ثَقافَتی نَسْل کُشی



نامور مؤرخ پروفیسر عرفان حبیب کہتے ہیں، 'سیاست میں ہمیشہ سب سے پہلا نشانہ تاریخ بنتی ہے۔' جس کی زندہ مثال ہمارا ملک ہے جہاں مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ اور ختم کرنے کی مہم چل پڑی ہے۔ ہندوتوا کے وقار کی خاطر شہروں اور اضلاع کے نام بدلے جارہے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں ناموں کی تبدیلی 'سیاسی ایجنڈا' ہے، ان کا کہنا ہے، 'اس طرح کی سرگرمیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا'۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قوموں کی تنزلی میں کسی قوم کی تاریخی و ثقافتی تباہی بھی بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں ناموں کی تبدیلی بنیادی طور پر ہماری مسلم تاریخ و ثقافت اور ورثہ پر حملے کا معاملہ ہے۔ یہ ہندوتوا نواز تحریکوں اور ان کے ہمنواؤں کی جانب سے ایک کھلا پیغام ہے کہ مسلمانوں نے ہندوستان کی تاریخی و ثقافتی زندگی میں کوئی حصّہ نہیں ڈالا ہے۔

حقیقی مسائل سے پردہ پوشی، پولیٹیکل ناکامیوں اور شکست سے عوام کی توجہ ہٹاکر، شہروں کے ناموں کو تبدیل کرنے کا شوشہ چھوڑ کر، مذہبی منافرت کو فروغ دیا جارہا ہے۔ جس کا خوفناک خمیازہ ہمیں ہی بھگتنا ہوگا۔ 150 ملین سے زیادہ آبادی کے ساتھ، مسلمان ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت ہیں، لیکن انہیں سماجی، اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے نمایاں کمی کا سامنا ہے۔ جب کہ فرقہ وارانہ تشدد کی لہروں نے انہیں پچھلے 30 سالوں میں متاثر کیا ہے۔ اور یہ سلسلہ مزید دراز ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ حقیقتاً ہر مقام و علاقے کی اپنی تاریخی اہمیت ہے۔

دنیا میں مختلف وجوہات ہیں جس کی بنیاد پر اضلاع، شہروں، قصبوں، گلیوں، ہوائی اڈوں اور مصروف ریلوے اسٹیشنوں کے نام تبدیل کروائے جاتے ہیں۔ لیکن جو وجوہات ہمارے یہاں چل پڑی ہے اس سے دو فرقوں میں مذہبی منافرت کے علاؤہ کچھ بھی ہاتھ نہیں لگے گا۔ اسلامی شناخت شدہ ناموں کو ختم کرنے کا مقصد صاف طور سے ملک کے مسلمانوں کو اختیار سے محروم کرنا ہے اور ملک کی تاریخ اور ترقی میں ان کے رول کو ختم کرنا ہے۔ ہندو احیاء پرست تحریکیں ناموں کی اس تبدیلی کو ملک کے ’شاندار‘ ہندو ماضی کا نام دیتے ہوئے اسلامی تہذیب سے حقارت ظاہر کرتی ہے۔

حکمراں سیاسی پارٹی تاریخ کے شدھی کرن کے نام پر مسلمانوں کی شناخت مٹانے کے دَرپے ہے۔ تاریخی و ثقافتی اصلاح اور ترقی کی آڑ میں جاری اضلاع و شہروں کے اسلامی ناموں کی تبدیلی کے عمل کو "ثَقافَتی نَسْل کُشی" (Cultural genocide) جیسے طویل عمل کا ایک حصّہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔

بہت سے متعصب ہندوؤں کا خیال ہے کہ ناموں کی تبدیلی کا قدم اٹھانا بالکل درست عمل ہے۔ ان کے مطابق، ہندو تہذیب کے احیاء کا کام شروع ہوا ہے اور اب ان تمام شہروں اور مقامات کے نام بدلنے کی ضرورت ہے، جو بقول ان کے، مسلم حملہ آوروں کے ناموں پر رکھے گئے ہیں یا ان کی علامت ہیں۔

ملک میں سول سوسائٹی کی طرف سے شدید تنقید کے باوجود حکمراں پارٹی اور ان کے حواریوں کی حکومت نے مسلم شخصیات کے نام سے منسوب مختلف شہروں کے نام بدلنے کی مہم پر کار بند ہوتے ہوئے کئی شہروں کے نام بدل دیے ہیں۔ ماہرہن کا کہنا ہے کہ اس مہم کے نتیجے میں ملک کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

غیر متعصب سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ناموں کی تبدیلی سے سیاسی مفاد پرستی کی بو آتی ہے۔ پون ورما کہتے ہیں کہ ہماری ثقافت اپنی جگہ پر لیکن اس طرح ہزاروں سال کی تاریخ کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ناموں کی تبدیلی کی اس مہم پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں توازن برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔

عقل اس بات سے بہت دور ہے کہ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں کہ ہندو احیاء پرست تحریکیں ہندوتوا کو کیوں مظلوم اکثریت کے طور پر پیش کرتی ہیں؟ ہر جگہ اپنے اوپر کی گئی ناانصافی کا تذکرہ کیا جاتا ہے! آخر کب تک ناانصافیوں اور ظلم کا بدلہ لیا جائے گا؟؟ کیا زندگی بھر اس جھوٹے پروپگنڈے کی چکی میں مسلمانوں کو تختۂ مشق بنایا جاتا رہے گا۔

متعدد تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ناموں کی تبدیلی سے ہندووں کے ایک طبقے میں اپنی تہذیب و ثقافت کے نام پر ایک غیر ضروری اور خطرناک احساس پیدا کیا جا رہا ہے جو ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بقائے باہم کے نظریے کے خلاف ہے۔

ہندو تہذیب کا بھی راگ اس لیے الاپا جاتا ہے تاکہ انتخابات میں اس سے فائدہ اٹھایا جاسکے اور ہندو تہذیب و ثقافت کے تحفظ، غیرت و خود داری کے نام پر ووٹ حاصل کیے جاسکیں۔

ناموں کی تبدیلی کی برق کئی شہروں پر گررہی ہیں۔ یہ کاروائیاں کسی حملہ آوروں یا مغل شہنشاہوں سے دشمنی کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ اسلام و مسلمانوں سے عداوت کے نتیجے میں ہیں۔ "علیگڑھ" کو ہی دیکھ لیں، 1803ء میں علیگڑھ شہر کا نام جرنل نجف علی خان کے نام پر مراٹھوں نے 'علیگڑھ' رکھا۔

متعصبانہ عینک کی بنیاد پر جو پردہ ہندوتوا پرست تحریکوں کے آنکھوں پر چڑھا دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں انہوں نے دنیا کے عجائبات میں سے ایک تاج محل جیسے تاریخی و خوبصورت مقام کو ریاستی سطح پر اہم سیاحتی مقامات کی فہرست سے غائب ہی کردیا ہے۔ اسی طرح اسی متعصبانہ عینک کی بناء پر "مغل سرائے جنکشن" کا نام بدل دیا گیا ہے۔

"الہ آباد" کے نام کو دیکھ لیجیۓ، ہندوتوا نواز سیاسی پارٹیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف تاریخ میں درج غلطیوں کو درست کر رہے ہیں، کیوں کہ شہر کا نام مغل بادشاہ اکبر نے پریاگ راج سے بدل کر الہ آباد کیا تھا۔ جب کہ مؤرخین اس بات کو مکمل طور پر درست تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ الہ آباد یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر این آر فاروقی نے بتایا کہ "تاریخی دستاویزات اور کتابوں کے مطابق پریاگ راج نام کا کبھی کوئی شہر بسا ہی نہیں۔ یہاں صرف پریاگ نام سے منسوب ہندوؤں کا ایک زیارتی مقام ضرور ہوا کرتا تھا جس کے بارے میں کئی کتابوں میں بھی لکھا گیا ہے"۔ مگر محض مسلمانوں سے الہ آباد کا تاریخی تعلق ہی اس انتقامی اقدام کی وجہ بنا، جو مسلم تاریخ کے تمام حوالوں کو مٹا ڈالنا چاہتا ہے۔

بھاجپا کے ایک ترجمان نے مغل سرائے اور الہ آباد کے ناموں کی تبدیلی کو گنگا صفائی پروجیکٹ سے جوڑنے کی کوشش کی تھی اور یہ تجویز پیش کی تھی ’ہندوؤں کیلئے مقدس دریا کے کنارے کوئی ایسا مقام نہیں ہونا چاہئے جو مغل حکمرانوں سے وابستہ ہو۔‘

کہا جاتا ہے انتقام کا جذبہ اور تعصب انسان کی عقل کو مسخ کر دیتا ہے۔ کیا نام بدل دینے سے گنگا کی گندگی ختم ہو جائیگی؟ کیا اس کی تاریخ اور شکل و صورت بدل جائے گی؟نام بدلنے والوں کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے ایک شہر کا نام بدلنے پر کثیر رقم خرچ ہوتی۔ جس سے بہت سے ترقیاتی کام ہوسکتے تھے۔

"احمد آباد" یہ شہر دریائے سابرمتی کے کنارے آباد ہے۔ 1411ء میں مظفری خاندان کے سلطان احمد شاہ نے 4 احمدوں - قاضی احمد، ملک احمد، اپنے اسلامی استاد شیخ احمد کھٹو اور خود کی تعریف میں اس کا نام احمد آباد رکھا۔ یہ شہر سوتی کپڑے کی مِلوں کی وجہ سے ہندوستان کا مانچسٹر کہلاتا تھا۔ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ میں شامل اس شہر کا نام اگر حکومت تبدیل کرنا چاہتی ہے تو پھر اسے یونیسکو سے بھی منظوری لینی ہوگی۔ گجرات کے متعصب سیاسی لیڈران کہتے ہیں کہ احمد آباد نام غلامی کی علامت ہے۔ جب کہ کرناوتی ہماری عزت نفس اور غیرت مندی و خود داری اور ہماری ثقافت کی علامت ہے۔

راجستھان میں 2018ء کے وسط میں سابق وزیر اعلٰی وسندھرا راجے سندھیا نے 20 سے زائد مسلمان ناموں کے گاؤں کو ہندو نام دے کر شدھی کرن کردیا۔

مظفر نگر، الہ آباد، فیض آباد، علی گڈھ، احمد آباد، حیدرآباد، کریم نگر، اورنگ آباد، عثمان آباد، مومن آباد، احمد نگر وغیرہ یہ سارے نام چونکہ ایک مسلم شناخت رکھتے ہیں، اور یہ نام ان کی آنکھوں میں کھٹکتے ہیں۔ لہٰذا ان کی دیرینہ خواہش یہی ہے کہ ان ناموں کو تبدیل کرکے اپنے مجروح یا کھوئے ہوئے وقار کو بحال کیا جائے۔

آج "حیدرآباد" کا نام 'بھاگیہ نگر' و "اورنگ آباد" کا 'شمبھاجی نگر' اور "عثمان آباد" کا 'دھراشیو' ایک بار پھر سرخیوں میں ہیں۔ ریاست مہاراشٹر میں 'شیوسینا' نے نئی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اورنگ آباد اور عثمان آباد کے نام بدلے۔ کہیں کسی سیاسی رہنما کی خواہش کے مطابق شہروں کے نام تبدیل کئے جارہے ہیں۔ سامنا کے اداریہ میں لکھا گیا ہے کہ 'بالا صاحب ٹھاکرے نے اورنگ آباد کا نام' شمبھاجی نگر 'رکھا تھا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ اس کے نام کو سیاسی مقاصد کے لیے تبدیل کرنے کے لیے زور و شور اسے اٹھایا جاتا ہے۔ اورنگ آباد کبھی دکن میں طاقت کا مرکز تھا۔ یہ بہت سی سلطنتوں کا دارالحکومت بھی رہا ہے۔ اس سرزمین کی اپنی زریں تاریخ ہے۔

بی جے پی کے ہندو قوم پرست سیاست دانوں نے ہندوستانی قصبوں، گلیوں، ہوائی اڈوں اور ملک کے ریلوے اسٹیشنوں کے نام تبدیل کیے ہیں، ایسے ناموں کو تبدیل کیا ہے جو مسلم ورثے کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ ہندوستان کے نقشے پر نظر ثانی کر رہے ہیں اور اس کی تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اپوروآنند (دہلی یونیورسٹی)، دی ہندو (13.11.2018) میں لکھتے ہیں، "ہم ہندوستان میں شہروں اور ریلوے اسٹیشنوں کے نام بدلنے سے پیدا ہونے والے جوش و خروش میں یہ دیکھنے میں ناکام رہتے ہیں کہ ماضی، جس کی طرف یہ نئے پرانے نام اشارہ کرتے ہیں، ایک تصوراتی سر زمین ہے جس میں ہمیں آباد ہونے کی دعوت دی جارہی ہے۔ ہم بالکل کھوئی ہوئی زمین کو دوبارہ حاصل نہیں کر رہے ہیں، کیونکہ جیسا کہ ہندی شاعر بودھی ستوا نے لکھا ہے، ایسا پریاگ کبھی نہیں تھا جسے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی اب بحال کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ماضی کی شان و شوکت پر قبضہ کرنے کے دفاع میں جو کچھ بیچا جا رہا ہے وہ ایک نظریاتی تعمیر ہے۔"

سوشیالوجی کے ماہر سنجے سری واستو نے کہا کہ ’اصل سماجی بہبود میں وسیع تر بہتری کی عدم موجودگی میں نام کی تبدیلی، تبدیلی کا احساس دلاتی ہے۔‘

ہندوتوا نواز سیاسی پارٹیوں کے نام تبدیل کرنے کی روش کو ووٹرز کو قائل کرنے کی ایک کوشش کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ دلی یونیورسٹی کے گگن پریت سنگھ کہتے ہیں کہ انڈیا میں ناموں کی تبدیلی کی سیاست کی جڑیں عام طور پر ’تہذیب کو قومیت کے دائرے میں لانے سے جڑی ہوتی ہیں۔‘

سیاسی لیڈر و وزیر، اوم پرکاش راج کہتے ہیں کہ "پس ماندہ اور کچلے ہوئے طبقات کی اپنے حقوق سے توجّہ ہٹانے کے لیے، بی جے پی سرکار نام تبدیل کرنے کا ڈراما رچا رہی ہے۔ بھارت کے لیے مسلمانوں کی خدمات بے مثال ہیں۔"

پروفیسر منوج کے جھا جو دہلی یونیورسٹی سے وابستہ ہیں وہ اس مسئلہ پر کہتے ہیں "تاریخ بتاتی ہے کہ جب حکمرانوں کے پاس اپنی قوم کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا، تو وہ نام تبدیل کرنے لگتے ہیں۔ بھارت ہمیشہ سے ایک وسیع و عریض سمندر رہا ہے اور اس حکومت کو، تاریخ میں ایک سمندر کو غلیظ مقام میں بدلنے والی حکومت کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔"

سرکار پر تنقید کرتے ہوئے انہوں مزید کہا "چوں کہ اقتصادی ترقی کے اعتبار سے بی جے پی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، لہٰذا وہ اس قسم کی حماقتیں کر رہی ہے۔ اگر معیشت، ملازمتوں اور سماجی بہتری کے لحاظ سے اس حکومت کا جائزہ لیا جائے، تو اس کی کارکردگی منفی ہے۔ یہ حکومت صحت، تعلیم اور ملازمتیں نہیں دے سکتی، البتہ نام ضرور تبدیل کرسکتی ہے۔"

حکومت کو چاہئے کہ اضلاع و شہروں کے نام تبدیل کرنے کی بجائے، وہ اپنا وقت ملک سے بے روزگاری کو دور کرنے، کسانوں کو ان جائز حق دینے، ان کی معاشی و زرعی بہتری، ملک کو لوٹ کر ملک کے باہر پیسہ لیجانے والوں سے دوبارہ پیسہ لانے پر، عوام کی فلاح و بہبود پر، مہنگائی کو ختم کرنے پر اور الیکشن سے قبل کئے گئے وعدے پورے کرنے میں صرف کرے۔

تحقیقی ادارے آر ایس ایس کے لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ تاریخ ہندو وراثت کا مطالعہ ہے، جس کا مقصد ہندو فخر کو ابھارنا اور قوم کے دشمنوں کے خلاف انتباہ کرنا ہے۔ نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں تاریخ کی ریٹائرڈ پروفیسر تنیکا سرکار کہتی ہیں۔ "چاہے وہ سائنس ہو یا تاریخ، ہمیں قدیم ہندو اقدار، ہندو ایجادات، ہندو سائنس کے بارے میں بات کرنی چاہیے۔"

موجودہ سرکار’’ ہندوتوا‘‘ نظریے کے تحت ملک کے امن و آشتی اور محبت کے تشخّص کو ختم کرتے ہوئے اسے ایک ہندو ریاست بنانے پر تُلی ہوئی ہے۔ ملک میں حکمراں سیاسی پارٹی نے کوئی ایسا ٹھوس تعمیری کارنامہ انجام نہیں دیا، جسے وہ تمغائے امتیاز سے تعبیر کرسکے، چنانچہ وہ انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے لیے مذہبی و سیاسی منافرت کو پروان چڑھا رہی ہے۔ ناموں کی تبدیلی کا فیصلہ نہ صرف ملک کی اسلامی تاریخ کا نام و نشان مٹانے کی کوشش ہے، بلکہ اس کے نتیجے میں مذہب کے نام پر ایک کثیر الثقافتی معاشرے میں خلیج بھی پیدا ہوگی۔

بحیثیت مسلمان ہمارا یقین ہے کہ یہ تمام رونما ہونے والی تبدیلیاں زندگی کے نشیب و فراز ہیں۔ آج ہمارے حصّے کی رات ہے کل ان شاء اللّٰہ! ہماری صبح دوبارہ آئے گی۔ اس وقت ہر طرف امن و انصاف کا بول بالا ہوگا۔
 

Masood Khan
About the Author: Masood Khan Read More Articles by Masood Khan: 3 Articles with 1977 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.