ایک زمانے میں وزیر اعظم غیر ملکی دوروں پر جایا کرتے تھے
اور ہر جگہ دہشت گردی کے خلاف صفر برداشت کی پالیسی کا راگ الاپتے تھے ۔ اب
حالات بدل گئے ہیں ۔ ابھی حال میں رکن پارلیمان سمرنجیت سنگھ مان نے امرت
پال سنگھ کو علی الاعلان ایک مشورہ دے کر حکومت کے مذکورہ دعویٰ کی ہوا
نکال دی۔ انہوں نے کہا اسے ہتھیار ڈالنے کے بجائے راوی ندی پارکرکے پاکستان
چلے جانا چاہیے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ بقول ان کے ’ہم بھی 1984 میں پاکستان
گئے تھے‘۔ انہوں نے سکھوں کی تاریخ سے اس کا یہ جواز پیش کیا کہ سرکار ہمیں
دبا رہی ہے۔ آج کل پی ایف آئی کی پابندی پر سماعت کے دوران علٰحیدگی
پسندی کے من گھڑنت الزامات لگائے جارہے ہیں لیکن کوئی سمرنجیت سنگھ مان کے
بیان کی جانب توجہ نہیں دیتا ۔ راہل گاندھی کے خلاف ملک کی مختلف عدالتوں
میں مقدمات قائم کیے جارہے ہیں لیکن کوئی مان پر مقدمہ قائم نہیں کرتا ۔ تو
کیا مان لیا جائے کہ سنگھ کے نزدیک مودی یا آر ایس ایس پر تنقید ملک کی
سالمیت سے زیادہ اہم ہے؟
پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ امرت پال کو گرفتار نہ کرنے پر ریاستی حکومت کی
کھنچائی کرچکا ہے۔ عدالت نے امرت پال سنگھ کے ‘فرار’ کے معاملے میں ‘انٹیلی
جنس کی ناکامی’ پر سوالات اٹھاتے ہوئےکہا تھا کہ ’آپ کے پاس 80 ہزار پولیس
اہلکار ہیں، اسےگرفتار کیسے نہیں کیا گیا؟‘جب حکومت نے عدالت کو بتایا کہ
امرت پال کے علاوہ سب کو گرفتار کر لیا گیا ہے تو عدالت نے پوچھا کہ اگرحلف
نامہ میں امرت پال سنگھ کو ملک کے لیے خطرہ بتایا گیا تو اس کے علاوہ باقی
لوگوں کو گرفتار کرنے کے باوجود اسے کیوں نہیں پکڑا جا سکا؟ آخر وہ بھاگ
کیسے گیا؟ اس کے جواب میں انسپکٹر جنرل نے کہا وہ فرار ہے اس پر این ایس اے
لگا ہوا ہے نیز بہت ساری باتیں وہ یہاں نہیں بتا سکتے۔ سوال یہ ہے کہ وہ
کون سے راز ہیں جنہیں عدالت میں فاش کرنے سے اتنا اعلیٰ افسرہچکچا رہا
ہے؟اس معاملے کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ جب تک وہ آزاد گھوم رہا تھا خفیہ
ایجنسیاں کمبھ کرن کی نیند سو رہی تھیں اور اس کے فرار ہوتے ہی ہر روز ایک
نیا انکشاف ہونے لگا ہے۔ یہ رویہ بھی شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔
امرت پال کے بارے میں خفیہ ایجنسی بتا رہی ہے کہ اسےپاکستانی آئی ایس آئی
نے جارجیا میں اسلحہ چلانے تربیت دی تھی۔ وہاں اسے آنند پور خالصہ فورس
بنانے کے لیے بھی تیار کیا گیا تھا۔ وہ نجی فوج بنارہا تھا۔اس کے گھر پر
ملی جیکٹس پر اے کے ایف لکھا ہوا ملا۔ اس کے بارے میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ
منشیات بیچنے والے مافیا سے بھی اس کے تعلقات تھے۔ وہی ہتھیارپہنچاتے تھے۔
وہ ڈرگ مافیا راویل سنگھ کی عطا کردہ مرسیڈیز ایس یو وی گھومتا تھا۔
6فائنانس کمپنیاں اور دو حوالہ والے اس کو کروڈوں روپیہ فراہم کرچکے تھے۔اس
کو 28کھاتوں سے5کروڈ روپیہ بھیجا گیا اس کے علاوہ 158کھاتوں سے اس کی مدد
کی گئی۔ اس کے لیے 15 تا19 مارچ کے درمیان دنیا بھر میں 2559 ٹوئٹر اکاونٹ
کھولے گئے۔ سوال یہ ہے کہ سیاسی حریفوں پر دھڑا دھڑ چھاپہ مارنے والی ای ڈی
اور سی بی آئی نے اس کی جانب توجہ کیوں نہیں کی؟ اس نظر کرم کی وجہ کیا
ہے؟جبکہ علٰحیدگی پسند تنظیم سکھ فار جسٹس نے امرت پال سنگھ کی حمایت میں
دہلی کے بجلی گھر کو اڑانے دھمکی تک دے ڈالی نیز سکھوں کو عدم موالات کی
تحریک چلانے پر ابھارا ۔اس کے باوجود امرت پال سنگھ دہلی میں داخل ہوگیا تو
آخر وہاں اس کاایسا کون سا حامی ہے جس سے اسے پناہ کی توقع ہے؟
امرت پال کے معاملے میں بی جے پی کی قومی انتظامیہ کے رکن سنیل جھاکر نے
اسے جی 20 ؍ کےاجلاس سے جوڑ کر سنگین الزامات لگائے ہیں۔ فی الحال جی
20ممالک کی سربراہی کو لے کر ملک بھر میں جشن کا ایک جعلی ماحول تیار کیا
گیاہے۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مودی جی نےبڑی محنت کرکے اسے
حاصل کیا ہے حالانکہ یہ صدارت تو باری باری سارے ارکان ممالک میں گردش کرتی
ہے۔ان 20 ممالک سے ٹریڈ یونین کے مندوبین ، ماہرین اور مزدور قائدین کی
ہندوستان میں ان کے ہندوستانی ہم منصب کے ساتھ امرتسر میں جمع ہوناتھا۔
دنیا کے سرکردہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے عالمی گروپ جی20 کے ایک
کلیدی گروپ لیبر 20 (ایل 20) کی ابتدائی تقریب کی تیاریاں مکمل ہو چکی
تھیں۔محنت و روزگار کے مرکزی وزیر بھوپندر یادو اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ
بھگونت مان ایل20 کے افتتاحی اجلاس میں خطاب کی تیاری کررہے تھے ۔ بھارتیہ
مزدور سنگھ کے قومی صدر ہرن مے پانڈیا ایل 20 کی صدارت کےلیے پرتول رہے تھے
کہ یہ ہنگامہ شروع ہوگیا اور رنگ میں بھنگ پڑ گیا۔
ہمہ گیر روزی روٹی اور روزگار سے متعلق موضوعات، سماجی تحفظ ،مزدوروں کی
بین الاقوامی نقل مکانی،سماجی سلامتی فنڈس ؛ غیر رسمی شعبوں میں کام کرنے
والے محنت کشوں کے لیے سماجی تحفظ، ہنرمندی کی تربیت اور جدید کاری: آجرین،
ملازمین ،سرکار کا کردار اور ذمہ داریاں جیسے اہم موضوعات پر تبادلہ خیال
پس پردہ چلے گئے اور ذرائع ابلاغ پر اچانک امرت پال سنگھ ایک مہیب آسیب کی
مانند چھا گیا ۔ عالمی سطح پر مزدوری سے متعلق منظر نامے میں نئے رجحانات ،
کام کاج کی دنیا میں تبدیلی، جی 20 ممالک میں روزگار سے متعلق نئے مواقع،
ہمہ گیر معقول کام کو فروغ، ممالک کے ذریعہ اجرتوں پر تجربات کا اشتراک اور
خواتین کے روزگار جیسے موضوعات میں سے سب کی دلچسپی ختم ہوگئی۔ انٹرنیٹ کے
بند ہوجانے سے ان مندوبین کا دنیا بھر سے رابطہ ٹوٹ گیااور مصنوعی ترقی کا
جو مایا جال پھیلایا گیا تھا وہ اچانک سمٹ گیا۔ خالصتان زندہ بار کے نعروں
نے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ سنیل جھاکر کو کہنا پڑا کہ
امرت پال کے خلاف تاخیر سے، غلط وقت پر، غیر منصوبہ بند، ناکام اور غلط مہم
نے وہ کام کر دیا جو آئی ایس آئی اپنے علیحدگی پسند ایجنڈے کے ذریعہ حاصل
نہیں کر سکی تھی۔
بھگونت سنگھ مان نے اگر یہ حماقت سہواً کردی تب بھی یہ ناقابلِ معافی جرم
ہے اور قصداً ایسا کرنا تو سراسر ملک دشمنی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے وزیر
اعلیٰ نے اگر جان بوجھ کر یہ کام کیا ہے تو گویا انہوں نے دہلی میں بی جے
پی کے اشارے پر کام کرنے والے لیفٹننٹ جنرل سے سرکاری زیادتی کا بھرپور
انتقام لے لیا۔ سنیل جھاکر کے مطابق معروف گلوکار سدھو موسے والا کی برسی
کے موقع پر اس کے قاتل لارنس بشنوئی نے جیل میں بیٹھ کر جو انٹرویو دے دیا
اس کی بدنامی سے بچنے کی خاطر صوبائی حکومت یہ ہنگامہ کھڑا کیا اور اس کے
سبب کینیڈا، امریکہ ، جرمنی یا برطانیہ جیسے ممالک میں خالصتان کے حامیوں
کو بہترین موقع فراہم کردیا گیا۔ جھاکر کہتے ہیں کہ حکومت اگر مزید دو دن
ٹھہر جاتی تو کوئی آسمان نہیں پھٹ پڑتا لیکن اس بیچ جی 20 کے مندوب لوٹ
جاتے اور ان کے ذریعہ دوتہائی دنیا کی آبادی تک یہ غلط پیغام نہ جاتا۔
اجنالا سانحہ کے بعد اس گرفتاری کو اتنے وقت تک لٹکائے رکھنے کا کوئی جواز
نہیں تھا لیکن چونکہ حکومت نے معاملہ دبا ہی دیا تھا تو اسے مزید دو دن
ٹالا جاسکتا تھا۔ جاکھر نے کہا، "میں اسے ایک غیر منصوبہ بند اور غلط
آپریشن کہوں گا جس نے پنجاب کی سیکورٹی ایجنسیوں کومضحکہ خیزبنا دیا ۔ اس
نے بین الاقوامی سطح پر نہ صرف پنجاب کی بدنامی ہوئی بلکہ ملک کی شبیہ کو
نقصان پہنچایا ہے ‘‘۔ ان کے خیال میں امرت پال جیسے دھوکے باز اور جعلی سنت
پر بلاوجہ توجہ مبذول کرکےاسے مقبول کیاگہاجبکہ اس سے دوسرے انداز میں نمٹا
جا سکتا تھا۔
سنیل جھاکر کی ساری باتوں کو سچ مان لیا جائے تب بھی کچھ سنگین سوالات جنم
لیتے ہیں۔ ملک کی خفیہ ایجنسی عالمی سطح پر مرکزی حکومت کے تحت کام کرتی
ہے۔ آج یہ کہا جارہا ہے کہ اس نے خالصتان بنانے کی ساری تیاری کرلی تھی ۔
کرنسی چھاپ رکھی تھی اور اسلحہ جمع کرلیا تھا۔ اس کے پاس اسلحہ کی تربیت کا
میدان موجود تھا۔ سابق فوجیوں کی مدد سے وہ نوجوانوں کو تربیت دے رہا تھا
اور خود بھی بیرونِ ملک پاکستان کے زیر اثر اسلحہ چلانا سیکھ چکا تھا۔ یہ
باتیں اگر درست ہیں تو اسے ملک میں داخل ہوتے ہی گرفتار کیوں نہیں کیا گیا؟
اس کو کھلی چھوٹ کیسے مل گئی؟ مرکزی حکومت نے آج تک اس کے خلاف کوئی
کارروائی کیوں نہیں کی؟ پنجاب کے اندر تو خیر عام آدمی پارٹی کی حکومت ہے
مگر ہریانہ سرکار نے ایک مفرور مجرم کو حراست میں کیوں نہیں لیا؟ اس کی
اتراکھنڈ میں جانے کے امکانات کیوں روشن ہوگئے جہاں بی جے پی کی حکومت ہے؟
دہلی کے سی سی ٹی وی کیمروں میں وہ کیونکر نظر آیا اور پھر کہاں غائب
ہوگیا ؟ اتنا بڑا خفیہ نیٹ ورک ایک نوجوان کو گرفتار کرنے میں ناکام کیسے
ہوگیا؟ سنیل جھاکر اور ان کی پارٹی کے رہنماوں کو کھسیانی بلی کی مانند
کھمبا نوچنے کے بجائے ان سوالات کا جواب بھی دینا چاہیے اور بتانا چاہیے کہ
اس کہیں اس کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر تو عتیق احمد کے گجرات سے دہلی
لے جانے کو میڈیا میں اس قدر نہیں اچھالا جارہا ہے؟ یعنی بشنوئی سے دھیان
ہٹانے کے لیے امرت پال اور اس کی طرف توجہ ہٹانے کے لیے عتیق احمد ؟ یہ کیا
چکر ہے؟ ابھی تک تو اس کے ملک سے نکل جانے کی خبر نہیں آئی ہے لیکن اگر کل
کو نیرو مودی اور للت مودی کی مانند اس وہ بھی نکل جائے تو بی جے پی اسے
ایک بھیانک خواب کی مانند بھلا دے گی۔ اس صورت میں امرت پال سنگھ پر یہ شعر
صادق آجائے گا؎
ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
جو یاد نہ آئے بھول کے پھر اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
|