آج کل پاکستان جن مشکلات کے مرحلوں سے گزر رہا ہے پاکستان
اس وقت تین محاذوں سے برسرپیکار ہے جن میں معاشیات، داخلہ اور خارجہ یہ
تینوں محاذ اس وقت پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے. پاکستان میں گذشتہ
ایک برس کے دوران معاشی بحران بد سے بدتر ہوتا جا رہا ہے. یہ بحران کیوں
آیا اور کون وجہ بنی اس ہر پرنٹ ، الیکٹرونک و سوشل میڈیا میں بہت کچھ لکھا
اور تجزیہ پیش کیا جاچکا مختلف پلیٹ فارمز سے اس وقت سب سے اہم پاکستان کا
مسئلہ جو سر اُٹھا دہا ہے. وہ پاکستان معاشی طور پر اس وقت مشکل مراحل سے
گزر رہا ہے. قرض لینے کے لیے آئے دن کاسہ لیکر در در اپنے اسلامی ملکوں کی
چوکھٹ پر سجدہ ریزہے. گذشتہ چند دہائیوں سے جب بھی پاکستان کو بدترین معاشی
صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تو فوجی ہو یا سیاسی حکمرانوں کی نظریں ہمیشہ کی
طرح سعودی عرب کی جانب اٹھتی دکھائی دیں اور سعودی عرب کی جانب سے بھی ملنے
والا ردعمل عموماً مایوس کُن نہیں رہا۔ اس مرتبہ بھی سعودی ولی عہد اور
وزیراعظم محمد بن سلمان نے پاکستانی فوج کے جنرل عاصم منیر سے رواں ہفتے
ہونے والی ملاقات کے فوراً بعد اپنے مالیاتی اداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ
پاکستان میں سرمایہ کاری اور قرضوں کو بڑھانے کا جائزہ لیں۔ سعودی اعلان کے
مطابق پاکستان میں جاری سرمایہ کاری کا حجم 10 ارب جبکہ سٹیٹ بینک آف
پاکستان میں ڈیپازٹ سعودی رقم کا حجم پانچ ارب ڈالر تک کرنے کا جائزہ لیا
گیا جبکہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی بنیاد دراصل وہ معاہدہ ہے جو
1984 میں کیا گیا تھا جس کے تحت ’اگر شاہی خاندان کو کسی بھی قسم کا خطرہ
ہو گا تو پاکستان اپنی فوج مہیا کرے گا۔ سنہ 1960 کی دہائی سے عرب دنیا سے
باہر پاکستان کو سعودی عرب سے جتنی امداد ملی ہے اتنی کسی اور ملک کو کبھی
نہیں ملی پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان شاید پوری دنیا میں سب سے قریبی
تعلقات ہیں۔ سعودی عرب کے پیسے نے ’پاکستان کی سیاست اور معاشرے‘ پر گہرے
اثرات مرتب کیے ہیں۔اکثر کچھ لبرل ناقدین کی رائے میں سعودی عرب نے
پاکستانی مدارس کے ذریعے وہابی نظریے کی جڑیں بہت مضبوط کی ہیں۔ ’پاکستان
اسلام کے نام پر بنا تھا اور اسلامی ممالک میں پاکستان واحد ایٹمی طاقت
والا ملک ہے۔ اسلام کے نقطہ نظر سے سعودی عرب سب سے اہم ہے اور جس علاقے
میں وہ واقع ہے وہاں اس کی سلامتی کے حوالے سے بہت سے خطرات موجود
ہیں۔’ایسے میں پاکستان سعودی عرب کے لیے بہت اہم ہو جاتا ہے۔ پاکستان سعودی
عرب کے لیے بوجھ بھی سمجھا جاتا ہے. دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت
بمشکل دو ارب ڈالر ہے جبکہ سعودی عرب انڈیا کا چوتھا بڑا تجارتی شراکت دار
ہے۔ اس وقت سعودی عرب اور انڈیا کی باہمی تجارت کا حجم 44 ارب ڈالر سے زائد
ہے۔ سعودی عرب انڈیا کو تیل فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ سعودی عرب
کی معیشت کے لحاظ سے انڈیا بہت اہم ملک ہے۔ جس کی وجہ سے اب سعودی عرب
کشمیر کے حوالے سے انڈیا کے ساتھ بہت نرم رویہ اختیار کر رہا ہے۔ اس معاملے
میں پاکستان کی الجھن صاف نظر آتی ہے۔ اس وقت امداد دینے اور پاکستان کو اس
معاشی صورتحال سے نکالنے کے حوالے سے سعودی عرب کی جانب سے ہچکچاہٹ دکھائی
جاتی ہے اس کی وجہ ان کی سوچ میں تبدیلی ہے۔ ’پہلے امریکہ کے کہنے پر سعودی
عرب پاکستان کو خراب معاشی صورتحال سے نکالنے میں مدد کرتا تھا۔ اب وہاں پر
بھی تھوڑی کمی ہوئی ہے لیکن یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ایسے وقت میں جب
پاکستان معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب سے فوری امداد کی توقع کر
رہا ہے، سعودی عرب کے وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے اتحادی
ممالک کو دی جانے والی مالی معاونت کے طریقہ کار کو تبدیل کیا جا رہا ہے،
یعنی بغیر کسی شرط کے براہِ راست گرانٹس اور ڈپازٹس کی پالیسی کو بدل کر اب
دوست ممالک میں معاشی اصلاحات پر زور دیا جائے گا۔معاشی ماہرین اس بیان کو
پاکستان کے لیے ’خطرے کی گھنٹی‘ قرار دے رہے ہیں. نئی شرائط کا اطلاق پہلے
سے کیے جانے والے وعدوں پر نہیں ہو گا۔۔ جبکہ سعودی عرب تو پہلے ہی یہ عام
اعلان کر چکا ہے کہ وہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو تین ارب سے بڑھا کر
پانچ ارب تک کرے گا اور مزید دس ارب کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ جبکہ کچھ
معاشی تجزیہ نگار اپنا تجزیہ میں کہتے ہیں دیتے ہیں کہ سعودی عرب کی سوچ
میں تبدیلی واقع ہوئی ہے اور اب وہ بغیر اصلاحات کے کسی ملک کی مالی مدد کو
پیسے کا ضیاع سمجھتا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق دنیا میں اب بیشتر ممالک
یہی پالیسی اختیار کر رہے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ پیسہ اپنے عوام پر خرچ کیا
جائے جن سے وہ ٹیکس لیتے ہیں۔ اب پاکستان عالمی مالیاتی نظام کے دائرے سے
باہر نہیں نکل سکتا۔ شاید پاکستان ایک بار پھر اپنے سرد جنگ والے کردار
نبھانے میں واپس جا رہا ہے۔ اس وقت پاکستانی فوجی انفراسٹرکچر کی سعودی عرب
کے لیے مشرقِ وسطیٰ میں موجودگی شامل ہو سکتی ہے۔ ’پاکستان کا افغانستان
میں بدلتا کردار اور پاکستان کے مشرقِ وسطیٰ اور امریکہ سے تعلقات میں
تبدیلی بھی شامل ہے۔ اس سے درمیانی طاقتیں یا ایسے ممالک جنھیں اپنے
جغرافیہ کے باعث برتری حاصل ہے، جیسے پاکستان، وہ اس صورتحال میں فائدہ
حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ ماہرین کے مطابق اب ’ایزی منی‘ والا دور
گزر چکا ہے اور اب ہر ملک کو خود پیسے کی ضرورت ہے اور اب وہ براہ راست
پیسہ دینے اور ڈیپازٹ کے بجائے سرمایہ کاری سمیت دیگر آپشنز پر غور کر رہے
ہیں۔ سعودی عرب کی طرف سے کیا جانے والا یہ اعلان غیر متوقع نہیں ہے اور نہ
ہی کوئی سعودی عرب کے مؤقف میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ اب سب دوست ممالک ہمیں
یہی کہہ رہے ہیں کہ ہم بھی اصلاحات کریں۔ سعودی عرب اور چین سمیت دوست
ممالک یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان مشکل فیصلے کریں تا کہ وہ مدد کر سکیں۔
سعودی عرب تو اتحادی ملک ہے. ایسے ممالک جو صرف کاروباری نکتہ نظر سے
سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں وہ بھی یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کوئی ملک آئی ایم
ایف کے کس طرف کھڑا ہے یعنی اب عالمی مالیاتی ادارے کا اطمینان دیگر مدد
کرنے والے ممالک کے اعتماد کو بحال کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ سعودی
عرب کے وزیر خارجہ نے اپنے ملک کی ایک نئی سمت بتائی ہے کہ اب ہم سرمایہ
کاری جیسی فنڈنگ مہیا کریں گے. دوسرے مالیاتی اداروں کے ساتھ آگے بڑھنے کے
ساتھ ساتھ پاکستان کو اب دنیا کو اصلاحات پر پیش رفت بھی دکھانا ہو گی.
سعودی عرب کے وزیر خزانہ محمد الجدعان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے مہنگائی
سے متاثرہ اپنے دوست ممالک کی مالی مدد کا فیصلہ کیا ہے۔اور اس وقت پاکستان
کی ہر ممکن امداد جاری رکھیں گے۔ سعودی عرب نے بڑھتی ہوئی مہنگائی سے
پریشان ملکوں کی مدد کا بھی فیصلہ کیا ہے, ’اسلام کے نقطہ نظر سے سعودی عرب
سب سے اہم ہے اور جس علاقے میں وہ واقع ہے وہاں اس کی سلامتی کے حوالے سے
بہت سے خطرات موجود ہیں۔’ایسے میں پاکستان سعودی عرب کے لیے بہت اہم ہو
جاتا ہے۔ |