپنی زندگی کے کچھ واقعات بیان کر چکے ہیں۔ مگر جی دار میں انہوں
نےدہرائے بغیر ایک الگ انداز میں اپنی زندگی کے کئی گوشوں کو عیاں کیا ہے۔
جی دار کی ابتدا مصنف اپنے بچپن سے کرتا ہے اور چیدہ چیدہ واقعات بیان کرتا
ہےاور ساتھ ان کا تجزیہ بھی کرتا نظر آتا ہے۔ کسی چھوٹی سی بات میں بھی اگر
اسےدوسروں کے لیےخیر کا پہلو نظر آتا ہے تو وہ بھی بیان کر دیتا ہے۔قاری ان
ابتدائی صفحات کو پڑھتے ہوئے کچھ واقعات میں تشنگی محسوس کرتا ہے مگر مصنف
نے کمال مہارت سے شعوری طور پر قاری کی اس تشنگی کو محسوس کرتے ہوئے اسے
آگے وقتاً فووقتاً ، تفصیلاً بیان کر دیا ہے۔جی دار میں درمیان میں ایک جگہ
مصنف نے اپنی آبائی جائیداد کے حصول کی بڑی صبر آزما مگر ثمر آور جدوجہدکا
ذکر کر کے بتایا ہے کی جب آپ حق پر ہوتے ہیں تو آپ میں ایک خود اعتمادی اور
دلیری آجاتی ہےجسے جذبات سے زیادہ صبر اور قانونی سمجھ بوجھ سے لڑنا چاہیے۔
بخاری صاحب 2008 سے مختلف اخبارات ، ویب سائیٹس اور رسائل میں کالم، مظامین
اور کہانیاں لکھتے آ رہے ہیں۔ بعد میں ادب اطفال کی طرف آئےجگہ جگہ پر بچھے
زہریلے کانٹوں اور منہ کھولے مگر مچھوں اور ان تمام مشکلات کے باوجود اپنی
مسلسل اور ان تھک محنت سے بہت جلد اپنا مقام بنا لیا۔ انہوں نے نوجوان ادبا
کے لاتعداد انٹرویوز کئے ہیں۔ وہ انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح تک ان
راستوں کےتمام سیا ہ و سفید سے باخوبی واقف ہیں۔نئے ادیبوں کو کن کن مشکلات
اور کن کٹھن راہوں سے گزرنا پڑتا ہے؟ ادیبوں کی آپس کی چپقلش سے ادب کو کیا
نقصان ہو رہا ہے؟ مدیران کی من مانیاں اور جابرانہ رویہ کیسے نئے خیالات کو
گہنا دیتا ہے؟، کون کون اس رویہ سے تنگ آکر کنارہ کش ہو گیا ؟ کس نے امید
کا روشن دیا تھمایا؟ کس کی معمولی سی پزیرائی نے بہت کچھ کرنے پر مائل کیا؟
ان تمام باتوں کو جی دار میں بڑے تفصیل اور جی داری کے ساتھ بیان کیا گیا
ہے۔
محترمہ قانتہ رابعہ لکھتی ہیں:
" جی دار ناول ہے اس کردار کے بارے میں جو کچھ کرنا چاہتا ہے ،کچھ بننا
چاہتا ہے کہیں وسائل کی کمی ،کہیں معاشرے میں ہر سطح پر موجود خدائی
ٹھیکیدار ،کہیں دوستوں کی صورت میں چھرا گھونپنے والے ،ناول کا مرکزی کردار
بہت عزم سے ان سب کا مقابلہ کرنا جانتا ہے وہ جائز حق کے حصول کے لیے ظلم
سہتا نہیں بلکہ اپنے شرمیلے پن ، ناتواں وجود، خود اعتمادی کی کمی کے
باوجود ظالم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتاہے اور حق وصول کر کے دکھاتاہے…..یہ
عزم اور حوصلے کی کہانی ہے وقار اور عظمت کی داستان ہے پر تاثیر اور بامقصد
ہے اس آپ بیتی میں ناول کا مزہ اور افسانے کی سی دلچسپی ہے اصلاح اور تربیت
کے لیے ہزار پہلوں ہیں، دلوں کو چھو لینے والے فقرے ہیں….."
جی دار میں زبان بڑی آسان استعمال کی گئی ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی
آپ کے سامنے بیٹھا اپنا قصہ سنا رہا ہے۔واقعات آپ کے سامنے ایک تصویر کی
طرح گزرتے نظر آتے ہیں۔ جملے چھوٹے اور رواں ہیں۔ مصنف نے قاری کو لفاظی
میں نہیں الجھایا۔ کوزے میں دریا بند کیا ہے۔ مگر جہاں تفصیل کی ضرورت
محسوس کی وہاں
مصنف نے اختصار سے کام نہیں لیا۔
اس کے کچھ جملے بڑے ہی پر اثر ہیں جیسے کہ :
• محبت کرنا گناہ نہیں مگر دل توڑنا گناہ ہے۔
• نوجوان لکھاریوں کی اصلاح سے زیادہ حوصلہ افزائی کرنا چاہیے۔
• جو سچ ہے وہ سچ رہے گا، جو کہا ہے اس کی قیمت ادا کروں گا۔
• ادبی مقابلوں میں شرکت کریں مگر کبھی بھی جیت کی امید نہ رکھیں۔
• انسان کے ازل سےجاننے کے شوق نے کہانی کو جنم دیا۔
• نظریات سے اختلاف کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ کہ اپ کسی کی کی ساتھ کو مجروح
کر یں، اسے نیچا دکھا کر اپنی انا کی تسکین کریں۔
• کئی روشن ادبی ستاروں کی حقیقت میرے پیروں سے زمیں نکال دینے کے لئے کافی
ہے۔
• مجھے مشکلات سے لڑنا اور خود کو منوانے کا ہنر آتا ہے کہ میں "جی دار"
ہوں۔
"جی دار" کو پڑھتا ہوں تو اس میں مجھے کہیں کہیں اپنا آپ بھی نظر آتا
ہے۔میں بھی بچپن میں ایک کمزور، کم گواور ڈرا ڈرا سہما سہما سا بچہ
تھا۔میرے والد صاحب بھی کبھی بہت نرم اور کبھی بڑے ہی سخت ہو جایا کرتے
تھے۔وہ بھی ڈسٹرک کورٹ میں نوکری کرتے تھے۔ مجھے بھی کرکٹ کا بے حد شوق تھا
اور سکول کی کرکٹ ٹیم میں شامل تھا۔مجھے بھی بچوں کے رسائل، کہانیاں، نظمیں
پڑھنے کاجنون تھا۔مگر میں نے بھی جاسوسی ادب یعنی مظہر کلیم یا اشتیاق احمد
کو نہیں یا بہت کم پڑھا ۔ دورانِ تعلیم میں بھی ہوسٹل کی بجائے قریبی رشتے
دار کے پاس ٹھہرا تھا۔میں بھی کمپیوٹر فیلڈ میں بہت پہلےآ گیا تھا۔ میں نے
بھی گریجویشن ابلاغِ عامہ میں کیا ہے۔بعد میں ، میں نے بھی ایم اے اردو کیا
۔ میں نے بھی سکول وکالج میں پڑھایاہے۔ دورانِ ملازمت میرے ساتھ بھی قدم
قدم پر بڑی ناانصافیاں ہوئیں ۔ مجھے بھی ابتدائی عمر میں پزیرائی مل گئی
تھی لیکن ادبی میدان میں جگہ جگہ پر میں نے ادبا کی حق تلفی اور ان کے ساتھ
بداخلاقی بھی دیکھی۔ مگر میرے اندر بخاری صاحب جیسی مستقل مزاجی نہ آسکی نہ
تواتر سے لکھ سکا۔فخر کی بات ہے کہ بخاری صاحب نے "جی دار" میں راقم کا
مختلف حوالوں سےسےدو تین بار ذکرکیا ہے۔
کتاب کو میں نے بڑے غور سے پڑھا ۔ میرے خیال میں اس کتاب کو تین حصوں میں
تقسیم کیا جاسکتا ہے، جن میں :
• پہلا حصہ بچپن سے لڑکپن تک۔
• دوسرا حصہ " حق کی جنگ"، جس میں مختلف واقعات بیان کر کے مصنف نے یہ درس
دیا ہے کہ اپنے حق کے لیے کیسی صبرآزماجدوجہد کرنی پڑتی ہے۔
• تیسرا حصہ ہوتا "ادب نگری" جس میں مصنف نے ادبی دنیا کی سچائیوں کو بڑی
دیانت داری اور دلیری سے بیان کیا ہے۔
زندگی کو بہادری سے جینے کا درس دیتی "جی دار" واقعی ایک جی دار کی داستان
حیات ہے۔ گذشتہ پندرہ سال سے مسلسل اور معیاری لکھنے اور ادبِ اطفال میں
نئے رحجانات متعارف کروانے والے ذوالفقار علی بخاری کا کام یقینی طور پرادب
کے طالب علموں کے لئے بہت کچھ سیکھنے کے مواقع اور نئی راہیں متعن کرنے کے
لئے راہنمائی فراہم کرسکتا ہے۔میرے خیال سے جامعاتی سطح پر اس پر تحقیقی
کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
سرائے اردو سے چھپی اس خوبصورت کتاب کے صفحات تو 112 میں مگر ہر صفحہ، ہر
سطر اور ہرحرف اپنے اندر ایک دنیا سموئے ہوئے ملتا ہے۔دل سے لکھی یہ تحریر
جہاں دلچسپ اور پر تجسس ہے وہاں بڑی سبق آموز اورقدم قدم پرنوجوانوں کے لئے
راہنمائی فراہم کرتی ہے۔میرے خیال میں بالعموم تمام نوجوانوں اور بالخصوص
نئےلکھاریوں کو اسے ایک بارضرور پڑھنا چاہیے۔
زیست کے کٹھن لمحوں سے جو آنکھیں کر کے چار
جیو تو ایسے جیو کہ جیسے جیتے ہیں " جی دار"
مشکل ہے آپ بیتی لکھنا ذرا نہیں آسان
دوست کئے ناراض ہوئے تو کئی گئے پہچان
حق کے گھوڑے پر ہیں ذلفی بھائی تو ہوئے سوار
جیو تو ایسے جیو کہ جیسے جیتے ہیں " جی دار"
نوٹ: اگر آپ ”جی دار“ خریدنا چاہتے ہیں تو ایزی پیسہ نمبر03425088675 پر
600سو روپے اوراپنا ڈاک کا پتہ ارسال کردیں۔چند دنوں میں کتاب آپ تک پہنچ
جائے گی۔آپ چاہیں تو ڈاک کا پتہ مصنف کے ای میل پر بھیج سکتے ہیں۔
[email protected]
|