وطن عزیز میں الیکشن کا اعلان ہوتے ہی جائزے آنےلگتے ہیں۔
عوام کو چونکہ ان میں بہت دلچسپی ہوتی ہےچینل والے اس کو نشرکرکے اپنی ٹی
آر پی بڑھاتےہیں ۔ کرناٹک اسمبلی انتخاب کی تاریخوں کے بعد سب سے پہلا
سروے اے بی پی چینل نے سی ووٹر کی مدد سے پیش کیا ۔ اس میں 25ہزار رائے
دہندگان کے ساتھ بات چیت کرنےکے بعد جو رجحان سامنے آیا اس سے بی جے پی کو
زور کا جھٹکا دھیرے سے لگا۔مذکورہ جائزے نے انکشاف کیا کہ وزیر اعلیٰ
بسوراج بومئی کی قیادت والی بی جے پی حکومت کے خلاف زبردست اقتدار مخالف
لہر چل رہی ہے۔ اس سروے نے کانگریس کو مکمل اکثریت کی نوید بھی سنادی ۔
سروے کے مطابق انتخابی ریاست میں بے روزگاری عوام کے نزدیک سب سے زیادہ اہم
مسئلہ ہے۔ اس آسیب نے پورے ملک کو اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا ہے مگر اکثر
لوگ اس کو بھول کر جذبات اور ذات پات کی بنیاد پر اپنے ووٹ کا استعمال کرکے
بعد میں پچھتاتے ہیں۔
کرناٹک کے لوگ ریاست کے اندر بنیادی ڈھانچے یعنی بجلی سڑک اور پانی وغیرہ
کولےکر بھی بہت پریشان ہیں۔ اس لیے بیروزگاری کے بعد سب سے زیادہ لوگوں نے
اس حوالے سے اپنی فکرمندی کا اظہار کیا ہے۔ کرناٹک کا شمار ملک کی ترقی
یافتہ ریاستوں میں ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ گاوں دیہات تو دور خود
راجدھانی بنگلورو میں ٹرافک کا بہت برا حال ہے۔ پچھلے دنوں شدید بارش ہوئی
تو شہر کے مہنگے مکانات بھی پانی میں ڈوب گئے ۔ اس سے بنگلورو کی ترقی
یافتہ شبیہ پر بھی پانی پھِر گیا ۔ کمل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کیچڑ
میں کھلتا ہے اب اس دلدل میں وہ دوبارہ کھِل سکے گا یا نہیں کوئی نہیں
جانتا۔ کرناٹک کے لوگوں میں 19فیصد کا تعلیم کو اہم مسئلہ سمجھنا قابل
تحسین ہے کیونکہ اس میدان میں بڑے پیمانے پر نجکاری نے معیاری تعلیم سے
متوسط طبقہ کو محروم کردیا ہے نیز غریب اور امیر کی تعلیم کے درمیان ایک
بہت بڑی کھائی بنادی ہے۔
ریاست کے عوام میں 12.7فیصد لوگوں نے بدعنوانی کو چوتھے مقام پر رکھا ہے۔ ا
س سےظاہر ہوتا ہے کہ اب لوگ کرپشن کو طرزِ حیات کے طور پر اپنا چکے ہیں
ورنہ ایک ایسا صوبہ جہاں خود سنگھ سے تعلق رکھنے والے ٹھیکیدار خود کشی
کرنے پر مجبور ہوں اور وزیر کا بیٹا رشوت لیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا جائے
یہی سب سے بڑا مدعا ہونا چاہیے ۔ حد تو یہ کہ عدالت نے اس وزیرکی عبوری
ضمانت کے خاتمہ پر جیل بھیج دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بدعنوانی اب ایک عام
ہندوستانی کے رگ و پے میں سما چکی ہے اس لیے اس کو الجھن نہیں ہوتی۔انتخاب
پر اثر انداز ہونے والے مسائل میں لنگایت کو اقلیتی درجہ اور حجاب تنازع
30.8 فیصد لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔ مذہبی فرقہ واریت 24.8 فیصد لوگوں کے
لیے اہم ہے ۔ ایک زمانے میں کاویر ی ندی کا پانی ایک سلگتا مسئلہ ہوا کرتا
تھا لیکن اب صرف 14.6 لوگ اس کی جانب متوجہ ہیں۔ قوم پرستی اور تشخص کی
سیاست 6.8 فیصد لوگوں کے لیے اہم ہے۔ پے درپے قتل و غارتگری (سیریل کلنگ )
نے 6.1 فیصد لوگوں کو بے چین کیا ہے۔
بی جے پی نے سی اے اے اور این آر سی وغیرہ سے بڑی توقعات وابستہ کررکھی
تھی لیکن کرناٹک کے صرف 1.2 فیصد لوگ اس کو اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں ۔ ملک
بھر میں یہی حالت ہے اس لیے اسے ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا ہے۔ نظم و نسق
اور خواتین کا تحفظ بھی 2.9 فیصد لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا سکا ہے۔
کورونا کے دوران حکومت کی نااہلی بڑے پیمانے پر سامنے آئی اور یدورپاّ کے
جانے کی ایک وجہ بنی مگر اس کو لوگ بھول گئے اور ا ب 4 فیصد لوگوں کو یاد
ہے ۔ ملک میں کسانوں کی زبردست تحریک چلی لیکن زراعت کا مسئلہ 3.5 لوگوں کو
اپنی جانب راغب کرسکا ۔ مسلمانوں کو ریزرویشن سے محروم کرنے کا فائدہ تو
نہیں ہوا بلکہ یہ داوں الٹا پڑچکا ہے۔ اس کے سبب بنجارہ سماج نے بی جے پی
کے مقبول ترین رہنما یدورپاّ کے گھر پر پتھراو تک کرڈالا۔ اس لیے بی جے پی
کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ناراض درج ذیل ذاتوں کو کیسے اپنے سے قریب
کرے؟
کرناٹک میں 13.3 فیصد ریاستی سرکار کی کارکردگی کو بنیاد بناکر ووٹ دینا
چاہتے ہیں۔ اس سروے کے مطابق 50.5 فیصد رائے دہندگان نے بی جے پی حکومت کی
کارکردگی کو ’خراب‘ بتایا ہے۔ اس کے برعکس صرف 27.7 فیصد بھگتوں نے اس گئی
گزری حکومت کو ’اچھا‘ کہا کیونکہ ان کی آنکھوں پر زعفرانی پٹی بندھی ہے۔
ریاست میں 21.8 فیصد ایسے رائے دہندگان بھی ہیں جو اس سرکار کی کارکردگی کو
’اوسط‘ درجہ میں رکھتے ہیں۔ یہی لوگ اگلی حکومت بنائیں گے یعنی یہ جس پارٹی
کے ساتھ جائیں گے وہ سرکار بنائے گی۔ حکومت اور وزیر اعلیٰ کی کارکردگی بھی
بالکل مشابہ ہے یعنی 46.9 فیصد بسوراج بومئی کو ’خراب‘جبکہ صرف 26.8 فیصد
’اچھا‘ بتاتےہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کے طور پر جہاں 31.1 فیصد نے
بومئی کے حامی ہیں تو 39.1 فیصد کی پہلے پسند کانگریس کے رہنما سدارمیا ہیں
۔
اے بی پی کا شمار بھی گودی میڈیا میں ہوتا ہے اس کے باوجود اس نے کانگریس
کو 115 سے 127 کے درمیان سیٹیں دے کر بی جے پی کو68سے80 تک سمیٹ دیا ہے ۔
ویسے آر ایس ایس کا داخلی جائزہ بھی بی جے پی کی 70 سے75کے درمیان رہنے کی
توقع کررہا ہے۔ جنتا دل ایس کی حالت بہت خراب ہے اور اے بی پی نے تو اس کو
صرف 23سے35 سیٹ ملنے کی پیشنگوئی کی ہےاس سروے میں کانگریس کا ووٹ شیئر
2018 کے 38 فیصد سے بڑھ کر اس بار 40.1 فیصدتک پہنچ گیا ہے۔ بی جے پی کا
پہلے بھی کم تھا اب اور کم ہوگیا ہوگا۔پچھلی بار کانگریس نے جنتا دل کے
ساتھ الحاق کرکے انتخاب لڑا تھا لیکن اس بار دونوں ایک دوسرے کے خلاف
الیکشن لڑ رہے ہیں ۔ اس وجہ سے بہت سارے لوگ فکرمند ہوگئے ہیں لیکن انتخابی
سیاست کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ کرناٹک کے اندر جنتادل کی جڑیں بی جے پی سے
پرانی ہیں ۔ اس وقت ریاست میں کانگریس سب سے بڑی جماعت ہوا کرتی تھی اور اس
سے ناراض عناصر جنتا پریوار میں ہوا کرتے تھے۔ ان میں سے بہت سارے لوگ اب
بھی کانگریس کے مخالف ہیں ۔ جنتا دل ایس جب کانگریس کے ساتھ الحاق کرتی ہے
تو وہ رائے دہندگان مجبوراً بی جے پی کی جھولی میں چلے جاتے ہیں اور اس کا
فائدہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے یہ سوچنا کہ جنتا دل کے الگ سے لڑنے کا بی جے پی
کو فائدہ ہی ہوگا درست نہیں ہے۔
سیاسی اتحاد کی صورت میں بہت ساری نشستوں کو چھوڑنا پڑتا ہے ۔ اس سے مقامی
رہنماوں میں بددلی بڑھتی ہے اور کبھی کبھار بغاوت میں بھی بدل جاتی ہے۔ اس
لیے الحاق کا معاملہ دو جمع دو چار جیسا نہیں ہوتا ، بہت سارے پہلو پیش نظر
رکھنے پڑتے ہیں۔کرناٹک میں فی الحال ہوا کا رخ دیکھ کر کئی لوگ کانگریس میں
لوٹنے لگے ہیں۔پہلے تو دوارکان قانون ساز کونسل بی جے پی سے کانگریس میں
آئے ۔ اس کے بعد ایک رکن اسمبلی سری نواس بھی جنتا دل ایس سے نکل کر
کانگریس میں شامل ہوگئے ۔ ان سے قبل بی جے پی کے ارکان اسمبلی پٹاّ نا اور
بابو راو چنچنسور کانگریس میں آگئے تھے۔ بابو راو نے کانگریس چھوڑنے کے
بعد گلبرگہ سے کانگریس کے صدر ملک ارجن کھرگے کو ہرانے میں بہت اہم کردار
ادا کیا تھا۔ ان کے علاوہ سابق ہاوسنگ بورڈ کے صدر مڈگیری جو ایس ایم کرشنا
کے ساتھ بی جے پی میں چلے گئے تھے کانگریس میں لوٹ آئے ہیں۔ منڈیا سے بی
جے پی کے ایک اہم رہنما نے بھی کانگریس کی رکنیت اختیار کرلی ہے۔ سری نواس
کی آمد سے جے ڈی ایس کے گڑھ میسور میں کانگریس مضبوط ہوگی ۔ ان کو شامل
کرتے ہوئے کانگریس کے صوبائی صدر شیوکمار نے دعویٰ کیا کہ کانگریس میں آنے
کے خواہشمندوں کی طویل فہرست ہے۔
سرینواس کے والدچونکہ کانگریس میں تھے اس لیے سابق وزیر اعلیٰ سدارمیا نے
اسے گھر واپسی قرار دیا ہے۔انہوں نے اس موقع پر نے دعویٰ کیا کہ کانگریس
تنہا کرناٹک کو بی جے پی کے چنگل سے نکال کر اقتدار میں آسکتی ہے۔ اے بی
پی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ جس طرح مودی اور شاہ گجرات کے رائے
دہندگان کو متاثر کرتے ہیں اسی طرح ملک ارجن کھرگے کرناٹک میں کتنے موثر
ثابت ہوں گے ؟ مودانی فیکٹر اور راہل گاندھی کی برخواستگی کے تعلق سے بھی
یہ سروے خاموش ہے ۔ کولار کی تقریر نے راہل پر عتاب برسایا اب وہ وہیں سے
انتخابی مہم کا آغاز کرنے جارہے ہیں کیونکہ ساورکر اور گاندھی میں یہی فرق
ہے۔ اس دلیری کے مظاہرے سے نہ صرف بی جے پی کے حوصلے پست ہوں گے بلکہ عوام
کا جوش و خروش بھی بڑھے گا۔ ان سب کے اثرات انتخابی نتائج پر کس حد تک پڑیں
گے یہ وقت بتائے گا ۔ اس میں شک نہیں کہ کرناٹک کے اندر اگر سروے کی
پیشنگوئی کے مطابق بی جے پی ہار جاتی ہے تو اس کے بعد والے صوبائی اور قومی
انتخاب میں اس کی مشکلات میں اضافہ ہوگا ۔ اے بی پی کا جائزہ اگر درست نکل
جائے تو بی جے پی کی حالت پر میر تقی میر کا یہ شعر ترمیم کے ساتھ صادق
آجائے گا؎
ابتدائے ہار میں روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
|