سپریم کورٹ نے ابھی حال میں مہاراشٹر کی حکومت کو نامرد
کہا لیکن اگر امرت پال کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ لقب نہ صرف پنجاب
بلکہ ہریانہ ، اترپردیش اور دہلی کی پولیس پر بھی صادق آتا ہے کیونکہ
اٹھارہ مارچ سے وہ فرار ہے ۔ اس دوران وہ پنجاب سے نکل کر ہریانہ آیا جہاں
کھٹر کی حکومت ہے ۔ اس کے بعد دہلی پہنچا ،وہاں کی پولیس امیت شاہ کے تابع
ہے۔دہلی سے یوگی ادیتیہ ناتھ کے اترپردیش میں چلا گیا اور وہاں سے دوآڈیو
جاری کردی۔ پہلی آڈیو میں تو خود سپردگی کی شرائط تھیں مگر دوسری میں اس
کا انکار تھا ۔ اس نے کہا کہ وہ پولیس کے تشدد سے نہیں ڈرتا ۔اپنی ویڈیو
میں اکال تخت کے جتھیدار گیانی ہر پریت کو سربت خالصہ بلانے کا مشورہ دیتا
ہے۔ اپنی برادری اور ساری تنظیموں کو متحد ہوکر اپنے وجود کا ثبوت دینے کے
لیے ابھارتا ہے۔ وہ خبردار کرتا ہے کہ آج حکومت کسی کے خلاف جرائم کررہی
ہے کل کسی اور کی باری آسکتی ہے۔ امرت پال سنگھ اترپردیش کے اندر جب یہ
چیلنج کرنے والی آڈیو بناکر دنیا بھر سے نشر کروا رہا تھا تو یوگی سرکار
عتیق احمد کو سابرمتی جیل سے عدالت میں حاضر کرنے کی ایسی تشہیر کروا رہی
تھی گویا کوئی قلعہ فتح ہورہا ۔پل پل کی خبر نشر کرنے والا میڈیا امرت پال
کی بابت چپی سادھے ہوئے تھا۔ عتیق احمد جیل سے نکلے اور جیل پہنچ گئے لیکن
امرت پال سنگھ یوپی سے آڈیو جاری کرکے پنجاب پہنچ گیا۔ یوگی ہاتھ پر ہاتھ
دھرے بیٹھے رہے ۔ سپریم کو رٹ کو اس نامردی کا بھی ذکر کرنا چاہیے۔
وطن عزیز میں آج تک امرت پال جتنی کسی فراری ملزم کی اتنی ویڈیوز ذرائع
ابلاغ میں نہیں آئیں ۔ ویڈیوز تو ملتی ہیں لیکن وہ ہاتھ نہیں آتا۔ اس کی
ویڈیوز کے ساتھ لکھا ہوتا امرت پال موٹر سائیکل پر ، امرت پال کا پٹرول ختم
اب وہ جگاڑ پر جا رہا ہے۔ وہ اس بس اڈے سے سوار ہوکر ہریانہ روانہ ہوگیا
لیکن پولیس کے ہتھے نہیں چڑھا۔ اس کی تصاویر دہلی کے بس اڈے پر لگے کیمرے
میں قید تو ہوئیں مگر وہ آزاد رہا ۔ یہ سب پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے
جیسے بچوں کی کوئی کارٹون فلم چل رہی ہے یا کسی سی گریڈ سیریل میں چور
پولیس کا ایک بھونڈا کھیل طویل سے طویل تر ہوتا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ
دنیا کی ابھرتی ہوئی سوپر پاور کا حفاظتی دستہ آخر ایک ملزم کو دس دنوں تک
گرفتار کرنے میں ناکام کیوں ہے؟ کشمیر کے لیے جان کی بازی لگانے والے
جانباز وزیر داخلہ آخر اس معاملے میں لب کشائی کیوں نہیں کرتے ؟ وزیر اعظم
کیوں خاموش ہیں ؟ کچھ نہیں تو یہ کہہ دیں کہ امرت پال نام کا کوئی آدمی نہ
تھا ، نہ ہے اور نہ ہوگا ۔ اس طرح یہ تلاش کا سلسلہ ہی ختم ہوجائے جس پر
تھری ایڈیٹ کا یہ نغمہ صادق آتا ہے؎
بہتی ہوا سا تھا وہ، بہتی پتنگ سا تھا وہ ، اسے ڈھونڈو
کہاں سے آیا تھا ، چھوکر ہمارے دل کو ، کہاں گیا اسے ڈھونڈو
امرجیت سنگھ کہاں سے آیا تھا یہ تو سبھی جانتے ہیں لیکن کیوں آیا تھا؟
شاید یہ جاننے میں وقت لگے گا کیونکہ بہتی ہوا کی مانند وہ کہا ںچلا گیا یہ
کوئی نہیں جانتا۔ اسے فی الحال کئی ریاستوں کی پولیس ڈھونڈ رہی ہے لیکن
تادمِ تحریر وہ کسی کے ہتھے نہیں چڑھ سکا ہے۔ اس فرار کی ابتداء پنجاب سے
ہوئی تو یہ کہا گیا کہ وہاں عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے ۔ عام آدمی پارٹی
کے سپریمو اروند کیجریوال اس معاملے میں ایک نہایت دلچسپ بیان دے دیا۔ ان
کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ پنجاب کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ جو
لوگ پنجاب کا ماحول خراب کررہے تھے وہ آج دُم دبا کر بھاگ رہے ہیں۔ ماحول
خراب کرنے واں کا دم دبا کر بھاگنا کون سی فخر کی بات ہے ؟ پنجاب پولیس کا
کام ایک فراری مجرم کو بھگا کر جان چھڑانا نہیں بلکہ گرفتار کر کے جیل
پہنچانا ہے؟ کیجریوال کو یہ بتانا ہوگا کہ آخر بھگونت سنگھ مان کی سرکار
اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں کیوں ناکام ہوگئی ۔ یہ حرکت اگر قصداً سکھوں
کی ناراضی سے بچنے کے لیے کی گئی ہے تو پھر کمار وشواس کے پچھلے سال انتخاب
سے قبل لگائے جانے والے الزام کو تقویت ملتی جس میں کیجریوال کے حوالے سے
کہا گیا تھا کہ وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنیں گے یا آزاد ملک کے پہلے وزیر
اعظم بنیں گے ۔
اروند کیجریوال نے اپنے مذکورہ بیان میں یہ بھی کہا کہ ’’پنجاب کے اندر امن
و امان قائم رکھنے کے لیے اگر سخت فیصلے کرنے پڑیں تو ہم پیچھے نہیں ہٹیں
گے‘‘ ۔ سوال یہ ہے کہ وہ آگے کب بڑھیں گے؟ امرت پال معاملہ کے بعد
کیجریوال کے پرانے دوست کمار وشواس نے اپنے بیان کا حوالہ دے کر نیا ٹویٹ
کیا۔ انہوں نے لکھا دنیا بھر میں ہندوستانیوں، ہندوستانی اداروں اور مندروں
پر حملہ ۔ شہید اعظم بھگت سنگھ کو ان کی شہادت کے دن غدار کہنا ۔ یہ سب کچھ
اچانک نہیں ہورہا ہے۔ سال بھر پہلے خبردار کردیا گیا تھا لیکن اس وقت ملک
نے مذاق اڑا دیا تھا۔ کمار وشواس آگے لکھتے ہیں خطرہ بڑا ہے، لیکن دہلی کے
بونے کا منصوبہ سیاسی جماعت پکڑ نہیں پائیں گے۔ کمار وشواس نے چونکہ اس
معاملے کو پنجاب سے نکال کر پوری دنیا میں پھیلا دیا ہے اس لیے اُن حملوں
سے نمٹنے کی ذمہ داری اروند کیجریوال پر نہیں بلکہ مرکزی حکومت میں بیٹھے
وزیر خارجہ اور وزیر دفاع پر عائد ہوتی ہے۔ تو کیا اس ٹویٹ میں عام آدمی
پارٹی کے بجائے بی جے پی رہنماوں کو بونا کہا گیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو امرت
پال کا غصہ کہیں نرم چارہ کمار وشواس پر نہ پھوٹ پڑے؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ دہلی اور پنجاب کی ریاستی حکومتوں کو پولیس کی قیادت کا
تجربہ نہیں ہے لیکن اب تو یہ خبر گردش کررہی ہے کہ امرت پال پنجاب سے نکل
کر ہریانہ پہنچ گیا ۔ ہریانہ نے اندر پچھلے نو سال سے بی جے پی کے منوہر
لال کھٹر سرکار چلارہے ہیں ۔ آخر اور کتنا تجربہ چاہیے ؟ ہریانہ تو
راجدھانی دہلی سے متصل ہے۔ وہ وزیر داخلہ کے تحت کام کرنے والی دہلی پولیس
کی بھی مدد لے سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا؟اس بیچ ہریانہ کے
بدزبان گئو بھگت وزیر داخلہ انِل وِج کا شرمناک بیان سامنے آیا ۔ انہوں نے
کہا کہ ہریانہ پولیس نے پنجاب پولیس کو اطلاع دے دی تھی لیکن اس نے شاہ
آباد پہنچنے میں ڈیڑھ دن لگا دیا۔ وِج کے مطابق ’موسٹ وانٹیڈ‘ کے معاملے
میں بھی پنجاب سرکار کی سستی صاف نظر آرہی ہے۔ اس سے پنجاب سرکار کے سیاسی
ڈرامے کا پتہ چلتا ہے۔ ڈرامہ باز انِل وِج کو یہ بتانا چاہیے کہ کیا ان کی
ذمہ داری صرف اطلاع دینے کے بعد ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کی تھی۔ وہ
امرت پال کو حراست میں لے کراگلے دن پنجاب پولیس کے حوالے کرسکتے تھے ۔ اس
سے پتہ چلتا ہے کہ امرت پال کے ناٹک میں عام آدمی پارٹی کے ساتھ بھارتیہ
جنتا پارٹی بھی شامل ہے ۔ کوئی بھی اسے پکڑنا نہیں چاہتا۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ
مشکل سوال ہے۔
چوہا بلی کے اس کھیل میں امرت پال ہریانہ سے نکلتا ہے تو پنجاب پولیس
اتراکھنڈ کی جانب نکل جاتی ہے۔ اترا کھنڈ میں عرصۂ دراز سے بی جے پی برسرِ
اقتدار ہے ۔ وہاں پر بڑی بڑی دھرم سنسد کا اہتمام ہوتا ہے۔ قتل عام کا
اعلان کیا جاتا مگر کسی کا بال بیکا نہیں ہوتا اس لیے امرت پال کا اتراکھنڈ
کی طرف جانا قرین قیاس تھا لیکن اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اس کے دل میں بی
جے پی کا خوف بالکل نہیں ہے ورنہ وہ ہریانہ سے راجستھان بھی آسکتا تھا۔ اس
دوران پنجاب پولیس نے انکشاف کیا امرت پال کے گھر پر پاسپورٹ نہیں ملا یہ
کون سی بڑی بات ہے۔ کیا وہ اتنااحمق ہے جو اپنا پاسپورٹ گھر پر رکھ فرار
ہو۔ پولیس نے اندیشہ ظاہرکیا کہ وہ نیپال سرحد سے ملک چھوڑ دے گا ۔ اس لیے
بی ایس ایف کو ہوشیار کردیا گیا ۔ اس کے علاوہ کاشی پور میں اعلان کیا گیا
کہ اگر کسی نے امرت پال کو پناہ دی تو اس پر این ایس اے لگے گا اور اطلاع
دی تو انعام ملے گا لیکن امرت پال نے ان سارے اندازوں کو غلط ثابت کردیا ۔
ہفتہ کی صبح دہلی میں کشمیری گیٹ بس اڈے کے سی سی ٹی ٹی وی کیمروں میں امرت
پال نظر آگیا اور پنجاب پولیس نےا س کی جانچ پڑتال شروع کردی ۔ یہ خبر اگر
سچ ہے تو یہ سوال ضرور پیدا ہوگا کہ آخر اس نے دہلی آنے کی جرأت کیسے
کرڈالی؟ امیت شاہ اور امرت پال کا ’وہ رشتہ کیا کہلاتا ہے‘ جو اسے دہلی لے
آیا ۔ امرت پال کا دہلی پہنچ کر لوٹ جانا معمولی بات نہیں ہے۔ ایسے میں
مغلیہ سلطنت کے ولی عہد جواں بخت جہاندار کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
آخر گل اپنی صرف در مے کدہ ہوئی
پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|