ہمارا ملک ہندوستان جو گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار رہا
ہے۔ ملک میں مختلف مذاہب اورکئی زبانوں کے بولنے والے آج بھی ملک میں امن و
سلامتی چاہتے ہیں۔ آپس میں بھائی چارگی کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں
اسی لئے ملک میں فرقہ پرست طاقتوں کو خاموشی سے برداشت کرتے رہے ہیں ورنہ
ملک میں فرقہ پرست طاقتوں کا جواب دینے کیلئے مظلوم بھی اٹھ کھڑے ہوں تو
پھر ملک میں دنگا فساد برپا ہونے میں دیر نہیں لگے لگی ۔ملک کی اقلیتیں ہی
نہیں بلکہ اکثریتی عوام کا ایک بڑا طبقہ بھی نہیں چاہتا کہ ملک میں دنگا و
فساد کا ماحول پروان چڑھے۔گذشہ دنوں ملک کے بعض حصوں میں ہندوتہوار رام
نومی کے موقع پرفرقہ پرست ہندوتوا دہشت گردوں نے مسلم اقلیتوں کو نشانہ
بنایا ، انکی املاک کو لوٹا اوربرباد کیا گیا ، مدارس و مساجد کو نقصان
پہنچانے کی کوشش کی گئی ان سب کے باوجود مسلمانوں نے صبر و ضبط کا مظاہرہ
کیا۔ ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ بھی اس گھناؤنے مظالم کے خلاف ہے لیکن حکومت
اور پولیس کی لاپرواہی یا نظر انداز کیا جانا یا پھر بعض مقامات پر انہیں
حکمراں طبقہ کی جانب سے کھلی ڈھیل دینا ہی فسادات کا باعث بنتا ہے۔ ملک میں
امن وسلامتی کا ماحول بگاڑنے والوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے موجودہ
مرکزی حکومت اور ان مقامات کی ریاستی حکومتیں پوری ذمہ داری سے ظالم فرقہ
پرستوں کو گرفتار کرکے انکے خلاف کارروائی کریں۔ ورنہ ہندوستان جیسے جمہوری
ملک کا نام عالمی سطح پراقلیتوں پر مظالم ڈھانے والے ممالک کی فہرست میں
شامل رہے گا۔ گذشتہ دنوں یعنی 31؍ مارچ کو بہارمیں مدرسہ عزیزیہ اور اسکی
لائبریری کو انتہاء پسندہندوؤں کی جانب سے جلائے جانے کے واقعہ پراور دیگر
مقامات پر پرُتشدد منظم حملوں اور آگ زنی کے خلاف اقوام متحدہ اورپھر مسلم
ممالک کی سب سے بڑی اسلامی تعاون کونسل (آرگنائزیشن آف اسلاملک کونسل) نے
تشویش کا اظہار کیا ہے۔ او آئی سی جنرل سیکریٹریٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ
’’انڈیا کے مختلف صوبوں میں تشدد، تخریب کاری اور اشتعال انگیز سرگرمیاں
اسلاموفوبیا کا بڑھتا ہوا ثبوت ہیں‘‘۔ بیان میں کہا گیا کہ ’ان کا مقصد
انڈین مسلمانوں کو منصوبہ بند طریقے سے تشدد کا ہدف بنانا ہے‘۔ او آئی سی
نے انڈیا کے حکام سے مطالبہ کیا کہ ’وہ اس قسم کی اشتعال انگیزی کرنے والوں
کے خلاف ٹھوس اقدامات کریں اور انڈیا مسلمانوں کے حقوق ،امن و سلامتی اور
وقار کو یقینی بنانے کیلئے ضروری اقدامات کئے جائیں‘۔ اب دیکھنا ہیکہ
ہندوستانی حکومت او آئی سی کی جانب سے مذمت کیے جانے والے بیان کے بعد کس
قسم کے ردّعمل کا اظہار کرتی ہے اور ملک میں مسلمانوں پر حملے کرنے والے
ظالموں کے خلاف کیا کارروائی کرتی ہے یا انہیں کس قسم کا تیقن دیتی ہے۰۰۰
رمضان میں بھی اسرائیلی پولیس و فوج کی ظلم و بربریت ۔ مسجدِ اقصیٰ میں
نمازیوں پر حملہ
اسرائیلی پولیس اور سیکیوریٹی ایجنسیوں کی جانب سے فلسطینیوں پر ظلم و
بربریت کا ناختم ہونے والا سلسلہ رمضان المبارک میں بھی جاری ہے۔ اسرائیلی
پولیس نے 5؍ اپریل چہارشنبہ کو علی الصبح مسجد اقصیٰ کے احاطے میں نمازیوں
پر حملہ کردیا۔اور پھرذرائع ابلاغ روئٹرز کے مطابق اسرائیلی پولیس نے کہا
ہیکہ یہ کارروائی ہنگامہ آرائی کے جواب میں کی گئی ہے، جبکہ مسجد اقصیٰ میں
کسی فلسطینی کی جانب سے ایسی کوئی ہنگامہ آرائی کی خبریں دکھائی نہیں دی
گئی کیونکہ اگر واقعی کوئی ہنگامہ آرائی کرتا تو اسکی فوٹو یا ویڈیو
اسرائیلی پولیس یا فوج ضرور عوام کے سامنے لاتی ۔اس واقعہ کے بعد مقبوضہ
مغربی کنارے میں احتجاج شروع ہوگیا ہے ۔ اسرائیلی فوج نے کہا ہیکہ غزہ کی
جانب سے اسرائیل پر نوراکٹس داغے گئے ہیں۔اسرائیل نے جوابی کارروائی میں
فضائی حملے کرتے ہوئے حماس کے ہتھیاربنانے والے مقامات کو نشانہ
بنایاہے۔حماس ترجمان حازم قاسم کا کہنا ہیکہ پولیس حملے کے جواب میں حماس
نے راکٹ فائر کئے تھے۔سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے یروشلم میں مسجد اقصیٰ
پر اسرائیلی فوج کے حملے کی مذمت کی ہے۔ سعودی عرب کا کہنا ہیکہ ان اقدامات
سے امن کیلئے کوششوں کو نقصان پہنچتا ہے، قبضے کو ختم کرنے اور فلسطینی کاز
کے منصفانہ اور جامع حل تک پہنچنے کیلئے تمام کوششوں کی حمایت میں اپنے
مضبوط موقف کی تصدیق کرتا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہیکہ یہ حملہ ماہ رمضان کے
دوران ہوا، یہ اسلام میں روحانیت اور دعاؤں کا وقت ہوتا ہے۔ ’مذہبی تقدس کے
احترام کے لحاظ سے اس قسم اقدامات بین الاقوامی اصولوں اور اقدار کی خلاف
ورزی ہے‘۔
صدر ترکی رجب طیب اردغان نے مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کی۔
انہو ں نے کہا کہ اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی پر ترکیہ خاموش تماشائی نہیں
بنے گا۔ صدر اردغان کا کہنا تھا کہ ترکیہ ان ظالمانہ حملوں کے سامنے خاموش
نہیں بیٹھے گا۔ مسجد اقصیٰ تک پہنچ کر حرم شریف کے تقدس کو پامال کرنے کا
مطلب ہمارے ریڈ لائن کو عبور کرنا ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیلی فورسز نے مسجد
اقصیٰ پر اسٹن گرینیڈ کے ساتھ حملہ کرکے 400سے زائد بے قصور نمازیوں کو
گرفتار کیا اور مسجد اقصیٰ کی عمارت کو نقصان بھی پہنچایا ۔ واضح رہے کہ
گذشہ ایک برس کے دوران مقبوضہ مغربی کنارے اور یروشلم میں تشدد میں اضافہ
ہوا ہے اور خدشہ ہیکہ رواں ماہ کشیدگی میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ
رمضان میں یہودیوں کا پاس اوور اور مسیحیوں کا ایسٹر بھی آنے والا ہے۔
فلسطین میں ہلالِ احمر نے کہا ہیکہ مسجد اقصیٰ کے احاطے میں اسرائیلی پولیس
کے ساتھ جھڑپ میں ربڑ کی گولیوں اور مارپیٹ سے سات فلسطینی زخمی ہوئے
ہیں۔ہلالِ احمر کے مطابق اسرائیلی فوج نے اس کے طبی عملے کو مسجد میں داخل
ہونے سے روکا۔ بتایا جاتا ہیکہ مسجد کے باہر ایک بزرگ خاتون جن کو سانس
لینے میں دشواری ہورہی تھی ، نے روئٹرز کو بتایا کہ ’میں ایک کرسی پر بیٹھی
قرآن کی تلاوت کررہی تھی‘ انہوں نے گرینیڈ پھینکے او ران میں سے ایک میرے
سینے پر لگا‘۔اس طرح ظالم اسرائیلی پولیس اور فوج کی ظالمانہ کارروائیاں
ضعیف عبادت کرنے والوں پر کی جاتی ہیں۔ فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان
نبیل رودینہ نے کہا ہیکہ ہم قابضین کو مقدس مقامات پر سرخ لکیر عبور کرنے
سے متعلق خبردار کرتے ہیں ۔ فلسطینی اداروں نے نمازیوں پر حملے کی مذمت
کرتے ہوئے اس حملے کو جرم قرار دیا ہے۔ اردن اور مصر جو اسرائیل اور
فلسطینیوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کیلئے حالیہ امریکی حمایت یافتہ
کوششوں میں شامل ہیں نے بھی اس واقعہ کی مذمت کی ہے۔اسرائیلی پولیس او رفوج
کی ان ہی کارروائیوں کی وجہ سے فلسطینی عوام جوابی کاررائی انجام دیتے ہیں
او رپھر اس جوابی کارروائی کے نتیجے میں مزید معصوم و بے قصور فلسطینیوں کی
گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے اورانہیں حراست میں لے کرشدید زدوکوب کیا
جاتا ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیلی صحافی، سابق سفارتکار اور حکومتی وزراء نے
گذشتہ دنوں اس بات پر اتفاق کیا ہیکہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی
حکومت میں فلسطینیوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے پرُتشدد واقعات نے اسرائیل کے
ہمسایہ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو نقصان پہنچایا ہے، بالخصوص وہ ممالک جن
کے ساتھ معاہدہ ابراہیمی طے پایا تھا۔ عرب نیوز کے مطابق مڈل ایسٹ انسٹی
ٹیوٹ کے تحت منعقدہ ایک مباحثے میں شرکاء نے کہا کہ نیتن یاہو کی دائیں
بازو کی جماعت کے پہلے تین ماہ ’افراتفری‘ کا شکار رہے اور اس کی پالیسیاں
’نسل پرستانہ‘ اور ’حقیقت سے جدا‘ ہیں۔اردو نیوز کے مطابق دسمبر میں نیتن
یاہو کے اقتدار میں آنے کے بعد سے فلسطینی مظاہروں کو پرتشدد حربوں کے
ذریعہ دبایا جارہا ہے۔ جبکہ مقبوضہ مغربی کنارے میں زیادہ سے زیادہ سماجی
کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا جس میں تقریباً ایک سو فلسطینی ہلاک ہوچکے
ہیں۔بتایا جاتا ہیکہ اسرائیل کی تاریخ میں یہ سب سے زیادہ قدامت پسند حکومت
ہے جس میں نسل پرستانہ اور یہودی بالادستی والے عناصر موجود ہیں جو اہم
عہدوں پر فائز ہیں اور جن کا خارجہ تعلقات اور قومی سلامتی کے امور پر بہت
زیادہ اثر و رسوخ ہے‘۔مباحثے کے شرکاء نے اتفاق کیا ہیکہ مغربی کنارے میں
ہونے والے پرُتشدد واقعات سے فلسطینیوں او راسرائیلیوں کی ہلاکتوں میں
اضافہ ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی ملک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی
بحالی کی غرض سے مزید معاہدے کرنے کو تیار نہیں جیسا کہ مراکش، متحدہ عرب
امارات اور بحرین کے ساتھ ابراہیمی معاہدہ طے پایا تھا۔ اب پھر مسجد اقصیٰ
میں پولیس اور فوج کے مزید مظالم سے صاف ظاہرہوتا ہیکہ اسرائیل حکومت نہیں
چاہتی کہ مسلمان رمضان المبارک میں چین و سکون کے ساتھ عبادات الہٰی انجام
دیں ۔
شاہ سلمان کی دعوت پر ایرانیصدرئیسی کی عنقریب سعودی عرب آمد
ایران اور سعودی عرب کے درمیان بہتر ہوتے تعلقات میں مزید پیشرفت ہوئی ہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران کے نائب صدر محمد مخبر نے کہا ہیکہ ایرانی صدر
ابراہیم رئیسی سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی دعوت پر سعودی عرب
کا دورہ کرینگے۔ ذرائع ابلاغ ’مہر‘ کے مطابق ایرانی نائب صدر نے کہا ہے کہ
صدر منتخب ہونے کے پہلے دن سے ہی رئیسی کی حکمت عملی خطے کے ملکوں کے ساتھ
تعلقات کو نرم کرنا اور انہیں فروغ دینا ہے۔نائب صدر محمد مخبر نے سعودی
عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی میں تیزرفتار پیشرفت کا حوالہ
دیتے ہوئے کہا ہیکہ یہ پیشرفت محض اتفاق نہیں ہے بلکہ اس مرحلے تک پہنچنے
کیلئے پہلے سے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمسایہ ملکوں
کے ساتھ اچھے تعلقات کا قیام ایک اہم اقدام ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایرانی
حکومت کی بنیادی پالیسی بھی ہے اور ایران اس پر ہی کاربند ہے۔ مخبر نے کہا
کہ شاہ سلمان جمہوریہ ایران کے صدر کو سعودی عرب کے دورے کی دعوت دی اور ہم
نے دعوت قبول کرلی۔ ان شاء اﷲ اس حوالے سے اچھی پیشرفت سامنے آئے گی۔ یہاں
یہ بات واضح رہے کہ ماہ رمضان المبارک میں سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن
فرحان اور انکے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبدالہیان نے ملاقات پر اتفاق کیا
ہے۔ ہوسکتا ہیکہ ان دونوں کی ملاقات کے فوراً بعد ایرانی صدر مملکتِ سعودی
عرب کا دورہ کرینگے۔سعودی عرب اور ایران کے درمیان 10؍ مارچ کو سفارتی
تعلقات کی بحالی کا معاہدہ ہوا تھا اور برسوں کی کشیدگی کے بعد دونوں ممالک
نے دوماہ کے اندر اپنے سفارت خانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا ہے۔ اب
دیکھنا ہیکہ مزید پیشرفت کے تحت دونوں وزرائے خارجہ کی ملاقات کتنی جلد
ہوگی۰۰۰
متحدہ عرب امارات کے نائب صدر، ابوظہبی کے ولیعہد اور نائب حکمراں کا تقرر
متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید آل نہیان نے اعلی وفاقی کونسل کی
منظوری سے شیخ منصور بن زاید آل نہیان کو امارات کا نائب صدر مقرر کیا ہے۔
شیخ محمد بن راشد بھی امارات کے نائب صدر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام
دیتے رہیں گے۔ امارات کے سرکاری خبررساں ادارے وام کے مطابق شیخ منصور نائب
وزیراعظم اور وزیرایوان صدارت کی حیثیت سے پہلے ہی سے کام کررہے ہیں۔امارات
کے صدر شیخ محمد بن زاید آل نہیان نے شیخ ھزاع بن زاید آل نہیان کو ابوظبی
کا نائب حکمراں مقررکیا ہے۔شیخ محمد بن زاید نے یہ فیصلہ ابوظبی کے حاکم کی
حیثیت سے جاری کیا ہے۔ وام کے مطابق شیخ محمد بن زایدآل نہیان نے شیخ طحنون
بن زاید آل نہیان کو بھی ابوظبی کا نائب حاکم تعینات کیے جانے کا فرمان
جاری کیا ہے۔اماراتی صدر نے ریاست ابوظہبی کے حکمراں کی حیثیت سے شیخ خالد
بن محمد بن زاید آل نہیان کو ابوظہبی کا ولی عہد مقرر کیا۔
حجاب نہ کرنے پر ’بے رحمانہ‘ کارروائی کا انتباہ
ایران کے چیف جسٹس غلام حسین محسنی نے عوامی مقامات پر حجاب نہ کرنے والی
خواتین کے خلاف’بے رحمانہ‘ قانونی کارروائی کرنے کی دھمکی دی ہے۔ چیف جسٹس
نے ایک ایسے وقت میں دھمکی آمیز بیان دیا ہے جبکہ وزارت داخلہ بھی لازمی
حجاب پہننے کی تائید کرچکی ہے۔ ایرانی میڈیا پر چلنے والے بیان کے مطابق
چیف جسٹس نے کہا کہ ’حجاب نہ کرنا ہماری اقدار سے دشمنی کے برابر ہے‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو اس قسم کے غیر معمولی اقدامات کرتے ہیں انہیں سزا
دی جائے گی اور انکے خلاف بغیر رحم قانونی کارروائی کریں گے‘۔ اب ایران میں
خواتین کو چاہیے کہ وہ اسلامی قوانین جو ایران نے متعین کئے ہیں اسکا لحاظ
کرتے ہوئے حجاب کریں ورنہ اسکی خلاف ورزی کی ذمہ دار وہ خود ہونگی۔کسی بھی
ملک میں وہاں کے قوانین کا احترام کرنا اور اس پر عمل کرنا ہر شہری کیلئے
لازمی ہے۰۰۰
***
|