وزیراعظم کا صدر کو جوابی محبت نامہ

گذشتہ کالم "صدر کا وزیراعظم کے لئے محبت نامہ" صدر عارف علوی کی جانب سے وزیر اعظم شہباز شریف کو لکھےگئے خط کا تفصیلی جائزہ لیا گیا تھا۔ آج کی تحریر میں وزیر اعظم شہباز شریف کی جانب سے صدر عارف علوی کو بھیجے گئے جوابی محبت نامہ کے مندرجات کاجائزہ لیا جائے گا۔ وزیراعظم شہبازشریف نے صدر عارف علوی کو تُرکی بہ تُرکی جوابی خط لکھتے ہوئے کہا ہے کہ کہنے پر مجبور ہوں کہ آپ کا خط تحریک انصاف کا پریس ریلیز دکھائی دیتا ہے۔ خط کے جواب میں شہباز شریف نے لکھا کہ آپ کا خط یک طرفہ، حکومت مخالف خیالات کا حامل ہے جن کا آپ کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں اور یہ صدر کے آئینی منصب کا آئینہ دار نہیں، آپ مسلسل یہی کر رہے ہیں۔شہباز شریف نے عارف علوی کے خط کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ اپنے خط میں آپ نے جو لب ولہجہ استعمال کیا، اُس سے آپ کو جواب دینے پر مجبور ہوا ہوں۔خط کے چیدہ چیدہ مندرجات کے مطابق شہباز شریف نے کہا کہہماری حکومت آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق آزادی اظہار پر مکمل یقین رکھتی ہے۔ یہ آزادی آئین اور قانون کی حدود قیود میں استعمال کرنے کی اجازت ہے۔جب پی ٹی آئی اقتدار میں تھی تو آپ نے کبھی اِس بارے میں آواز بلند نہیں کی۔ آپ کی توجہ ہیومن رائٹس واچ کی سالانہ ورلڈ رپورٹ 2022 کی طرف دلاتا ہوں، پی ٹی آئی اس وقت اقتدار میں تھی۔اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ حکومت پاکستان میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوششیں تیز کر چکی ہے۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اختلاف رائے کو کچل رہی ہے۔رپورٹ میں صحافیوں، سول سوسائیٹی اور سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے، قید وبند اور نشانہ بنانے کی تمام تفصیل درج ہے۔3 اپریل 2022 کو آپ نے قومی اسمبلی کی تحلیل کرکے سابق وزیراعظم کی غیرآئینی ہدایت پر عمل کیا۔ قومی اسمبلی کی تحلیل کے آپ کے حکم کو سپریم کورٹ نے 7 اپریل کو غیرآئینی قرار دیا۔آرٹیکل 91 کلاز5کے تحت بطور وزیراعظم میرے حلف کے معاملے میں بھی آپ آئینی فرض نبھانے میں ناکام ہوئے۔ کئی مواقع پر آپ منتخب آئینی حکومت کے خلاف فعال انداز میں کام کرتے آ رہے ہیں۔میں نے آپ کے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی پوری کوشش کی۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا آپ کا حوالہ ایک جماعت کے سیاستدانوں اور کارکنوں کے حوالے سے ہے۔ آئین کے آرٹیکل 10 اے اور 4 کے تحت آئین اور قانون کا مطلوبہ تحفظ ان تمام افراد کو دیا گیا ہے۔قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ریاستی عمل داری کے لئے قانون اور امن عامہ کے نفاذ کے مطلوبہ ضابطوں پر سختی سے عمل کیا ہے۔ تمام افراد نے قانون کے مطابق دادرسی کے مطلوبہ فورمز سے رجوع کیا ہے۔جماعتی وابستگی کے سبب آپ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں کو یکسر فراموش کر دیا۔ آپ نے نجی وسرکاری املاک کی توڑپھوڑ، افراتفری پیداکرنے کی کوششوں کو نظر انداز کیا۔پی ٹی آئی کی ملک کو معاشی ڈیفالٹ کے کنارے لانے کی کوششوں کو آپ نے نظرانداز کیا اور پی ٹی آئی کی وجہ سے آئین، انسانی حقوق اور جمہوریت کے مستقبل سے متعلق پاکستان کی عالمی ساکھ خراب ہوئی۔آپ نے بطور صدر ایک بار بھی عمران خان کی عدالتی حکم عدولی اور تعمیل کرانے والوں پر حملوں کی مذمت نہیں کی۔ عدالت کے حکم کے خلاف کسی سیاسی جماعت کی طرف سے ایسی عسکریت پسندی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں انسانی حقوق کا قومی کمشن معطل رہا۔قومی کمشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ پی ٹی آئی حکومت پر فرد جرم ہے۔رکن قومی اسمبلی رانا ثناءاللہ پر منشیات کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا جس کی سزا موت ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے مرد و خواتین ارکان پارلیمان کو قید وبند اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ عارف علوی اور شہباز شریف طرفین کے محبت ناموں سے قطع نظر آئین پاکستان کے آرٹیکل 90کے تحت آئین کے تابع، فیڈریشن کا انتظامی اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہوتا ہے۔ اور وفاقی حکومت وزیراعظم )جو فیڈریشن کے چیف ایگزیکٹو ( اور وفاقی کابینہ کے ذریعے کام کرتی ہے۔یعنی ریاست پاکستان کے حکومتی امور چلانے کے لئے پاکستان کا آئین وزیراعظم کو مکمل خودمختاری دیتا ہے اور آئین پاکستان کے تابع صدر پاکستان حکومتی امور میں کسی صورت مداخلت نہیں کرسکتا ۔سب سے اہم نکتہ یہ ہے آئین پاکستان کے آرٹیکل 41کے تحت پاکستان کا ایک صدر ہوگا جو ریاست کا سربراہ ہوگا اور جمہوریہ/وفاق کے اتحاد کی نمائندگی کرے گا۔یعنی صدر کسی ایک سیاسی جماعت یا گروہ کا نمائندہ نہیں ہوتا بلکہ صدرپاکستانی ریاست کا سربراہ ہوتا ہے۔ کیا عارف علوی کا صدارتی کردار واقعی آرٹیکل 41کی نمائندگی کرتا دیکھائی دیتا ہے؟ بادی النظر میں ایسا نہیں ہے ۔کیونکہ صدر عارف علوی کی اپنی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے دور حکومت میںبدترین انسانی حقوق کی خلاف ورزریوں، میڈیا پابندیوںاور میگا کرپشن اسکینڈلز پر صدر عارف علوی نہ ہی کبھی اتنے متحرک نظر آئے اور نہ کبھی وزیراعظم عمران خان کوکبھی اس طرح کے خطوط لکھے ۔ حد تو یہ ہے عمران خان حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے سینئر ترین معزز جج قاضی فائز عیسی کے خلاف کردار کشی پر مبنی مہم میں صدر عارف علوی نے بھی بھرپور ساتھ دیا ۔ نہ صرف جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف من گھڑت ریفرینس سپریم جوڈیشل کونسل بھیجا بلکہ متعدد ٹی وی چینلزانٹرویوز میںعارف علوی ریفرینس کے حق میں دلائل دیتے نظر آئے۔میری نظر میں شہباز شریف کی اس بات "کہ آپ کا خط تحریک انصاف کا پریس ریلیز دکھائی دیتا ہے" سے مکمل اتفاق کیا جاسکتا ہے۔ ایک طرف عمران خان تمام کشتیاں جلا کر پوائنٹ آف نو ریٹرن کی طرف گامزن ہیں اور آئے روز سیاسی بحران و تنائو کا باعث بن رہے ہیں دوسری جانب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ صدر علوی ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے موجودہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پائے جانے والے تنائو کو کم کرنے کا باعث بنتے اسکے برعکس صدر علوی بظاہر پی ٹی آئی نمائندگی کرتے ہوئے جلتی پر تیل ڈالنے والی مثال پر عمل پیرا دیکھائی دے رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی قیادت باہمی کھینچا تانی کی بجائے مل بیٹھ کر سیاسی معاملات کو حل کرنے میں اپنی توانیاں صرف کریں۔
 

Muhammad  Riaz
About the Author: Muhammad Riaz Read More Articles by Muhammad Riaz: 207 Articles with 163530 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.