امسال نصف رمضان دو خوشخبریوں کے ساتھ آیا۔ پہلی نوید تو
تبدیلی مذہب کے جھوٹے مقدمہ میں گرفتار مبلغ اسلام مولانا کلیم صدیقی
کوملنے والی ضمانت ہے ۔دوسری اچھی خبرجماعت اسلامی ہند کےزیر سرپرستی میں
چلنے والے ٹیلی ویژن چینل میڈیا ون کے لائسنس کی تجدید عدالتِ عظمیٰ سے حکم
نامہ ہے ۔ الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے پچھلے ڈیڑھ سال سے جیل میں
مقید مولانا کلیم صدیقی کی ضمانت منظور کرکے اہل ایمان کا دل خوش کردیا۔ ان
پر جبری تبدیلی ٔمذہب کے بے بنیاد الزام لگا کر میرٹھ سے ستمبر 2021 کو
اترپردیش کی اے ٹی ایس نے گرفتار کرلیا تھا۔ اول تو اسلام دین کے معاملے
میں زبردستی کی ممانعت کرتا ہے دوسرے مودی اور یوگی کے ہوتے یہ کیونکر ممکن
ہے لیکن اگر کوئی حکومت کے ایماء پر بہتان تراشی کرنے لگے تو کچھ بھی
کرسکتا ہے۔ مولانا کے خلاف چونکہ نہایت سنگین الزامات لگائے گئے اس لیے کئی
مرتبہ ضمانت کی درخواست دینے کے باوجود ہائی کورٹ اسے مسترد کرتا رہا۔ تاہم
سپریم کورٹ میں ان کے ایک ساتھی عرفان خان کی کامیابی کے بعد ہوا کا رخ
بدلا ۔ اس رمضان میں رہائی کی خوشخبری آگئی اور مولانا اس سال اپنے اہل
خانہ کے ساتھ عید منائیں گے ان شاء اللہ۔
بیباک ملیالم چینل میڈیا ون کے حق میں عدالتِ عظمیٰ کا حالیہ فیصلہ ایک بے
مثال کامیابی ہے۔ملک فی الحال ’متر کالّ سے گزر رہا ہے۔ اس دورِ رفاقت میں
این ڈی ٹی وی جیسی آزاد آواز کا گلا گھونٹنے کے لیے مودی جی کےدوست گوتم
اڈانی اس کو چور دروازے سے خرید لیتے ہیں۔ ایسے میں میڈیا ون کا حکومت کے
خلاف ڈٹ کر سرخرو اللہ تبارک و تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے۔ ملک کا میڈیا کم
وبیش سرکار کے آگے ایچ ایم وی ‘ (ہز ماسٹرس وائس) کی علامت بنا ہوا ہے۔ اس
کو جب بھونکنے کا حکم دیا جاتا ہے تو گلا پھاڑ کربھونکتا ہے اور اشارہ ملتے
ہی خاموش ہوجاتا ہے۔ ایسے میں ذرائع ابلاغ کی حالتِ زار پر سمپت سرل کا یہ
مصرع صادق آتا ہے کہ’ پہلے اخبار چھپنے کے بعد بکتا تھا اب بکنے کے بعد
چھپتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ پہلے ٹیلی ویژن چینلس پر خبروں کے درمیان
اشتہار دکھائے جاتے تھے اب اشتہار کے بیچ جھوٹی سچی خبریں نشر ہوتی ہیں ۔
جبر کے اس دور میں جب کوئی چینل حکومت کے آگے دُم ہلانے سے انکار کردے تو
اسے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے اور خوفزدہ نہ ہو تو اس کا اجازت نامہ منسوخ
کردیا جاتاہے۔
جماعت اسلامی ہند کے رفقاء کی جانب سے چلائے جانے والے ملیالم نیوز چینل
میڈیا ون کو این آر سی ، سی اے اے اور حکومت کی دیگر ظالمانہ فیصلوں کی
مخالفت کے سبب ابتلاء و آزمائش سے گزرنا پڑا مگر خدا کا شکر ہے کہ وہ
کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہوا۔ اس طرح میڈیا ون کا بول بالا اور حکومت
کا منہ کالا ہوگیا۔ اس حکومت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنے مخالفین کا
نظریاتی یا سیاسی سطح پر مقابلہ نہیں کرپاتی تو کبھی افراد پر فساد کا
مقدمہ بناکر انہیں پابندِ سلاسل کردیا جاتا ہے تو کبھی اجازت نامہ منسوخ کر
دستور زباں بندی نافذ کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے تاریخی فیصلے میں
سیکیورٹی کلیئرنس نہ ہونے پر میڈیا ون چینل کے نشریاتی لائسنس کی تجدید سے
انکار کرنے والے وزارت اطلاعات و نشریات کے حکم کو کالعدم قرار دے دیا۔
مرکزی حکومت نے وزارت داخلہ کی طرف سے سیکورٹی کلیئرنس نہ ملنے کی وجہ سے
میڈیا ون چینل کے نشریاتی لائسنس کی تجدید کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ گزشتہ
سال 31 جنوری کوقومی سلامتی کا حوالہ دیتے ہوئے ملیالم چینل میڈیا ون کا
اجازت نامہ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
مرکزی حکومت کی طرف سے چینل کے نشریاتی اجازت نامہ کی منسوخی کی عدالت میں
کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی بلکہ ایک بند لفافہ ہائی کورٹ کو تھما دیا گیا
اور بغیر کوئی معقول بتائے متعلقہ عدالت سرخمِ تسلیم کرلیا ۔ اس طرح کی
زیادتی اگر کیرالا میں ہوسکتی ہے تو اترپردیش کی عدالتوں سے کیا توقع کی
جائے؟ میڈیا ون نے ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو
وہ جسٹس ڈی وائی چندرچوڈ کی صدارت والی جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس وکرم ناتھ
کی بنچ کے سامنے زیر سماعت آیا ۔ اس نے مرکز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا
کہ وہ ہائی کورٹ کے سامنے پیش کی گئی خفیہ فائلوں کو ریکارڈ پر رکھے ۔سپریم
کورٹ نے چینل کی خدمات عبوری طور پر پھر سے شروع کرنے کی اپیل پر 15 مارچ
کو غوروخوض کرکے اس کی اجازت دے دی۔ وہ مودی سرکار کے لیے ایک بڑا جھٹکا
تھا ۔ اس سے عدالت کے رخ تو اندازہ ہوگیا تھا ۔ اس وقت سینئر وکیل دشینت
دوے نے جلد سماعت کی اپیل کی تھی اس کے باوجود حتمی فیصلہ آنے میں ایک سال
سے زیادہ کا وقت لگ گیا۔
میڈیا ون کے مقدمہ کی سماعت چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس
ہیما کوہلی کی ڈویژن بنچ نے کی اور اپنے فیصلے میں وزارت کو ہدایت دی کہ وہ
چار ہفتوں کے اندر چینل کو تجدید کا لائسنس جاری کرے۔ اس کو کہتے ہیں لاتوں
کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ۔ وزارت اگر عدالت کے پچھلے فیصلے سے اندازہ
لگا کر پہلے ہی اقدام کردیتی تو اس پھٹکار سے بچ سکتی تھی ۔ اس موقع کا
فائدہ اٹھا کر سپریم کورٹ نے قومی سلامتی اور پریس کی آزادی کے بارے میں
حکومت کی دست درازی پر قدغن لگانے کی حتی الامکان کوشش کی۔ عدالتِ عظمیٰ کے
فیصلے میں صاف درج ہے کہ موجودہ ریاست شہریوں کو ان کے حقوق سے محروم کر نے
کے لیےقومی سلامتی کی دلیل کے طور پر استعمال کررہی ہے اور اس کا ایسا کرنا
قانون کی حکمرانی سے متصادم ہے۔ مودی راج کا اصول ہے ’ہم کریں سو قائدہ‘۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ قومی سلامتی سے متعلق معاملات میں ریاست غیر
جانبداری نہیں برتنی چاہیے ۔ اس کے کئی نمونے ماضی میں سامنے آچکے ہیں۔
ارنب گوسوامی جیسے پالتو صحافی کر دی جانے والی خصوصی مراعات اور امن چوپڑا
کو گرفتاری سے بچانے کے لیے اترپردیش کی پولیس نے اپنی حراست میں لینا اس
کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اس کے برعکس صدیق کپن اور محمد زبیر جیسے بیباک
صحافیوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ یہی حال چینلس کا بھی ہے اپنے چہیتوں پر
سرکار کی جانب سے اشتہارات برستے ہیں اور حق پسندوں پر پابندیاں عائد ہوتی
ہیں ۔
عدالت عظمیٰ نے یاد دلایا کہ ذرائع ابلاغ کا فرض اقتدار کے سامنے سچ بولنا
اور شہریوں کوبلاروک ٹوک حقائق سے آگاہ کرناہے۔ سرکاری پالیسی کی مخالفت
اور چینل کے تنقیدی خیالات کو حکومت سے بغاوت نہیں قرار دیا جانا چاہیے۔
پریس سے ہمیشہ حکومت کا ساتھ دینے کی توقع درست نہیں ہے۔ عدالت کے مطابق
ایک آزاد پریس مضبوط جمہوریت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔ حکومتی پالیسی پر
تنقید کو آئین کی دفع 19(2) کے تحت کچلنا درست نہیں ہے ۔ بنچ کے مطابق کسی
چینل کے لائسنس کی تجدید نہ کرنا آزادی اظہار کے حق پر قدغن ہے ۔فیصلے میں
مزید کہا گیا ہے کہ چینل کے شیئر ہولڈرز کی جماعت اسلامی ہند سے مبینہ
وابستگی چینل کے حقوق کو محدود کرنے کا جواز نہیں ہے۔ ویسے اس تعلق کو
دکھانے کا مواد بھی استغاثہ نہیں پیش کرسکا۔ عدالت کے مطابق جماعت اسلامی
ہند پر کوئی پابندی بھی نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے متنبہ کیا کہ فطری انصاف کے
اصول قومی سلامتی کے خطرے میں ہونے پر ہی خارج کیے جا سکتے ہیں نیز یہ
دعویٰ ہلکے پھلکے انداز میں نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی تائیدمیں مضبوط حقائق
کا ہونا ضروری ہے۔عدالت عظمیٰ نے زور دے کر کہا کہ سماجی- اقتصادی سے لے کر
سیاسی نظریات تک کے مسائل پر یکساں نقطہ نظر جمہوریت کے لیے سنگین خطرہ بن
جائے گا۔ سپریم کورٹ نے اس کیس میں اپنائی گئی مہربند کور کارروائی پر بھی
تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "تمام تحقیقاتی رپورٹس کو خفیہ نہیں کہا جا سکتا
کیونکہ وہ شہریوں کے حقوق اور آزادی کو متاثر کرتی ہیں۔
اس ماہ پہلی تاریخ کو مولانا کلیم صدیقی کے ساتھ گرفتار ہونے والے عرفان
خواجہ خان کی دیر شام جیل سے رہائی ہوئی۔ عرفان چونکہ اس مقدمہ کا پہلا
ملزم ہے اس لیے اس سے اندازہ ہوگیا تھا کہ سرکار کے پاس ان بے قصور لوگوں
کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے ۔ عرفان کی ضمانت 22؍ فروری کو سپریم کورٹ
آف انڈیا نے منظور کی تھی لیکن دستاویزات کی تصدیق کرنے میں اتر پردیش اے
ٹی ایس نے چالیس دن کا وقت لگا دیا۔ اس دوران اے ٹی ایس کو جلداز جلد کاغذی
کارروائی کرنے پر مجبور کرنے کے لیے سیشن عدالت سے رجوع کیا گیا اس نے
ہدایت بھی دی لیکن یوگی کی اے ٹی ایس پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس مقدمہ
میں اہم کردار ادا کرنے والے گلزار اعظمی نے اے ٹی ایس والوں کے ذریعہ
کاغذات کی تصدیق میں مبینہ ٹال مٹول کےمظاہرے کی وجہ سے ملزم کی جیل سے
رہائی میں تاخیر پر ناراضی کا اظہار کیا۔ عرفان خان کو تقریباً 23؍ ماہ جیل
میں گذارنے کے بعد رہائی ملی۔اس ضمانت کی بنیادپر ڈاکٹر فراز شاہ کو بھی
لکھنو سے ضمانت مل گئی۔
اس معاملے میں اے ٹی ایس نے مولانا عمر گوتم اور مفتی قاضی جہانگیر قاسمی،
مولانا کلیم صدیقی سمیت کل 17ملزمین کو جبراً تبدیلی مذہب کے الزام میں
گرفتار کیا تھا ۔ ان پر پیسوں کا لالچ دے کر مذہب تبدیل کروانےبہتان تراشا
گیا تھا ۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ وہ ان کی شادیاں بھی کراتے تھے
حالانکہ مولانا عمر گوتم تو ان کے کاغذات بنوانے میں تعاون کرتے تھے لیکن
اے ٹی ایس نے اس معاملے کو غلط ڈھنگ سے پیش کیا۔ پولس جب جھوٹ بولنے پر
آتی ہے تو کچھ بھی بولتی ہے۔ اس نے ان سب کا ممنو عہ تنظیم داعش سے تعلق
جوڑ کر غیر ملکی فنڈنگ کا بھی الزام عائد کردیا۔ یہ من گھڑت باتیں عدالت
عظمیٰ میں ٹھہر نہیں سکیں اور عرفان خان کی رہائی سے یہ سلسلہ چل پڑا۔ اس
کے بعد امید تھی کہ مولانا کلیم صدیقی بھی جلد رہا ہوں گے سووہ بھی ہوگئے۔
اے ٹی ایس نے مولانا کلیم صدیقی سے پہلے 20 جون کو مولانا عمر گوتم اور
جہانگیر عالم کو گرفتار کیا تھا ۔ امید ہے بہت جلد سارے قیدی رہا ہوکراپنے
اہل خانہ کے ساتھ عید منائیں گے۔
|