شہرہ آفاق کالم نگار ، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف محمد اسلم لودھی (چوتھی قسط)

ملک کی اہم علمی، ادبی ، معاشرتی شخصیات اور پاک فوج کے شہیدوں پر لکھناآپ کا محبوب مشغلہ رہا
غریب گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود آپ نے غربت کو اپنے راستے کی دیوار نہیں بننے دیا
آپ دو سال روزنامہ جرات،چھ ماہ روزنامہ دن ، تین سال روزنامہ پاکستان ، دو سال پشاور کے ارود اخبار آج اور چودہ سال نوائے وقت میں ہفتہ وار کالم لکھتے رہے
آپ کا دو مرتبہ تمغہ حسن کارکردگی کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے نام تجویز کیا گیا لیکن ایوارڈ نہ مل سکا
آپ کو 2007ء میں اردو کالم نگاری کا پہلا ٹیٹرا پیک ایوارڈ (پچاس ہزار کا چیک)حاصل کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے
آپ کی گیارہ کتابیں صوبہ پنجاب ، گیارہ خیبرپختونخوا اور گیارہ کتابیں آزاد جموں و کشمیر کے تعلیمی اداروں کی لائبریریوں اور بپلک لائبریریوں کے لیے منظور ہو ئیں
انٹرویو ۔ شہزاد چودھری

سوال۔ لودھی صاحب آپ کے بچپن اور لڑکپن کی کہانیاں تو واقعی بہت دلچسپ ہیں جو یقینا موجودہ اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک انکشاف کا درجہ رکھتی ہیں ۔آپ ہمیں بتائیں گے کہ آپ اپنی والدہ کے ہمراہ عارف والا گئے کہ نہیں ۔اور اگر گئے تو وہاں کیا کیا واقعات رونما ہوئے اور نیلی بار کاٹن ملز میں آپ کو ملازمت ملی کہ نہیں ؟
اسلم لودھی۔ شہزاد صاحب۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا اپنی والدہ کو سفید شٹل کاک جیسا برقعہ پہن کر سر پر کپڑوں کی پوٹلی اٹھا کر نانی گھر عارف والا بڑے اہتمام سے جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ کئی مہینے پہلے ہی سے میری والدہ عارف والا جانے کی تیاریاں شروع کردیتی تھیں ۔عید، بکر عید پر جوکپڑے بنائے جاتے تھے ان کو والدہ لوہے کے ٹرنک میں سنبھال کر اس لیے رکھ لیتیں کہ جب بچے نانی کے گھر جائیں گے تو نئے کپڑے پہن کے جائیں گے بلکہ کئی دن پہلے ہمارے ہاتھوں پر مہندی بھی لگا ئی جاتی کہ ہاتھوں کا رنگ سرخ دیکھ کر بچوں کو نانی زیادہ پیار کریں گی ۔سفر سے پہلے ماں کی ہمیشہ یہ عادت رہی کہ چوبیس گھنٹے پہلے ایک کلو گڑ بازار سے منگوا کر بڑے سے برتن میں رکھ کر اس پر پانی ڈال دیتیں ۔پھر جس دن ہم نے عارف والا جانا ہوتا ۔اس کے چند گھنٹے پہلے ڈھیر سارے میٹھے پراٹھے پکا کر انہیں چنگیر میں تہہ در تہہ رکھتی جاتیں ۔ما ں یہ کام اس لیے کرتی تھی کہ سفر کے دوران بچوں کو اگر بھوک لگے تو میٹھے پراٹھے کھا کر وہ اپنا پیٹ بھر لیں گے ۔بار بار ٹرین سے اتر کر ریلوے اسٹیشن کے نلکوں سے پانی بھر کر لانے کی زحمت سے بچنے کے لیے مٹی کی نئی صراحی خرید کر پانی سے بھر کے اسے اپنے ساتھ رکھ لیتی تھیں ۔یہ اہتمام والدہ اس لیے کرتی تھیں کہ پچاس ساٹھ سال پہلے سفری ذرائع نہ ہونے کے برابر تھے ۔ لاہور چھاؤنی سے صبح پانچ بجے پسنجر ٹرین چلتی تھی، وہ ہر اسٹیشن پر رکتے رکتے عارف والا اڑھائی بجے دوپہرپہنچتی ۔گویا آج جو سفرصرف تین گھنٹوں میں نان سٹاپ پر آسانی سے طے ہو جاتا ہے وہ ماضی میں آٹھ نو گھنٹوں میں بمشکل طے ہوتا تھا ۔عارف والا چونکہ برانچ لائن پر واقع ہے، اس لیے ٹرین پہلے لاہور چھاؤنی سے رائے ونڈ پہنچتی پھر اپنا رخ مین لائن سے ہٹ کر قصور شہر کی جانب کر لیتی ۔

قصور شہر ایک سرحدی شہر ہے جس کے ایک طرف گنڈا سنگھ والا بارڈر اور دوسری جانب کھیم کرن کی بھارتی سرحد واقع ہے ۔ 1965ء کی جنگ میں پاکستان آرمی نے بھارتی سرحدی شہر کھیم کرن پر قبضہ کرلیا تھا ۔ اس بھارتی شہر کو دیکھنے کے لیے لاہور سے بیشمار لوگ وہاں پہنچے تھے بلکہ اپنی یادگاری تصویریں بھی کھیم کرن میں بنا لی گئی تھیں ۔جس کا چرچا بہت عرصے تک جاری رہا ۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ قصور میراپیدائشی شہر ہے ۔ کوٹ مراد خان کے ایک مکان میں 25 دسمبر 1954ء کو میری ولادت ہوئی تھی ۔ حسن اتفاق سے اسی دن میرے والد صاحب کو طویل بے روزگاری کے بعد پاکستان ویسٹرن ریلوے میں کانٹے والا کی ملازمت مل گئی ۔ اس لیے میری پیدائش کو والدین کے لیے خوش آئند قرار دیا گیا بلکہ میرے دادا نے کہا تھا کہ یہ بچہ بہت خوش قسمت ہوگا اور ایک دن والدین سمیت پورے خاندان کا تعارف بنے گا ۔ دادا مجھے" نورنگا "کے لقب سے پکارتے تھے ۔ ایک دن میں نے پوچھ ہی لیا کہ دادا جان والدہ تو مجھے سوہنا کہہ کر پکارتی ہے, والد صاحب میرانام اسلم کہہ کر بلاتے ہیں, آپ مجھے" نورنگا" کیوں کہتے ہیں ۔ میرے اصرار پر دادا جان نے بتایا میں تمہیں اس لیے" نورنگا "کہتا ہو کہ ہر دس سال کے بعد تم ترقی زینے پر مزید چڑھتے جاؤ گے ان شا ء اﷲ ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ہوا بھی ایسے ہی ہے ۔ میں اس وقت جس مقام پر ہوں میں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ میں کالم نگا ر بنوں گا اور کتابیں لکھوں گا ۔ قومی سطح پر میرے کالم شائع ہونگے اور لوگ ذوق اور شوق سے میرے کالم پڑھا کرینگے ۔ یہ سب میرے رب کا کرم ہے اور والدین کی دعاؤں کے ساتھ ساتھ وہ قابل احترام لوگ بھی میرے لیے رہنما کا درجہ رکھتے ہیں جنہوں نے مجھے ہمت اور حوصلہ دے کر کالم اور کتابیں لکھنے کا طریقہ اور سلیقہ بتایا۔ ان میں اشرف قدسی ، پروفیسر حفیظ الرحمن احسن ، مراتب علی شیخ ، ڈاکٹر مجید نظامی اور مجیب الرحمان شامی پیش پیش ہیں ۔ بطور خاص مجیب الرحمان شامی صاحب نے میری سوانح عمری "لمحوں کا سفر" کواس قدر پذیرائی بخشی اور اسے ہمیشہ زندہ رہنے والی کتاب قرار دے کر میرے لیے تحریر و تحقیق کرنے کے کتنے ہی نئے در کھول دیئے۔ ہفت روزہ" زندگی "جو مجیب الرحمان شامی صاحب ہی کی ادارت میں شائع ہوتا ہے ۔اس ہفت وار میگزین میں میری سوانح عمری "لمحوں کا سفر" یکے بعد دیگر ے 36 قسطوں میں شائع ہوچکی ہے بلکہ میری سوانح عمری کی بڑی حد تک پروف ریڈنگ بھی انہوں نے ہی کی ہے ۔روزنامہ پاکستان کے ادارتی صفحے پر شائع ہونے والے میرے ایک کالم کو ٹیٹراپیک گرین میڈیا ایوارڈ ( پچاس ہزار روپے کا چیک ) مل چکا ہے۔ میں سمجھتا ہوں میری یہ سب کامیابیاں مجیب الرحمان شامی صاحب ہی کی مرہون منت ہیں ۔میری جتنی بھی کتابوں کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی ہے، ان سب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے مجیب الرحمان شامی صاحب نہ صرف تشریف لائے بلکہ کتابوں پر اظہار خیال بھی کیا ۔ سٹیج پر ان کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ یقینا ہمیشہ کے لیے میرے مشعل راہ ثابت ہو رہے ہیں ۔

بہر حال بات کسی اور جانب نکل گئی ۔ قصور شہر سے اگر ٹرین سیدھی جائے تو گنڈا سنگھ بارڈر کراس کرکے فیروز پور چھاؤنی جا پہنچے گی ۔ اس لیے قصور پہنچ کر ٹرین کا انجن اپنا رک تبدیل کرکے پاکپتن کی جانب کرلیتا ہے ۔ یاد رہے قصور پاکستان کا واحد شہر ہے جس کے بائیں جانب دریائے بیاس اور دائیں دریائے ستلج بہتا تھا ۔ 1952ء کے سیلاب میں قصور شہر مکمل طورپر سیلابی پانی میں ڈوب گیا تھا ۔ اب دریائے بیاس کا تمام تر پانی بھارت نے ڈیم بنا کر روک لیا ہے اور اپنی فیکٹریوں کا گندہ پانی ایک نالے کی صورت میں دریائے بیاس کی جگہ بھیج رہا ہے ۔اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اب دریائے بیاس ایک نالے کی شکل دھار چکا ہے جو قصور شہر کے اوٹر سگنل کے قریب اب بھی بہتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔حسن اتفاق سے میں دریائے بیاس کی تلاش میں قصور اور چونیاں شہر تک کابھی چکر لگا آیا ہوں ۔جب میں نے چونیاں کے رہنے والوں سے دریائے بیاس کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے شہر کی فیصل کے نیچے اشارہ کرکے بتایا کہ دریائے بیاس کی یہ گزرگاہ تھی جو یہاں سے گزر کر ہجرہ شاہ مقیم کے پاس سے ہوتا ہوا دریائے ستلج میں جا گرتا تھا لیکن اب اس کی جگہ ایک برساتی نالہ بہتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔اس لیے کہاجا سکتا ہے کہ دریائے بیاس کا نام و نشان تو مٹ چکا لیکن دریائے ستلج اب بھی قصور شہر سے آٹھ دس کلومیٹر دور جنوب مشرق کی جانب نہایت خاموشی سے بہہ رہا ہے ۔ میرے والد جو قیام پاکستا ن سے پہلے کالے اسٹیم انجن پر فائر مین کی حیثیت سے ڈیوٹی دیا کرتے تھے ۔وہ بتایا کرتے تھے کہ جب ہمارا انجن ٹرین لے کر دریائے ستلج کے اوپر سے گزرتا تھا تو دریا میں بہنے والے پانی کی آواز اس قدر خوفناک ہواکرتی تھی کہ ہم چلتے ہوئے اسٹیم انجن پر آنکھیں اور کان بند کرکے گزرتے تھے ۔جبکہ ٹرین میں سوارمسافروں کا عالم بھی کچھ ایسا ہی تھا ۔ اب دریائے ستلج کا زور اس لیے ٹوٹ چکا ہے کہ اس پر بھارت نے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر دو تین ڈیم بنا کر دریا کے پانی کو روک لیا ہے جو مشرقی پنجاب کے کھیتوں کو سیراب کرتا ہے ۔ 1960 ء میں پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والے معاہدہ طاس کے مطابق دریائے ستلج ، دریائے بیاس اور دریائے راوی کے پانی پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا ہے ۔بھارت ان دریاؤں میں صرف اس وقت پانی چھوڑتا ہے جب موسم برسات میں خود ڈوپنے لگتا ہے ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت نے دریائے چناب ، دریائے جہلم اور دریائے سندھ کے پانی کو روکنے کے لیے اپنے علاقوں میں ڈیم بنا نے شروع کردیئے ہیں ،بلکہ کچھ ڈیم تو بنا بھی چکا ہے جبکہ پاکستان میں نئے ڈیم بنانے کا کام بدترین طور پر سیاست کی نذر ہو چکا ہے ۔

بات ہو رہی تھی کہ والدہ کے ہمراہ ہم عارف والا بذریعہ ٹرین کب اور کیسے پہنچے اور وہاں رہتے ہوئے کیا کیا واقعات رونما ہوئے۔سچ تو یہ ہے کہ ہمیں بچپن ہی سے نانی کے گھر عارف والا جانے کا بہت شوق ہوا کرتا تھا۔اس لیے ہم دوران سفر گزرنے والے ایک ایک لمحے سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔چونکہ والدہ ہمارے ساتھ ہوتیں اس لیے ہمیں کسی اور کا ڈر نہیں ہوتا تھا ۔ مجال ہے والدہ کے سامنے ہمیں کو ئی ڈانٹ بھی سکے لیکن سفر کے دوران چند احتیاطیں والدہ نے خود ہم پر نافذ کررکھی تھیں ۔ مثلا کھڑکی سے گردن نکال کر باہر نہیں دیکھنا ۔ یہ پابندی اس لیے ہم پر لگا رکھی تھی کہ ہوا میں اڑتی ہوئی کوئی بھی چیز لگنے سے ہمیں نقصان پہنچ سکتا ہے ۔پھر ہر لمحے والدہ کو یہ خدشہ بھی رہتا تھا کہ کہیں کھڑکی کا پٹ ڈھیلا ہو کر بچوں کے سر پر ہی نہ آ لگے ۔ برانچ لائن میں چلنے والی ٹرینوں کا اﷲ ہی حافظ تھا ۔ فوم کی سیٹیں تو مین لائن پر چلنے والی ٹرینوں کے لیے مخصوص تھیں لیکن برانچ لائن پر چلنے والی ٹرین کی سیٹیں خالصا لکڑی کی ہوا کرتی تھیں جن کے درمیان میں تھوڑا تھوڑا فاصلہ بھی ہوا کرتا تھا ۔دن میں تو سورج کی روشنی ہی اجالے کا کام دیتی تھی ،سورج غروب ہوتے ہی ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا ۔جب ٹرین کسی اسٹیشن پر رکتی تو کئی لوگ ٹھوکریں کھاتے اور ٹھوکریں مارتے ہوئے اترتے اور اسی طرح سواربھی ہوتے تھے ۔پھر یہ بات بھی خاص طور پر نوٹ کی گئی تھی کہ شاید ہی کوئی ٹرین عارف والا مقررہ وقت پر پہنچی ہو ۔ ہمیشہ ٹرین ایک دو گھنٹے لیٹ ہی ہوتی ۔میرے بڑے ماموں ہدایت خاں جو محکمہ ڈاک میں پوسٹ مین کی حیثیت سے ملازم تھے وہ گاڑی کا انتظار کرکر کے تھک جایا کرتے تھے ۔ جب ہم بخیرو عافیت عارف والا پہنچ جاتے تو میرے نانا سردار خان ایک آنے کا پوسٹ کارڈ ،ڈاکخانے سے خریدتے اور اس کارڈ پر عارف والا پہنچنے کی ہماری اطلاع والد صاحب کو لاہور چھاؤنی میں دے دیا کرتے تھے ۔ اس زمانے میں ٹیلی فون کا تصور ہی نہیں تھا اگرکہیں ایمرجنسی ہو بھی جاتی تو بڑے تارگھر جاکر ٹیلی گرام دے دی جاتی ۔ ٹیلی گرام کے جتنے الفاظ ہوتے ۔اتنے پیسے ادا کرنے پڑتے ۔ٹیلی گرام زیادہ تر موت /شدید بیماری ہی کے بارے میں ہوا کرتی تھی ۔
(جاری ہے)
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784447 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.