تاریخ کی تلفی

بچپن میں بغیر سوچے واحد جمع کی غلطی کرنے کو اتنی بڑی بات نہیں سمجھتا تھا، یا یہ کہنا بہتر ہوگا کہ میں ان کے فلسفے سے ہی ناواقف تھا۔ جانے انجانے میں جمع کو واحد اور واحد کو جمع کرنے کی مشق میں وقت کے ساتھ ساتھ کمی تو واقع ہوئی پر میں انکے معنوں کو سمجھنے سے قاصر ہی رہا۔

اگر ہم مشاہدہ کرے تو یہ بات ہم پہ عیاں ہو جاتی ہے کہ کس طرح قدرت نے چیزوں کو الگ پہچان دی ہے کیونکہ ہر شے اپنی منفرد شناخت بھی رکھتی ہے اور یہی چیزیں مجموعی طور پر بھی اپنی پوری قوت سے جلوہ گر ہوتی ہے۔ انسانی خلیہ کی مثال واضح ہے کہ کس طرح آنکھ سے نہ نظر آنے والی شے پہ آدمی کا پورا وجود قائم ہے۔ خلیات کی اپنی ایک الگ پہچان ضرور ہوتی ہے پر ساتھ مل کر بھی یہ اپنا مقام رکھتی ہے۔

واحد اور جمع کا فلسفہ بھی ہمیں اسی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ہم کس طرح انفرادی ہستیوں اور گروہوں کے مجموعے کا تصور کریں۔ یہ ہمیں مل کر کام کرنے کی قدر کو سمجھنے اور انفرادیت کی طاقت کو پہچاننے میں مدد کرتا ہے۔ خیر!! جتنا ہم ان کے بارے میں غور و فکر کریں گے اتنے سوالات ہمارے سامنے کھڑے ہوجائیں گے پر میں آج ادھر جوابات دینے نہیں آیا اور نہ ہی اپنے خیالات کا پرچار کرنے۔ میں آج آپکے سامنے ماضی کے چند سوالات رکھنے آیا ہوں، کچھ ان سلجھے سوالات، کچھ ایسے سوالات کہ جو ہمارے لئے جاننا ضروری ہے، جن سوالات کے اوپر ہماری بنیاد بنائی گئی اور جن سوالات کو ہمارے ذہنوں میں کبھی آنے ہی نہیں دیا۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی واحد اور جمع کی، آپ نے قرار دادِ پاکستان کا نام تو سنا ہی ہوگا، وہی جو ہمارے نصاب کے مطابق ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ کو ہوئی، پر اصل تاریخ ۲۴ مارچ ہے۔ تاریخ پہ ہم ابھی بحث نہیں کرتے پر جو چیز قابل غور ہے وہ ہے واحد اور جمع۔ اختصار کیلئے میں قرار داد کی اصل عبارت سے صرف چند سطور نقل کرتا ہوں:

“Muslims are numerically in a majority as in the North Western and Eastern Zones of (British) India should be grouped to constitute ‘independent states’ in which the constituent units should be autonomous and sovereign.”

یہاں پہ آ پ نے لفظ states پہ غور کرنا ہے، states سے یہاں پہ مراد پاکستان کو ایک فیڈریشن کے طور پر تصور کیا جانا تھا یعنی ہر صوبوں کے پاس خودمختاری ہوگی اور وہ وفاق کی نگرانی میں نہیں ہوں گے۔ اگر ہم اس لفظ کو ملحوظ خاطر رکھے تو پاکستان کو شاید متحدہ ہائے امریکہ کے طرز پہ چلانا تھا پر ستم ظرفی یہ ہے کہ ہمارے نصاب میں اس جمع کو واحد سے تبدیل کرکے state لکھا گیا ہے!!! آخر کیوں؟؟ کیوں ضرورت پڑی اس قرارداد کے مطلب کو بدلنے کی؟؟۔ کیوں ہمیں غلط تاریخ پڑھائی جاتی ہے؟؟ اور کیوں ہمارے بنیادوں کو ہی تبدیل کردیا گیا؟؟۔ ۱۹۶۶میں شیخ مجیب الرحمان نے حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ مشرقی پاکستان کو دفاع اور خارجہ پالیسی کے علاوہ خودمختار بنایا جائے پر فیلڈ مارشل جنرل ایوب نے اسے ایک الگ ملک بنانے اور پاکستان سے علیحدگی کی سازش قرار دے کر رد کر دیا اور پھر اسی واحد جمع کی تبدیلی نے ۲۶ مارچ ۱۹۷۱ میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنا دیا۔

پاکستان کی تاریخ کے ساتھ واقعی میں بہت مذاق کیا گیا ہے۔ کیا آپ نے کبھی محمد حمیداللّٰہ خان آف بھوپال اور سر صادق محمد خان عباسی نواب آف بہاولپور کے نام سنے ہے؟، اگر نہیں سنے تو یہ بھی آپ کے گوش گزار کرتا چلوں کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے لیاقت علی خان سے پہلے ان دونوں کو وزیراعظم کے منصب کی پیشکش کی تھی جو انہوں نے قبول نہ کیا پھر لیاقت علی خان کو ملی۔ اگر آپ محترمہ فاطمہ جناح کی کتاب “My Brother” پڑھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آخر میں قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے تعلقات صرف دکھاوے پر مبنی تھے۔ پر ہمارے نصاب میں ان کا کہیں ذکر کیوں نہیں ملتا؟؟

کیا آپ نے کبھی جنرل حبیب اللّٰہ کا نام سنا ہے؟؟ کیپٹن گوہر ایوب کا نام؟؟ اچھا فیلڈ مارشل ایوب خان کے پانچ سالہ منصوبے سے تو واقف ہی ہوں گے۔جی وہی جس کو ہمارے نصاب میں بہت ہی عالیشان، خوشحال، داخلی پیداوار میں اضافہ، مستحکم معیشت اور صنعتی ترقی کا دور کہلاتا ہے جو بالکل درست ہے، جی ہاں اس دور میں کافی فائدہ ہوا تھا پر صرف ۲۲ خاندانوں کو، اور جنرل حبیب اللّٰہ، جو فیلڈ مارشل ایوب خان کے حاض آدمی تھے، بھی انہی خاندانوں میں سے میں سے ایک تھے اور کیپٹن گوہر ایوب، وہ تو فیلڈ مارشل ایوب خان کے صاحبزادے تھے جنہوں نے بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھویا۔ ہمارے نصاب میں اس پانچ سالہ منصوبے کے ثمرات تو ذکر کیا ہوا ہے پر کہیں بھی یہ ذکر نہیں کہ اصل فائدہ صرف اشرافیہ کو ہوا، عام آدمی کی اس دور میں کیا حالت تھی، وہ کن مشکلات سے دو چار تھے ان کا کہیں ذکر نہیں۔ نصاب میں تو اس بات کا بھی سرے سے ذکر نہیں کہ ایوب خان نے ۱۹۵۸ میں ۵۶ کے آئین کو توڑ کر مارشل لاء لگایا اور کیسے انہوں آنے والوں کیلئے اس کی راہ ہموار کی۔

پاکستان کی تاریخ کو ہر کسی نے اپنے مفاد کیلئے استعمال کیا ہے۔ انہوں نے ایک منظم طریقے سے ہم سے ہماری تاریخ چھپائی ہے۔ ہمارے اداروں میں پہلے تاریخ کا ایک الگ مضمون بھی پڑھایا جاتا تھا جس کو ایوب خان نے مطالعہ پاکستان اور معاشرتی علوم سے تبدیل کردیا اور یہ سب ایک خاص مقصد کے تحت کیا گیا ہے۔ آمروں نے ایک خاص قسم کی ذہن سازی کیلئے پاکستان کی تاریخ ہی بدل دی ہیں۔ آج کے دور میں پاکستانیوں کو جاہل کہتے ہیں، پاکستانی جاہل نہیں ہے ان کو جہالت میں رکھا گیا ہے۔ پاکستان میں ہمیں تاریخ کے نام پر نظریات پڑھایا جاتا ہے اور یہ سب صرف چند لوگوں کے مفادات کیلئے کیا گیا ہے۔ آپ خود اپنا محاسبہ کرے، ہم لوگ بولتے ہے کہ مشرف کا دور اچھا تھا، ایوب کے دور میں ترقی ہوئی پر ہم یہ نہیں بولتے کہ وہ تھے کیوں؟؟ ان کی ضرورت کیوں پڑی؟؟ کیوں پاکستان کو اتنے سال جمہوریت سے محروم رکھا گیا؟؟ کیونکہ ہم کبھی ایسے سوچ ہی نہیں سکے، ہمارے ذہنوں کو اس طرف آنے ہی نہیں دیا۔ ہمیں تاریخ کے نام پر اللّٰہ کی واحدانیت پڑھائی گئی، ہمیں جناح کے ۱۴ نکات ڑٹوائے گئے، ہمیں مطالعہ پاکستان میں اسلامیات پڑھائی گئیں اور محض تاریخیں بتائی گئیں۔ ضیاالحق کی Islamization کی ضرورت کیوں پڑی؟؟ کیوں ہمیں اسلام کے نام پر بےوقوف بنایا گیا؟؟ اور کیا ضیاالحق خود صادق اور آمین تھے؟؟ یہ سب ایسے سوالات ہے جن کا جاننا ہمارے لئے ضروری ہے۔

ہم نے تاریخ کو غور سے پڑھا نہیں ہے کیونکہ ہمیں کبھی پڑھایا ہی نہیں گیا۔ ہمیں اصل پاکستان کو سمجھنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ ہم سے حقائق چھپائے گئے اور سوالات سے روک دیا گیا ہے۔آپ ذرا ان سوالات پہ غور کرے کہ، کیا علامہ اقبال نے الٰہ آباد میں واقعی ایک الگ مسلم ریاست کی مانگ کی تھی؟ کیا بنگلہ دیش صرف انڈیا کی مداخلت کی وجہ سے آزاد ہوا؟ اور ۲۳ مارچ کو تو پاکستان کا پہلا آئین بنا تھا پر ہم اس دن کو قرارداد پاکستان کے طور پر کیوں مناتے ہے؟ اب ان کے جوابات آپ کے ذمہ ہے۔ اب آپ کو خود فیصلہ کرنا ہے کہ آپ کو ہمارے نصاب میں موجود نظریات پر اکتفا کرنا ہے یا واقعی میں پاکستان کی تاریخ پڑھنی ہے۔ کیونکہ جب تک جڑیں مضبوط نہیں ہوں گی ان پہ لگے پھل بھی تازہ نہیں ہوں گے۔ برخاست!!!

 

Muhammad Sibtain Ali
About the Author: Muhammad Sibtain Ali Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.