موجد رسم ستم کون ہے ؟

 اگر ز باغ رعیت ملک خورد سیبے
برآورند غلامان او درخت از بیخ

بہ پنج بیضہ کہ سلطاں ستم روا دارد
زنند لشکریانش ہزار مرغ بہ سیخ

اگر بادشاہ رعایا کے باغ سے ایک سیب (ناحق) کھائے گا تو اس کے نوکر و ماتحت (وزیر و مشیر وغیرہ) پورا درخت ہی جڑ سے اکھاڑ لے جائیں گے اور اگر بادشاہ امور سلطنت کی انجام دہی میں پانچ انڈوں کی خیانت کا ظلم کرتا ہے( یعنی رعایا کے پانچ انڈے ناحق کھاتا ہے) تو اس کے حواری اور اس کے لشکر والے رعایا (عوام) کے ایک ہزار مرغوں کا تکہ بنا کر کھا جائیں گے اور انھیں اس طرح کھلے عام لوٹ کھسوٹ کرنے میں کسی کا کوئی ڈر، خوف نہ ہو گا کیونکہ اگر عوام ان کے ظلم کی شکایت بادشاہ سے کرنے جائے گی تو ایسے حالات میں اسے(رعایا) کیا نتیجہ حاصل ہو گا جب کہ بادشاہ خود اس لوٹ کھسوٹ اور غصب کنی کی ابتدا کرنے والا ہے- اپنے وزرائے سلطنت پر چور دروازہ کھولنے والا کوئی دوسرا نہیں ، بادشاہ خود ہوتا ہے-

حضرت شیخ سعدی شیرازی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حاکم وقت رعایا (عوام) کی جان و مال اور عزت و آبرو کا محافظ و نگہبان ہوتا ہے اور اس کا کام ہمہ وقت اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کے حوالے سے خدمت کرنا ہوتا ہے - اسی سلسلے میں اسے معاشرے میں خصوصی امتیاز حاصل ہوتا ہے اور مملکت کی جانب سے مراعات حاصل ہوتی ہیں اور اگر وہ بادشاہ (سلطان) ان مراعات ( وہ سہولیات ، جو اسے عوام کی خدمت کرنے کے لئے دی جاتی ہیں) کو اپنے ذاتی مفادات کے استعمال میں لائے گا تو وہ ملک و قوم کا مجرم ہوگا-

اور نہ صرف وہ خود ملک و ملت کا مجرم ہو گا بلکہ اس کی دیکھا دیکھی ، اس کے تمام ماتحت ( یعنی وزیر و مشیر وغیرہ) بھی اس کی پیروی میں رعایا کی امانت یعنی امور سلطنت میں خیانت کا نا ختم ہونے والا سلسلہ ( اندھا دھند لوٹ، مار) شروع کر دیں گے اور اس ظلم کی بنیاد ڈالنے والا صرف وہ حاکم وقت ہو گا ، اس سے اس بارے پرسش ہو گی- کیونکہ ظلم کی فصل اگانے والا وہی ہے-

قارئین کرام !

ہر ذی شعور و بالغ نظر انسان کے نزدیک درج بالا قطعہ کا اطلاق حاکمان عہد حاضر اور سربراہان مملکت ہذٰا پر کلی طور پر ہوتا ہے-

ایک دوسری حکایت میں حضرت شیخ علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں کہ ایک دن ایسے ہی (موجودہ حکمرانوں کی طرح) ایک ظالم و درندہ صفت سفاک بادشاہ کی ملاقات ایک صدق طینت درویش سے ہو گئی تو اس بادشاہ نے اس درویش سے استفسار کیا کہ میرے لئے کون سی عبادت بہترین ہے تو اس درویش نے برجستہ اسے کہا کہ اے بادشاہ ! تیرے لئے دوپہر میں سونا سب سے بڑی اور افضل ترین عبادت ہے- بادشاہ اور اس کے حواری اس بات پر حیران ہوئے کہ سونا کس طرح بہترین و افضل عبادت ہو سکتی ہے تو اس مستغنی دل فقیر نے شہی دبدبہ و رعب سلطنت کی پروا کئے بغیر بے نیازانہ ( اس سفاک بادشاہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر) کہا کہ اے بادشاہ ! تیرے تھوڑی دیر کے سو جانے کی وجہ سے مخلوق خدا اتنی دیر تو کم از کم تیرے ظلم سے محفوظ رہے گی-

حضرت شیخ سعدی فرماتے ہیں ، میں نے اس بزرگ درویش کی بات سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تف ہے اس پر جس شخص کا سونا ، اس کے جاگنے سے بہتر ہے تا کہ مخلوق اس سے امان میں رہے تو ایسا شخص کتنا برا ( قبیح ) ہے - پھر تو اس کے زندہ رہنے سے اس کا مر جانا ہی بہتر ہے کیونکہ سونا بھی تو ایک طرح کا مرا ہی ہے مگر عارضی طور پر - کاش کہ ایسا مکروہ شخص دائمی طور پر( ہمیشہ کے لئے) ہی مر جائے-
یعنی
خست کم جہاں پاک
Khalid ROOMI
About the Author: Khalid ROOMI Read More Articles by Khalid ROOMI: 10 Articles with 18105 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.