ایک روز میں نے اپنے گرو سے کہا،
ایک بات پوچھوں ؟ بولے ، پوچھو ۔ میں نے کہا، اللہ تعالٰی قرآن میں فرماتے
ہیں ، مجھ سے ڈرو۔
بولے ، اچھا پھر ؟
میں نے کہا ، پتا نہیں کیوں مجھے اللہ تعالی سے ڈر نہیں لگتا ، حالانکہ
میرا ایمان ہے اللہ کے سوا کوئی قوت نہیں ہے، کوئی خوف نہیں ہے، لیکن مجھے
ایسا لگتا ہے جیسے وہ بچوں کی طرح معصوم ہو، چھوٹی چھوٹی باتوں پر خوش ہو
جاتا ہے، مجھے لگتا ہے جیسے وہ ہمارے لیے بے پناہ ہمدردی سے بھرا ہوا ہے۔
اتنا دیا لو ہے کہ دینے کے لیے بہانے ڈھونڈتا پھرتا ہے۔
وہ ہنسے ، بولے مفتی ! تم زیادہ نہ سوچا کرو۔ یہ جو سوچیں ہیں، یہ گھمن
گھیریاں ہیں، ڈوبنے دیتی ہیں نہ تیرنے ۔ بہت سے بھید ایسے ہیں جو سامنے
دھرے ہیں مگر ہمیں دکھتے نہیں چونکہ باری تعالی نہیں چاہتے کہ وہ بھید کھل
جائیں۔
میں نے کہا ، عالی جاہ ! میں تو ڈرنے کی بات پوچھ رہا تھا کہ مجھے اس سے ڈر
نہیں لگتا ہے، اس پر پیار آتا ہے۔
بولے، جنہیں ڈر لگتا ہے وہ بھی خوش قسمت ہیں ، جنہیں پیار آتا ہے وہ بھی
خوش نصیب ہیں۔
یہ کیا بات ہوئی ؟ میں نے چڑ کر کہا۔۔
مسکرا کر بولے : ڈر بھی ایک تعلق ہے، محبت بھی ایک تعلق ہے۔ مطلب تو یہ ہے
کہ اس کے ساتھ تعلق قائم رہے، سارا کھیل تعلق کا ہے۔ اگر اللہ سے تعلق قائم
ہے تو سب اچھا۔ |