کپتان کا طوفان

 یہ 28مئی 1998ء کا روشن سویرا ہے،اس روز ایک طرف مئی کی'' گرمی'' جبکہ دوسری طرف ایک پراسرار'' سرگرمی''جاری ہے،اِدھر دنیا کی مقتدرقو تیں اپنے زر اورزور سے ریاست پاکستان کو اپنے پختہ ارادوں کی تکمیل سے روکنے کیلئے متحرک ہیں اُدھر صوبہ بلوچستان کے مقام چاغی میں ایک بڑے پہاڑکے ساتھ ساتھ بھار تی غرور کاسومنات بھی ریزہ ریزہ ہوگیاہے۔چاغی میں کامیاب ایٹمی دھماکے ہونے کے بعد پاکستان میں جشن کاسماں ہے جبکہ بھارت اوراسرائیل میں لوگ ماتم کررہے ہیں۔پاکستانیوں نے اﷲ ربّ العزت کی پاک بارگاہ میں سجدہ ریز ہو تے اورنعرہ تکبیر بلندکرتے ہوئے اپنی دشمن قوتوں کے دل پرہیبت طاری کردی ہے۔پاکستان کوایٹمی طاقت بنانے کاکریڈٹ ذوالفقارعلی بھٹو سمیت ایٹمی پروگرام کے بانیان اورپاک فوج کے سربراہان کوجاتا ہے،نوازشریف نے قوم کے شدید دباؤ پرمحض اس کا بٹن دبایاتھالہٰذاء موصوف کو اس کاکریڈٹ ہرگز نہیں دیاجاسکتا۔ 28مئی 1998ء کے پورے ایک برس بعد نیادن شروع ہوا تواس روز پاکستانیوں کامنفردجوش وجذبہ قابل دید تھا۔ شہروں اورشاہراہوں سمیت ایوان اورمیدان نعرہ تکبیر اﷲ اکبر کی پرجوش صداؤں سے گونج ر ہے تھے۔اس روزپاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کی خوشی میں اوورسیز پاکستانیوں سمیت ہمارے ہم وطن یوم تکبیر منا رہے تھے۔مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن نے یوم تکبیر کے سلسلہ میں پنجاب اسمبلی کے بالمقابل مال روڈ پر فیصل چوک میں طلبہ کے ایک بڑے اجتماع کااہتمام کیا تھا۔راقم اس وقت مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کامرکزی سیکرٹری اطلاعات تھا، میں اپنے ساتھی طلبہ کے ساتھ مال روڈ پرہونیوالے اجتماع میں شرکت کیلئے جارہا تھا،ہماری گاڑی نے کینال سے مال روڈ کارخ کیا تودوسری طرف ایک وین کی فرنٹ سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ کپتان عمران خان براجمان تھے،وین میں ان دوکے سواتیسراکوئی فرد نہیں تھا۔ ہم نے اس وین پرتحریک انصاف کاپارٹی پرچم لہرا تاہوا دیکھا جومسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے جھنڈے کی کاپی ہے،وہ گورنر ہاؤس سے نہر کی طرف آرہے تھے۔ہم نے عمران خان سے ملنے اورانہیں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن اورتحریک انصاف کاپرچم میں مشابہت بارے بات چیت کرنے کافیصلہ کیا اور۵ کلب چوک سے یوٹرن لے لیا تاہم ہماری گاڑی جس وقت کینال پر پہنچی تووہاں ہمیں کپتان کی وین نظر نہیں آئی کیونکہ وہ زمان پارک طرف مڑ گئے تھے اوراس وقت ہمیں زمان پارک میں کپتان کی رہائشگاہ بارے قطعی علم نہیں تھا ورنہ شاید ہم ان کے پیچھے روانہ ہو جاتے۔ یہ واقعہ سپردقرطاس کرنے کامقصد یہ بتانا ہے، 28مئی1999ء کے کپتان اور 17مارچ2023ء کے کپتان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سیاسی طورپرناتواں کپتان نے پاکستان میں انصاف کی فراوانی یقینی بنانے کیلئے جس دشوار ترین جدوجہد کاتنہا آغاز کیا تھا آج کروڑوں پاکستانیوں نے انصاف کیلئے جاری تحریک میں باضابطہ شرکت اور کپتان کی لیڈرشپ تسلیم کرلی ہے۔ پاکستان کے پرجوش نوجوان اپنے پراعتماد کپتان کی قیادت میں نیاپاکستان بنانے کیلئے کوشاں اورتحریک قیام پاکستان کی یادیں تازہ کررہے ہیں ۔ عمران خان 28مئی1999ء کومال روڈ پرتنہا تھے لیکن 17مارچ 2023 ء کا کپتان جس وقت لاہور ہائیکورٹ میں پیش ہونے کیلئے زمان پارک سے براستہ مال روڈ روانہ ہوا تواس روز عوامی سونامی اپنے قومی ہیرواور نجات دہندہ کے ساتھ ساتھ تھا۔اس وقت عمران خان کومتعدد ایف آئی آرز کاسامنا ہے ، ان انتقامی مقدمات کامنطقی انجام کیا ہوتا ہے یہ آنیوالے وقت پرچھوڑدیتے ہیں لیکن عوامی عدالت نے کپتان کیخلاف متحدہ حکومت کی ہرایک چارج شیٹ کو مسترد کردیا ہے۔

عمران خان نے اپنے کارواں پر وزیرآباد میں ہونیوالے شدید حملے کے تناظر میں بار بار اپنی زندگی کودرپیش خطرات کے بارے میں شدید تحفظات کااظہار کیا ہے لیکن حکمران اپنے مدمقابل سیاسی رقیب کپتان کی حفاظت کیلئے ناگزیر اقدامات اٹھانے کی بجائے الٹا اس کی سیاسی سرگرمیاں محدود کرنے کیلئے اسے متنازعہ مقدمات میں الجھاتے چلے جارہے ہیں،تحریک قیام پاکستان کے دوران قائداعظمؒ بھی گرفتارنہیں ہوئے تھے جبکہ گاندھی کوبار بار جیل جانا پڑاتھا سوکپتان کاگرفتاری سے بچناآبرومندانہ اوردانشمندانہ اقدام ہے کیونکہ عزت کی حفاظت کیلئے زندگی داؤپرلگائی جاسکتی ہے لیکن زندگی بچانے کیلئے عزت گنوانا حماقت ہے۔عمران خان کاوجود اورویژن جس مافیا کیلئے خطرہ ہے،اس سے کچھ بعید نہیں۔اس ملک میں قائداعظم محمدعلی جناح ؒ، قائد ملت نواب لیاقت علی خانؒ،قائدعوام ذوالفقارعلی بھٹو،میرمرتضیٰ بھٹو اوربینظیر بھٹو کوجس طرح قومی منظر سے ہٹایا گیا وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔جو لوگ کپتان کواپنی راہ سے ہٹانے کے درپے ہیں وہ یادرکھیں اﷲ نہ کرے اگر کپتان کوکچھ ہوگیا تواس کی شہادت آپ کی پراگندہ سیاست کے تابوت کونابودکردے گی۔موت برحق ہے،زندہ کپتان کی سیاست کے مقابلے میں عمران خان کی شہادت اتحادی حکومت کواس کے غرورسمیت غرق کردے گی لہٰذاء کسی سازش کے زور پر ا نہیں زندگی یاسیاست کی دوڑ سے باہر کرنا ریاست اورقومی سیاست کیلئے انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے۔کسی سیاستدان کو اپنامحبوب بنانے اورمنتخب یامسترد کرنے کااختیار واستحقاق صرف عوام کو حاصل ہے۔عزت کسی منصب یاحکومت کی محتاج نہیں،جوحکومت میں ہیں انہیں عوامی نفرت کاسامنا ہے جبکہ حکومت سے محرومی کے بعد اندرون وبیرون ملک عمران خان کی عزت اورشہرت کئی گنا بڑھ گئی ہے ۔ اگرجمہوری نظام عوام کے اجتماعی فیصلے کانام ہے توپھر عوام نے دوسری بار ملک کی باگ ڈور عمران خان کے سپردکرنے کافیصلہ کرلیا ہے جوانتخابات ملتوی کرنے سے ہرگز تبدیل نہیں ہوگا۔'' عمران خان کے ہاتھوں میں وزارت عظمیٰ کی ریکھا نہیں ہے''یہ دعویٰ مسلم لیگ (ن) کے حامی کیا کرتے تھے،لیکن عمران خان نہ صرف عوامی طاقت سے وزیراعظم منتخب ہوئے بلکہ وہ بادشاہ گر بھی بنے،ان کی ہاں اور ناں نے متعدد شخصیات کواہم اورغیراہم بنادیا ۔وفاق میں متحدہ اورپنجاب میں ان کے کٹھ پتلی حکمران جس قدر عوام اورانتخابات کے درمیان حائل ہوں گے اس قدرانہیں بدترین عوامی نفرت اورمزاحمت کاسامناکرناپڑے گا۔انتخابی" میدان" سجائے بغیر" ایوان" کا اعتماد بحال نہیں ہوسکتا۔عوام کواپنی تازہ دم اورپسندیدہ قیادت منتخب کرنے کاحق دیاجائے ،جودباؤمیں اپنے آئینی فرض کی بجاآوری نہیں کرسکتے وہ اپنا اپنا منصب چھوڑدیں ۔ نادارومفلس عوام کوماہ صیام کے دوران طویل قطاروں میں بدترین خواری کے بعد آٹا مفت دینے سے ان کی سیاسی وفاداریاں تبدیل نہیں ہوں گی،تاہم جوآٹا زندگی کی قیمت پرملے وہ مفت نہیں بلکہ بہت مہنگا ہے۔اب تک مفت آٹا وصول کرتے ہوئے جوخواتین وحضرات لقمہ اجل بنے ہیں ان کی ناحق موت کاحساب کون دے گا۔

کپتان اوراس کے حامیوں کیخلاف حالیہ دنوں میں جس طرح بدترین پولیس گردی اورغنڈہ گردی کامظاہرہ کیاگیا اس انتقامی اقدام نے پی ٹی آئی کارکنان کوکندن بنادیاہے،اب وہ اس سے بھی بدتر صورتحال کامقابلہ کرسکتے ہیں۔زندان کی اندر سے زیارت نے کپتان کے ٹائیگرز کومزید نڈر بنادیا ہے ،وہ اپنے قائد کی حفاظت کیلئے منتقم مزاج حکومت کیخلاف سینہ سپر اور سربکف ہیں۔جو عمران خان اپنے حامیوں اوربالخصوص نوجوانوں کامحض سیاسی نظریہ تھا اب وہ ان کاجنون بن گیا ہے ،پی ٹی آئی سے وابستہ مردوزن سیاسی کارکنان اپنے جنون کیلئے اپنا خون بہارہے ہیں ۔پاکستانیوں نے زمان پارک میں متنازعہ آپریشن کے نتیجہ میں ان گنت پی ٹی آئی کارکنان اورپولیس اہلکاروں کاخون بہتا ہوا دیکھا،اس کشت وخون کے بعد آئی جی پنجاب کاایک بوتل خون عطیہ کرنا ایک سوالیہ نشان ہے۔کپتان کیخلاف بلیم گیم میں پیش پیش وفاقی وصوبائی وزراء1990ء کی دہائی میں بینظیر بھٹو کی منتخب حکومت کیخلاف نواز شریف کی قیادت میں نام نہاد تحریک نجات کے دوران پنجاب سمیت ملک بھر میں بیسیوں بار شٹرڈاؤن اورپہیہ جام ہڑتال کے نام پر بدترین توڑ پھوڑ،تشدد اورجلاؤگھیراؤ کے اندوہناک اورشرمناک واقعات کیوں بھول جاتے ہیں۔ تحریک نجات کے دوران مال روڈ پر جوپولیس بس نذرآتش کی گئی تھی اس کی ایف آئی آر آج بھی دستیاب ہے ،جس میں نامز دمرکزی ملزم بعدازاں وفاقی وزیربنا تھا۔" گولی کا جواب گولی سے دینگے" ،اس قسم کے جارحانہ اوراشتعال انگیز بیانات آئی جی پنجاب کے منصب کے شایان شان نہیں۔آئی جی پی ڈاکٹر عثمان انوراپنے عارضی منصب کیلئے اپنا جانداراورشاندار ٹریک ریکارڈ برباد نہ کریں۔ راقم نے اپنی متعدد تحریروں میں سکیورٹی فورسز سمیت پولیس فورس کابھرپور دفاع کیا ہے لیکن شاید انہیں عزت سے کوئی سروکار نہیں،وہ سرکارکی اطاعت بلکہ غلامی اوراپنی بدنامی کے ساتھ بہت خوش ہیں۔ پولیس کو بدترین بدنامی،انتہائی ذلت اور شدت سے بھرپورنفرت پلیٹ میں رکھ کرنہیں ملی بلکہ اس کیلئے بیشتر پی ایس پی آفیسرز بہت سخت محنت کرتے اوراپنے ماتحت اہلکاروں کوعوام کی نفرت کی آگ میں جھونک دیتے ہیں۔مینار پاکستان کے سبزہ زارمیں نیاپاکستان بنانے کی حامی جماعت کافقیدالمثال اجتماع اختتام پذیرہوگیا جبکہ اس سیاسی پروگرام کوبلڈوز کرنے کیلئے جس آمرانہ اورعاقبت نااندیشانہ انداز سے جلسہ گاہ میں پانی چھوڑا اورکارکنان کاراستہ روکاگیا وہ شرمناک ہے۔ پنجاب پولیس ہزاروں شہیدوں کی وارث ہے لہٰذاء یادرکھیں پولیس آفیسر اور اہلکار مٹھی بھرحکمران اشرافیہ نہیں بلکہ شہریوں کے محافظ اورقانون کے پابند ہیں ۔نیب زدگان کے متنازعہ اقتدار کے دوام کیلئے عوام کیخلاف حکم کے غلام پولیس اہلکاروں سے غنڈوں کاکام نہ لیاجائے۔" گھاؤ" زدہ حکومت کی "ناؤ" کے چاروں طرف بھنور ہیں جبکہ انتھک کپتان اس کیلئے طوفان بن کرابھرا ہے۔کپتان اورتحریک انصاف کے پاس جو مقبول اورمعقول سیاسی"ایجنڈا" ہے سرکاری "ڈنڈا" اس پراثراندازنہیں ہو سکتا۔


 

Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 140 Articles with 90530 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.