گورنر سندھ کا سفر چوڑیاں، مہندی سے پکوڑے تلنے تک

گورنر سندھ کامران ٹیسوری جو اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے ہی عوامی سطح پراکثر اوقات عوام میں گھل مل جاتے ہیں اب انہوں نے کراچی کی تمام بہن بیٹیوں کیلئے چاند رات کو مفت مہندی اور چوڑیاں تقسیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ چاند رات کو کراچی شہر کی تمام خواتین اور بچیوں کے لیے گورنر ہاؤس کراچی کے دروازے کھلے رہیں گے۔اس موقع پر خواتین اور بچیوں کو مفت مہندی لگائی اور چوڑیاں پہنائی جائیں گی. دوسری طرف کامران ٹیسوری عوامی سطح پر ایک چوراہے پر پکوڑے کے تھیلے پر پکوڑے تلنے بیٹھ گئے. بیچارے کیا کریں ایک تو بے بس تنظیم جس کے فیصلے بھی دوسرے کرتے تھے. کبھی رحمان ملک تو عمرانی دور میں فروغ نسیم اور یہ مجبور و لاچار کامران ٹیسوری کرنے کو کچھ نہ کرے بھی تو کیا کرے

عرصہ 35 سال اس تنظیم نے کیا بھی نہیں تو کچھ.

اس ہی منصب پر عشرت جس نے کرنا تھا بہت کچھ

وہ بھی سداھار گیا دبی نہ کرے بنا کرئے کچھ

ریاض ملک دُبئی میں کرگیا اس کے لیے بہت کچھ

ظاہر ہے ان بلند وبالا دیواروں کے اندر اب نہ ہے کچھ.

بیچارہ کررہا ہے فوڈ اسٹریٹ اسٹالوں پر اب یہی کچھ

لینا ہے ووٹ کہ صاحب بہادر بھی ہو اس سے ہو تھوڑا کچھ .

سوچنے کی بات ہے اس سے کون سی فلاح بہبود اور رفاہی کام کا تعلق ہے، جھوٹی انا اور خواہش کی تکمیل اور مستقبل میں پکوڑے کی دکان کھولنے اور اب یہ بھی دن آگیا ہے کہ گورنر ہاؤس پکوڑے، مینا بازار، مہندی، بیوٹی پارلر وغیرہ کے لیے رہ گیا ہے۔معذرت کے ساتھ کوئی رفاہ عامہ کے لیے کام کرلیں جن سے آپ کی عزت و احترام بڑھنے کے ساتھ ساتھ مقبولیت میں اضافہ اور رشتہ مضبوط ہو
.
گورنر سندھ صاحب فرماتے ہیں مجھے یہ آئیڈیا عمران خان سے ملا جنہوں نے ایک کروڑ نوکریاں، پچاس ہزار گھر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ گورنر ہاوس کو عام لوگوں کے لیے کھولا جائے گا، یہاں طلبا آئیں گے، یونیورسٹی ہوگی لیکن نا جانے ان کی کیا مجبوری تھی کہ وہ گورنر ہاوس کو عوامی بنانے کا وعدہ پورا ہی نہیں کرسکے تو اب میں خود بحیثیت گورنر یہ کام کر دکھاتا ہوں۔ آپ نے آئیڈیا تو بہت اچھا کاپی کیا کپتان کا مگر یہ ایک کڑوڑ نوکریوں کا جو زیر لب بولا وہ ایسے ہی سامنے اب کھڑا ہے جیسے بہادر آباد کا نرالا اپنے سابق پاپا لندن کے سامنے کھڑا ہے.
کپتان جو ساڑھے تین سال میں نہ کرسکا یہاں تو 35 سال سے براجماں ہیں اپنی ایلفی لگی سیٹوں پر وہ کچھ نہ کرسکے اپنی اس بے مدوگار شہری عوام پر جو لیکر آئے تھے بڑے وعدے اس مظلوم شہری عوام سے عملی جامہ نہ پہناسکے ان کے جائز مطالبات کو اب تو یہ حال ہے جو شہری مقامی کا روزگار ہے وہ بھی چھن گیا ہے تمھارے ان 35 سالہ ادوار میں نہ زیر لب کھولے کیونکہ لگارکھی تھی پان ، گٹکا، مینوری کی گلوریاں جب بھی اس ظلم پر کری شہری عوام نے آہ زاریاں کُھلے بھی لب مگر نکلیں ان میں سے پچکاریاں . حیدرآباد والے دیکھتے رہے ان 35 سال سے بنا پائینگے ادارہ مکتب جو تھی ضرورت اس شہری عوام کی مگر ضرورت تھی عشرت سرکار کو اپنے بچوں کو دبی میں سرے محل جیسا سایہ دار کی ہر تمھارا ممبرز ہو یا خاص عہدیدار جو آیا تھا اپنے دو پائے پر اب چل رہا جاپان کے مشہور برانڈ پر جو نہ داخل ہوسکیں ان بے چار علاقوں میں جہاں رہتا تھا یہ نمودار ہوئے تھے اپنے ان کچے چوباروں سے اب یہ منظر عام آتے ہیں دبی کے بازاروں میں. لڑرہے ہیں لندن ہو یا بہادر آباد اس پراپرٹی کے لیے جیسا ان کا باپ کرگیا ان کے نام کاغذ کے پنے میں، جن عوام کے پیسوں سے بنی تھیں یہ پراپرٹیاں، وہ دیکھ رہی تھی سروں پاتھ مارکر پیسہ میرا اور میری عوام کا لڑرہے ہیں بدبخت اپنی عیاشیاں کے لیے نہ انہیں ڈر قبر کا جہاں بیٹھا ہے انتیظار میں منکر نکیر ان کے دوگز کے پلاٹ میں ادھر کوئی نہ بچا پائیگا کوئی نامعلوم یہاں سب لیتے ہیں اس کا نام جو ہے معلوم بیٹھا.
 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 284 Articles with 94010 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.