زیڈ اے بھٹو کا بلاول کی شکل میں دوسرا جنم

آج میں 4 اپریل 1979ء کوایک عالمی سازش، ریاستی جبر اور ایک انتہائی متنازعہ عدالتی فیصلے کے بعد پھانسی پا کر امر ہو جانے والی ایک عظیم المرتبت ہستی کے انتہائی قابل رشک سیاسی کیرئر اورعروج و زوال کاخلاصہ بہت قلیل الفاظوں میں بند کرنے جارہاہوں ،پاکستان نے تاریخی لحاظ سے آج تک ذوالفقار علی بھٹوؒ سے بڑا، ذہین و باکمال لیڈر، سیاستدان اور حکمران نہیں دیکھاجسے صرف پاکستا ن ہی نہیں بلکہ پوری دنیا تسلیم کرتی ہے آخرذوالفقار علی بھٹو تھاکون ؟ جس کا نام آج بھی کئی دہائیاں گرزنے کے باوجود روزانہ کی بنیادپر لیا جاتاہے جس نے دنیاکو سیاست کرنا سکھادیا،ایک سحر انگیز باکمال شخصیت، عوامی مقبولیت اور قومی خدمت میں جس کا دور دور تک کوئی مقابلہ نہ تھا،ذوالفقار علی بھٹو5جنوری 1928کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے ان کے والد سرشاہنواز بھٹو بھی نہایت قدر آور سیاسی شخصیت کے مالک تھے ،ذوالفقار علی بھٹو نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انیس سو پچاس میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا سے سیاست کی ڈگری لی ،انیس سو باون میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصول قانون میں ماسٹر زکیا،تعلیم مکمل ہوئی تو انہوں نے کراچی میں وکالت کا آغاز کردیااور ساتھ ہی ایس ایم لاء کالج میں بین الاقوامی قانون پڑھانا شروع کیا۔ سیاسی اعتبار سے زوالفقار علی بھٹو نے حقیقی سیاست کا آغاز انیس سو اٹھاون سے شروع کیا ،اور جنرل ایوب کے دور میں وزیرتجارت وزیراقلیتی اموروزیرصنعت وقدرتی وسائل اوروزیرخارجہ کے قلمدان پر فائز رہے ،اس دوران ستمبر 1965کا یاد گار دن جب انہوں نے پاکستان کے موقف کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھرپور انداز میں پیش کیا جس نے امت مسلمہ اور دنیا عالم کے بڑے بڑے نامور حکمرانوں کو ہلا کر رکھ دیا۔شہید زوالفقار علی بھٹوجس نے اپنی صرف 51 سالہ زندگی میں لوگوں کے دلوں میں وہ مقام و مرتبہ حاصل کیا جو تاریخ میں شاید ہی کسی سیاسی لیڈر کے حصے میں آیا ہوں،آج تک پاکستانی عوام شہید ذوالفقار علی بھٹوؒ کی شخصیت کے کمال جادو کے زیر اثر ہے یہ ہی وجہ ہے کہ زندہ بھٹو نے 2 بار اور مردہ بھٹو نے 3 بارانتخابات جیتے ۔ بھٹوکی بیٹی محترمہ بے نظیربھٹو، اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنی۔ بھٹو کا داماد آصف علی زرداری، صدر بنا اور نصف صدی بعد آج بھی بھٹو کا بھٹو کا نواسہ بلاول بھٹو زرداری اسی انداز سیاست کے ساتھ پوری دنیا میں کامیاب سفارت کاری کے جھنڈے گاڑ رہاہے بھٹو صاحب کی تاریخ عالم میں ایسی لا زوال شہرت و مقبولیت کی حامل طلسماتی شخصیت کی شاید ہی کوئی اور مثال جگہ لے سکے فی الحال ابھی تک ممکن نہ ہوسکاہے۔ایوب خان کے 11 سالہ اقتدار کا سحر اگر کسی نے توڑا تو وہ ذوالفقار علی بھٹو تھا۔ سنہ 1966 سے 1971 کے برسوں میں یوں لگتا تھا کہ جیسے عوام اور ذوالفقار علی بھٹو ایک دوسرے کے لیے ہی بنے ہیں۔بھٹو نے بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اعلیٰ سطحی تفصیلی مذاکرات کیے تھے۔ جب گھی سیدھی انگلی سے نہ نکل پایا تو اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ایوب خان کو کشمیر کی آزادی کے لئے 1965ء کی جنگ کی تجویز دی تھی،بھٹو صاحب نے انیس سو سڑسٹھ میں پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی جو دیکھتے ہی دیکھتے اس ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن چکی تھی، پاکستان کاایٹمی پروگرام شروع کرنے کا سہرا بھی شہید زوالفقار علی بھٹو کے سر جاتاہے۔بھٹو صاحب نے اپنی پہلی فرصت میں ایک آئین ساز کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے سربراہ میاں محمود علی قصوری تھے۔ صرف پانچ ماہ کی قلیل مدت میں عبوری آئین بنا تھا جو سابقہ دونوں دستوروں 1956ء اور 1962ء کی طرح صدارتی آئین تھا۔ 14 اپریل 1972ء کو قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوا تھا جس میں بھٹو صاحب، صدر، وزیر خارجہ، وزیر داخلہ اور وزیر دفاع کے علاوہ سپیکر اسمبلی بھی منتخب ہوگئے تھے۔ 17 اپریل کو اسمبلی نے عبوری آئین منظور کر لیا تھا جو 21 اپریل 1972ء کو نافذالعمل ہوا اور اس طرح سے 25 مارچ 1969ء سے جاری مارشل لاء ختم ہوگیا تھا۔پی این اے کی تحریک کی آڑ میں بھٹو کی حکومت ختم کرنے والے ضیا الحق نے بھٹو کے جسمانی خاتمے کے لیے بھی اپوزیشن کو استعمال کیا۔ اگست 1978 میں بننے والی 21 رکنی کابینہ میں سے 12 کا تعلق پی این اے سے تھا۔ جن کی وزارتوں کی مدت بھٹو کی موت کے ایک ہفتے بعد ہی ختم ہو گئی۔قومی اتحاد کے سیاست دانوں کے علاوہ ضیاالحق نے بھٹو کی سیاسی اور جسمانی موت کے لیے عدلیہ کو کیسے استعمال کیا،ذوالفقار علی بھٹو کی عنایت سے فوج کے سربراہ اور اپنی موقع پرستانہ حکمت عملی سے ملک کے حکمران بننے والے ضیا الحق نے 90 دنوں میں انتخابات کا وعدہ کیا تھا۔ مارشل لا کے نفاذ کے بعد یکم اگست سے سیاسی سرگرمیوں کی بحالی شروع ہوگی۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس کے ایم صمدانی نے 13 ستمبر کو زیر حراست ذوالفقار علی بھٹو کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔رہائی کے بعد جب وہ مختصر دورے پر لاہور پہنچ گئے تو جیسے سارا شہر ان کے استقبال کو اُمڈ آیا۔اس والہانہ استقبال نے بھٹو کے مخالفین کا سکھ چین چھین لیا تھا۔ انہیں محسوس ہوا کہ ابھی بھٹو ناکام نہیں ہوا۔ اس موقع پر الیکشن کا مطلب بھٹو کی نئی طاقت و توانائی کے ساتھ واپسی تھا۔سترہ ستمبر کو انہیں مارشل لا ریگولیشن کے تحت دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ضیا الحق نے 29 ستمبر کو انتخابات ملتوی کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی بھٹو کو راستے سے ہٹانے کے منصوبے پر کام شروع کر دیا۔معروف ماہر قانون حامد خان ایڈووکیٹ اپنی کتاب ’پاکستان کی آئینی و سیاسی تاریخ‘ میں لکھتے ہیں ’مولوی مشتاق احمد نے بینچ کا انتخاب بہت احتیاط سے کیا۔ ذکی الدین پال پرانا مسلم لیگی تھا جو بھٹو کا سخت مخالف تھا۔ آفتاب حسین مولوی مشتاق کا منظور نظر تھا اور اس نے اسی کے مطابق چلنا تھا۔باقی دو ججز اختلافی فیصلے نہ لکھنے کی وجہ سے مشہور تھے۔تاریخی کتابوں کے مطابق مولوی مشتاق کا بھٹو سے ذاتی عناد اور نفرت ڈھکی چھپی نہ تھی۔ ان کے دور میں لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بننے کی جنون کی حد تک خواہش میں انہوں نے سپریم کورٹ کا جج بننا بھی قبول نہ کیا۔ بھٹو کی حکومت نے ان سے آٹھ سال جونیئر جسٹس اسلم ریاض کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بنایا۔انہوں نے استعفیٰ نہ دیا مگر بھٹو کے خلاف دل میں مستقل عناد پال لیا۔ضیا الحق نے اس ذاتی رنجش کا فائدہ اٹھانے کے لیے انھیں قائم مقام چیف جسٹس بنایا۔ذوالفقار علی بھٹو اس کی نفرت سے واقف تھے اس لیے انہوں نے ٹرائل کورٹ کا بائیکاٹ کر دیا۔ مقدمے کی منتقلی کی ان کی درخواست کو بھی مولوی مشتاق نے اپنے چیمبر میں سماعت کے بعد مسترد کیا۔فیڈرل سکیورٹی فورس کے دیگر چار اہلکاروں کا ٹرائل بھی اسی مقدمے میں ہو رہا تھا۔ ابتدا میں کورٹ کی کارروائی عام لوگوں کے لیے کھلی تھی مگر 25 جنوری 1978 کے بعد اسے خفیہ قرار دے دیا گیا۔ 18 مارچ 1978 کو ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں تمام ملزمان کو مجرمانہ سازش اور قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی۔جسٹس آفتاب حسین کے تحریر کردہ فیصلے میں بھٹو کے اسلامی روایات کی پاسداری پر غیر ضروری سوالات بھی اٹھائے گئے۔ مزید برآں وزیراعظم کے عہدے کے لیے نااہل اور حلف کی خلاف ورزی کرنے والا قرار دیا گیا۔ان تمام الزامات کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہ تھا۔ عمومی طور پر قتل میں شریک مجرم کو سزائے موت نہیں دی جاتی۔ عدالتی تاریخ میں اس حوالے سے یہ فیصلہ قانونی تضادات کا مجموعہ تھا۔بھٹو صاحب کے عظیم کارناموں سے تاریخ بھری پڑی ہے اس ملک کاآئین ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے ،آج ہمارا ملک ایٹمی قوت بھی بھٹو صاحب کی وجہ سے ہے اس کے علاوہ ان کے دور میں 18 سال سے زائد عمر کے افراد کے لئے قومی شناختی کارڈ کا حصول لازمی قرار دیا گیا تھا۔ ملازمت، ڈرائیونگ لائسنس، عدالتی کاروائیوں، پاسپورٹ اور راشن کارڈ کے حصول کے لئے شناختی کارڈ لازمی قرار دیا گیا تھا۔ بعد میں انتخابات میں وؤٹ ڈالنے کے لیے بھی شناختی کارڈ کی شرط تھی۔ NADRA کے کارڈز اسی قانون کی ترقی یافتہ شکل ہیں۔قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے عظیم کارنامے پر وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کو سچا عاشق رسول ﷺ قرار دیا گیا تھا اور اس واقعہ کو ان کی نجات کا ذریعہ بھی بیان کیا گیا تھا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی محترمہ بی بی شہید بے نظیر بھٹو نے بھی اپنے والد کے بعد جس انداز میں پارٹی سنبھالی اور پاکستان کی عوامی کی خدمت کا سلسلہ جاری رکھا اس کی مثال نہیں ملتی ، محترمہ بے نظیر بھٹو کی تربیت ان کے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کی زیر نگرانی ہوئی تھی، شاید یہی وجہ تھی کہ رموز سیاست ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا تھا ایک طویل عرصہ تک محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے والد شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی زندگی کو قریب سے دیکھتی رہیں اسی جدوجہد سے وزیراعظم بنیں اور دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا، بے نظیر کی شہادت کے بعد ان کی بیٹی آصفہ بھٹو اور پھوپھو محترمہ فریال ٹالپر خواتین کے لیئے رول ماڈل بنیں، اور سب سے بڑھ کر بی بی شہید کا بیٹا اور بھٹو کا نواسہ بلاول بھٹو زرداری کو جب اپنی ماں محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے محض تین دن بعد 30 دسمبر 2007ء کو صرف 19 سال کی عمر میں پاکستان پیپلز پارٹی کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا،شہید ذوالفقار علی بھٹو آج بھی اپنے نواسے بلاول بھٹو کی شکل میں زندہ و جلا ل ہیں کیونکہ بلاول بھٹو نے بھی بالکل اپنے نانا کی طرح سیاسی کیئریئر کا آغاز کیا ہے شہید ذوالفقار علی بھٹو بھی وزیر خارجہ بنے تھے اور بلاول بھٹو بھی وزیر خارجہ بن کر ساری دنیا میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں، بلاول بھٹو کی گفتگو، تقاریر اور انٹرویو میں شہید بھٹو کی جھلک نظر آتی ہے بلاول بھٹو پاکستانی قوم کے حقوق اور پاکستان کے موقف کی جنگ پوری دنیا سے لڑ رہا ہے ، بلاول بھٹو کے انداز سے آج بھی ایسا لگتا ہے کہ شہید بھٹو اپنے نواسے کی شکل میں زندہ اور عوامی خدمت کر رہا ہے،اپنے سیاسی کیئریئر کے آغاز اور اپنی پہلی تقریر میں بلاول بھٹو نے اپنی ماں کا یہ مشہور جملہ دھرایا تھا کہ''جمہوریت بہترین انتقام ہے ، لہذا ان انمول اور تاریخی واقعات نے ہر موڑ پر ثابت کیاہے کہ بھٹو زندہ تھا اور رہے گا۔ختم شد۔
 

Yasir Khan Babar
About the Author: Yasir Khan Babar Read More Articles by Yasir Khan Babar: 2 Articles with 1292 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.