__قسیم اظہر
باغوں اور بہاروں والا
دریاؤں کہساروں والا
آسمان ہے جس کا پرچم
پرچم چاند ستاروں والا
جنت کے نظاروں والا
جموں اور کشمیر ہمارا
برف پوش پہاڑیوں کے دامن میں خوبصورت جھاڑیاں اور کچھ سیب کے درخت سوکھتے
جا رہے تھے۔ جھاڑیوں اور درختوں کے اردگرد سفید اور نیلے رنگ کے پرندے دانہ
چن رہے تھے۔ بادلوں کا ایک کارواں وہاں سے گزر رہا تھا۔ ننھے منے پرندوں نے
بادل کی طرف پر امید نظروں سے دیکھا۔
”تم نے سیاسی خداؤں کو ناراض کیا۔ ہم تمہیں پانی نہیں دے سکتے“
آسمان سے بادل کے اس جواب نے ننھے پرندوں کو اداس کیا۔
نیلو فر بھی انہی پرندوں میں سے ایک تھی۔ چاند سے بھی زیادہ حسین، برف سے
بھی زیادہ سفید نیلوفر۔ وہ بھیانک خواب کے ساتوں آگ کے سمندر کو پار کر کے
میرے سامنے کھڑی تھی۔
”دنیا میں دو ہی نیلوفر ہوتے ہیں۔ ایک نیلو فر آفتابی، دوسرا نیلو فر
ماہتابی۔“
”تین کب سے ہو گئے؟“
”تین نہیں۔ چار۔“ اس نے اشارہ کیا۔
ہماری وادی میں نیلوفر برفانی بھی ہوتے ہیں۔ میں نیلوفر برفانی ہوں۔ برف کی
بیٹی، برف کی گود میں پیدا ہوئی اور اسی کی گود میں میری روح رچ بس گئی۔
مجھے آپ نیل کہہ سکتے ہیں۔
”کیا یہ برف پوش پربت اپنی بیٹیوں کی حفاظت کر سکتا ہے؟“
”وہ دیکھیے۔ خوبصورت جھاڑیاں۔“
اس نے مجھے نظر انداز کیا۔
”جھاڑیاں نہیں۔ لہراتے خوبصورت پنکھ۔“
مور اور مورنی رقص کر رہے تھے۔
”آپ نے چوتھے نیلوفر کے بارے میں نہیں بتایا؟“
”وہ دیکھیے۔ گدھ۔“
اس نے پھر مجھے نظر انداز کیا۔
”گدھ نہیں۔ باز۔“
باز آسمان میں اڑ رہا تھا۔
”چوتھے نیلوفر کے بارے میں معلومات ہیں بھی یا ویسے ہی بکواس؟“
میں نے غصے سے پر اور تیز لہجے میں کہا۔
”بتانے کے لیے اب رہ کیا گیا ہے؟“
”کیا بتاؤں؟ کیا آپ کو کیچڑ سے پیدا ہونے والے زعفرانی کنول کے بارے میں
نہیں پتا؟“
آپ لوگ سب کچھ جان کر بھی خاموش رہتے ہیں۔ ایک انسان بن کر ہمارے دکھ کو
محسوس کیجیے تو آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ ہماری وادی نفرت کے بادلوں کے لیے
بھی سیر سپاٹے کی آماجگاہ نہیں۔ بادلوں کا ایک کارواں ہر روز آ کر سر کے
اوپر سے گزر جاتا ہے۔ اور میں نفرت بھری دنیا سے نکل کر وفا کے بہتے
آبشاروں کی موسیقیوں اور محبت کے ہزاروں ایسے نغموں کو سننا چاہتی ہوں جو
میرے چہرے پر ریا و نمود کی مسکراہٹ بکھیرنے میں کامیاب ہو جائے۔ مگر کسی
زخمی پرندے کی طرح خلائی سطح پر تیرتے ہوئے برفیلی زمین پر گر گئی ہوں۔
میرے ہاتھ پاؤں شل ہوچکے ہیں اور میرا وجود مجھ پر قہقہہ لگا رہا ہے۔
گھٹن اور حبس کی شدت میں یہاں جیتے جاگتے ہزاروں لوگ ہیں۔ بوڑھے بھی، بچے
بھی، نوجوان بھی۔
مگر آپ تصور کیجیے کہ اب وہ نہیں ہیں۔ وائرس اور قفل بندی کی وسیع تر
بندرگاہوں پر واقع ان کی ہزاروں ایسی لاشیں ہیں جو پانی کی سطح پر بھاپ بن
کر آسمان میں اڑتی جا رہی ہیں۔
لیکن پھر بھی میں خون کی نفرت انگیز اور دھول مٹی زمین سے لاشوں کا بوجھ
اٹھا کر احساس کے ریگستان پر کچھ مقدس رشتوں کو جنم دے کر جہاں کچھ چہروں
کے نقوش ریت کے بکھرے بکھرے زلفوں پر گجرے کی طرح مسکان بھرتے ہیں، کہوں کہ
یہ زندگی ہے۔
یہ ریت کی طرح ہاتھ سے پھسلتا وقت۔
اور یہ۔
احساس کے جھروکوں سے برآمد ہونے والے کچھ چہرے۔ /
کچھ نقوش۔
جو مٹتے جا رہے ہیں۔
تو کیا آپ ان نقوش کے مٹنے کا یقین کریں گے؟
نہیں کریں گے۔ مگر میں اپنے کزن عاطف کی زندگی کا تصور کرتی ہوں۔ عاطف کا
ہنستا کھیلتا چہرہ فضاء میں مسکراہٹ کی صلیبوں پر جھول رہا ہے۔ اس کی زندگی
میں اس کے ساتھ ایک بیوی، ایک بچہ، ایک ماں، ایک بہن۔
”شادی تو ہو گئی۔ زندگی کے اور کوئی ارمان ہو تو وہ بھی پورے کرلو۔“
ہمیشہ کی طرح بے نقط سنانے والی بوڑھی ماں مسکرا رہی ہے۔ لیکن اگر میں اس
مسکراہٹ کو نچوڑوں تو مجھے وہاں بھوبل کے ہزاروں ایسے ڈھیر مل جائیں گے جو
آنسوؤں کے قطرے سے لپٹ کر گیلے پڑ چکے ہیں۔
”اب یہ، میری زندگی نہیں۔ آپ لوگوں کی ہے۔ باہر جاکر آپ کے سارے خواب، جو
ابا کی موت کی وجہ سے پورے نہیں ہو سکے۔ انہیں پورے کرنا، اب میری ذمہ
داری۔“
عاطف کے لفظ میں اعتماد شامل ہوتا۔
”مگر۔“
”مگر کیا؟“
”سرخ آگ کا گولہ“
”آگ کا گولہ؟ اب یہ آگ کا گولہ کہاں سے آ گیا؟“
”پتا نہیں۔ مگر اتنا ضرور بتا سکتی ہوں کہ وہ آسمان و زمین کے درمیان ہی سے
آیا تھا“
”ہاں۔“
وقت کی گردش نے اس بوڑھی ماں کی تقدیر سے آنکھ مچولی کی۔ بلند پہاڑ کی طرح
اونچی اور سانپ سی لمبی ایک کالی سڑک ہے۔ کافی دور ہونے کے باوجود بھی میں
اس سڑک کو دیکھ سکتی ہوں۔ سڑک پر ہر قسم کی گاڑیاں تیزی سے بڑھتی جا رہی
ہیں۔ میں عاطف کو بھی سرخ و سیاہ رنگ کی ایک بائیک پر سوار، ان گاڑیوں کے
بیچ دیکھ رہی ہوں۔ وہ ہارن بجاتا اور تیزی سے لوگوں کی بھیڑ کو چیرتا آگے
بڑھ رہا ہے۔
مگر ایک آگ کا گولہ ہے جو برابر اس کا پیچھا کیے جا رہا ہے۔ میں اس آگ کے
گولے کو دیکھ نہیں سکتی۔ اور فولادی چادروں سے لدی ہوئی ایک بھاری بھرکم
گاڑی۔ میں اس گاڑی کو ٹریفک سگنل توڑ کر بھاگتی ہوئی دیکھ سکتی ہوں۔
سگنل ٹوٹ چکا ہے۔ مجھے احساس ہے کہ سگنل پھاٹک ٹوٹنے کے علاوہ بھی یہاں کچھ
ایسا ہوا ہے جو انتہائی وحشت ناک ہے۔ کیوں کہ خلاء کی ہر چیز اور خود خلاء
پہ دھند حاوی ہے۔ دھند میں مستور خلاء اور اس کی ہر چیز کانپ رہی ہے۔
گاڑیوں کے پہیے جو تھوڑی دیر پہلے سڑک پر تیزی سے پھسل رہے تھے اب زمین و
آسمان کے درمیان کافی اونچائی پر گھوم رہے ہیں۔ اور ان سب کے بیچ، میں اس
آگ کے گولے کو دیکھ سکتی ہوں اور میں یہ بھی دیکھ سکتی ہوں کہ سڑک
ڈائنامائٹ سے اڑنے والی ہے۔ عاطف کی بائیک فولادی چادروں سے لدی ہوئی اس
بھاری بھرکم مال گاڑی سے ٹکرا کر بیس فٹ اوپر خلاء میں اچھل چکی ہے۔ اور
خود عاطف کا وجود بھی خلاء میں گھٹن کی سانسیں لے رہا ہے۔
پھر جب دھند کی سیاہ چادریں ہٹ گئیں۔ خلاء اور خلاء کی ہر چیز چمکتے ہوئے
شیشے کی طرح صاف معلوم پڑنے لگی تو میں نے دیکھا کہ سڑک صاف ہو چکی ہے۔
وہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ انسانی گوشت اور ہڈی سے جلے کچھ راکھ اور گاڑیوں کے
پرزے سے الگ ہو کر پگھلے ہوئے کچھ لوہے ہیں جنہیں سڑکوں پر چلتی گاڑیاں
اپنے پہیے تلے روندتی جاتی ہیں۔
کیا اس انسانی راکھ کو اٹھانے والا یہاں کوئی انسان آئے گا؟
ابھی میں اسی سوچ کے زاویے سے باہر نہیں نکل پائی تھی کہ دفعتا مجھے اپنے
قدموں کے نیچے زیریں زمین کی گہرائی سے زلزلے جیسی دھمک کی ایک عجیب آواز
سنائی دی۔ جیسے زمین پھٹنے والی ہے۔ جیسے سڑکیں اڑنے والی ہیں۔ اور میں
محسوس کر سکتی ہوں کہ اس آواز کی گونج جہاں جہاں سنائی دے رہی ہے وہاں کی
زمین پھٹتی چلی جا رہی ہے۔
میں اس وقت بہت زیادہ حیرانی ہوئی جب اس غیر ملفوظ آواز کی گونج نے برابر
میرا تعاقب کرنا شروع کر دیا۔
”کیسی آواز اور کیسے الفاظ؟“
بحیثیت کہانی کار میں نے نیلوفر کو روک دیا۔
”الفاظ کب کہا میں نے؟“
الفاظ تو آدمیوں کے ہوتے ہیں۔ وہ کوئی آدمی نہیں تھا۔ نسلی وجود کھو دینے
والے خونخوار ڈریگن کی طرح ایک اژدہا زندہ ہو چکا تھا۔ اژدہے کے جسم پر
زعفرانی دھاریوں کی کچھ لکیریں بنی ہوئی تھیں۔ اس وقت میں نے ایک خلائی
مخلوق کے اڑن کھٹولے سے ہٹلر کی قبر کو برآمد ہوتے بھی دیکھا۔ ہٹلر کی روح
ڈریگن نما اژدہے کے اندر سمائے جا رہی تھی اور میں کمر تک زمین کے نیچے
دھنس چکی تھی۔ میں نے آنکھ بند کر کے اپنے وجود کو باہر نکالنے کی ہر ممکن
کوشش کی۔ مگر میں اس میں ناکام رہی۔
آنکھ کھول کر دنیا کو دیکھنے کی کوشش کی تو اژدہے کے منہ سے سرخ آگ کا گولہ
نکل رہا تھا۔ مٹیالی زمین گرم لوہے کی طرح سرخ پڑتی جاری تھی۔ کھیتوں کی
ہریالی بھی غائب ہو چکی تھی۔
بکریوں اور بھیڑوں کے تھن سے دودھ بھی غائب۔
اور پانی کی نلکیوں سے پانی کے قطرے تک مترشح ہونا مشکل ہو گیا تھا۔
جھاڑیوں کے پاس کچھ سیب گرے ہوئے تھے۔ کوے نے سیب پر چونچ مارا۔ کوے کے
چونچ مارتے ہی سیب سے ایک چنگاری نکلی اور اس کے منہ میں داخل ہو کر، اس کے
جبڑے اور حلق کو چیرتی ہوئی پیٹ میں جا پہنچی۔ اس کے پر جلنے لگے۔ کوا
پھڑپھڑایا اور وہیں جل کر بھسم ہو گیا۔
کچھ دنوں پہلے ایک صحافی نے پٹرول پمپ سے تیل، ملک کی ایجینسی سے گیس اور
بینک سے پیسے غائب ہونے پر اردو اخبار میں ایک کالم بھی لکھا تھا۔ مگر
افسوس اسے ایک وہم سمجھ کر بھلا دیا گیا اور اب اس صحافی کی پیشن گوئی سے
متعلق ہر چیز کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کیا جاسکتا تھا۔
پھر شہر کے ایک سی ٹی اسپتال میں سے کسی عورت کی دردناک چیخ نے دنیا کو اور
بھیانک روپ میں بدل کر رکھ دیا۔ حاملہ عورت کی چیخ اتنی ہولناک تھی کہ اسے
سن کر مسجد کے گنبدوں پر بیٹھے کبوتر اڑ کر بھاگنے لگے۔ آسمان میں جگہ جگہ
سے چھید ہو گئے۔ بادل کے بڑے بڑے مرغولے ٹوٹ ٹوٹ کر زمینی دنیا پر گرنے
لگے۔ سیارے جھڑ گئے۔ اور پہاڑ روئی کی گالوں کی طرح فضاء میں اڑتے جا رہے
تھے۔
اس پورے خوفناک منظر کو دیکھ کر ایتھنز کی وادیوں کا ایک سائنس دان چلا
اٹھا کہ اب مجھے ان آیتوں اور کہانیوں پر یقین ہونے لگا ہے، جن میں سورج کے
پھٹ جانے، ستاروں کے بے نور ہو جانے اور سمندر کے بھڑک جانے کا ذکر موجود
ہے ۔
میں تصور سے باہر نکل چکی ہوں۔ مجھے اب بھی حیرانی ہے کہ میں زندہ کیوں
ہوں؟
مگر مجھے زندہ رکھا گیا ہے۔ کچھ سیاسی آنکھیں ہیں جو مجھے ڈھونڈ رہی ہیں۔
مگر کسی زخمی پرندے کی طرح خلائی سطح پر تیرتے ہوئے برفیلی زمین پر گر گئی
ہوں۔ میرے ہاتھ پاؤں شل ہوچکے ہیں اور میرا وجود مجھ پر قہقہہ لگا رہا ہے۔
اور میرے لیے یہ تصور کر نا آسان ہو چکا ہے کہ گھٹن اور حبس کی لہریں تیز
ہو چکی ہیں۔ ہزاروں لوگ ہیں۔ بوڑھے بھی۔ بچے بھی۔ نوجوان بھی۔ عاطف بھی۔
حاملہ عورت بھی۔ مگر اب وہ نہیں ہیں۔ وائرس اور قفل بندی کی وسیع تر بندر
گاہوں پر واقع ہزاروں ان کی ایسی لاشیں ہیں جو آبی سطح پر سے بھاپ بن کر
اڑتی جاتی ہے۔
میں وحشتوں کی اسیر بن چکی ہوں۔
”کیا پتا کل میں بھی بھاپ بن کر اڑ جاؤں؟“
”کہاں؟“
”آسمان میں“
باغوں اور بہاروں والا
دریاؤں کہساروں والا
آسمان ہے جس کا پرچم
پرچم چاند ستاروں والا
جنت کے نظاروں والا
جموں اور کشمیر ہمارا
|