آپ رضی اللہ عنہ کا نام علی ابن ابی طالب آپکی
کنیت ابوالتراب ہے، آپکی پیدائش 13 رجب ہجرت سے21 سال پہلے ہوئی، حضرت علی
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل اور حسب و نسبت کی بات کی جائے تو بنی نوع
انسان کے ہر فرد کو رشک آجائے، پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کے پیارے صحابہ
رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی شان
عظیم کسی اور صحابی رسول رضی اللہ عنہ کے حصہ میں نہیں آئی، حضرت علی رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کے نبی کریم ﷺ کے ساتھ نسبت کے کیا ہی کہنے، حضرت علی رضی
اللہ تعالیٰ عنہ، نبی کریم ﷺ کے سب سے زیادہ محسن چچا جناب حضرت ابو طالب
کے بیٹے ہیں گویا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ور نبی کریم ﷺ آپس میں چچا
زاد بھائی ہیں، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سب سے بڑا اعزاز یہ بھی
ملا کہ انکا خاتون جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کیساتھ نکاح ہوا۔حضرت علی
رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاندان کی بات کی جائے تو باپ نبی کریم ﷺ کے چچا،
ماں نبی کریم ﷺ کی چچی، بیوی خاتون جنت حضرت فاطمہ رضہ اللہ عنہ نبی کریم ﷺ
کی بیٹی ہیں، جنت کے سردار جناب حضرت حسن اور حسین رضوان اللہ علیھم اجمعین
ہیں جنکی بچپن میں پرورش رحمت اللہ العالمین کے ہاتھوں میں ہوتی ہے،۔ حضرت
علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچوں میں سب سے اول شخص ہیں جو حضرت خدیجہ رضی
اللہ عنہا کے بعد اسلام لائے آپ کے بے شمار فضائل و کمالات اور بے پناہ
شجاعت وبہادری سے دین اسلام کی تاریخ بھڑی پڑی ہے آپ انتہائی بہادر اور
شجاع تھے آپ نے اسلام کی سب سے پہلی جنگ غزوہ بدر سمیت قریبا تمام غزوات
میں شرکت فرمائی اور نبی کریم ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی اسلامی
جنگوں میں آپ بنفس نفیس شریک ہوتے رہے۔قرآن کریم میںایسے کئی مقامات ہیں
جن میں خالق کائنات اللہ کریم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی
فضیلت ومنقبت کو اجاگر کیا ہے۔جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:(البقرۃ:137) یعنی
اگر تم ایمان اس طرح لا ؤ جیسا کہ ایمان صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم
اجمعین لائے ہیں تو تحقیق تم فلاح پا جاؤ گے، اس لحاظ سے بھی صحابہ کرام
رضوان اللہ علیھم اجمعین کا ذکر کرنابہت ضروری ہے، تاکہ امت محمدیہ ان کے
مقام او رمرتبہ کو سمجھے او ر ان کے مطابق اپنے ایمان کو مضبوط تر کرنے کی
کوشش کریں۔قرآن مجید و فرقان حمید کی واضح تر ہدایات کے مطابق کہ اللہ کے
پیارے رسول ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی اقتدا کروگے تو
فلاح پا جاؤ گے، اس لئے ہمیں جہاں صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی
اقتدا کرنی ہے وہی پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی شان اور انکو
خراج عقیدت بھی پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے رہنا چاہئے،اس لیے بھی ان عظیم
ہستیوں کی تعریف کرنا کار خیر ہے کہ قرآن کریم نے ان مقدس انسانوں کے
ایمان کو بعد میں آنے والے انسانوں کے لیے معیار اور پیمانہ بنایا ہے۔نبی
کریم ﷺ سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عقیدت، محبت اور جانثاری بے مثال ہے
ہجرت کے وقت آپ ﷺ نے اپنے بستر پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لٹا یا
اور امانتیں ان کے سپرد کی اور کہا کہ صبح امانتیں جن لوگوں کی ہیں ان کے
حوالے کرکے مدینہ منورہ آجائیں۔ ادھر دارلندوہ میں یہ فیصلہ ہوچکا کہ نعوذ
بااللہ حضورﷺ جیسے ہی گھر سے باہر نکلیں ان کو تلواروں کے وار سے یک بارگی
میں شہید کردیا جائے یہ وہ دشمنان خدا اور رسول تھے جن کی امانتیں حضور ﷺ
کے پاس رکھی تھی جوکہ حضور ﷺ کی سچائی اوردیانتداری کے قائل تھے اور آپ ﷺ
کو صادق اور امین کہتے تھے۔آدھی رات کو حضور ﷺ سورہ یٰسین کی تلاوت کرتے
ہوئے اپنے گھر سے روانہ ہوگئے اور صبح کفار قریش نے حضرت علی رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کو جب دیکھا تو انکی ساری مکاریاں اللہ کے فضل و کرم سے دم توڑ
چکی تھیں اور اللہ کی تدبیر کے سامنے انکی کوئی مکاری کام نہ آئی۔ اور حضو
ر ﷺ اللہ کریم کی حفاظت سے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوچکے تھے۔حضرت علی
کرم اللہ وجہہ الکریم کی خلافت و حکومت کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ قرآن وسنت
کی بنیاد پر قائم نظامِ حکومت تھا۔ خلیفۃالمسلمین حضرت مولیٰ علی رضی اللہ
عنہ نے 656سے661ء چار سال آٹھ مہینہ نودن تک امور خلافت کو انجام دیا۔حضرت
علی کر م اللہ وجہہ علم کے اعتبار سے بھی علمائے صحابہ رضوان اللہ علیھم
اجمعین میں بہت اونچا مقام رکھتے ہیں آپ کے فتوے اور فیصلے اسلامی علوم کے
جواہر پارے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فر ماتے ہیں کہ ہم نے جب بھی
آپ سے کسی مسئلہ کودریافت کیا تو ہمیشہ درست ہی جواب پایا۔حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سامنے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر ہوا تو آپ
رضی اللہ عنہا نے فر مایا کہ علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ مسائل شریعہ کا
جاننے والا کوئی نہیں ہے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں کوئی مشکل مقد
مہ پیش ہوتا اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ موجود نہ ہوتے تو وہ اللہ تعالیٰ
کی پناہ مانگا کر تے تھے کہ مقد مہ کا فیصلہ کہیں غلط نہ ہو جائے۔(تا ریخ
الخلفاء،خطبات محرم:ص204) مشہور ہے کہ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے
سامنے ایک ایسی عورت پیش کی گئی جسے زنا کا حمل تھا۔ ثبوت شر عی کے بعد
آپنے اسے سنگسار(ایک قسم کی شرعی سزا جس میں آدمی کو کمر تک زمین میں گاڑ
کر پتھر مار،مار کر اسے ختم کر دیا جاتا تھا، یہ سزا زانی (RAPEST اور
زانیہ کو دی جاتی تھی) کا حکم فر ما یا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یاد دلا
یا کہ حضور ﷺ کا فر مان ہے کہ حاملہ عورت کو بچہ پیدا ہونے کے بعد سنگسار
کیا جائے۔اس لیے کہ زنا کرنے والی عورت اگر چہ گناہ گار ہوتی ہے مگر اس کے
پیٹ کا بچہ بے قصور ہو تا ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کی یاد دہانی کے بعد
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے فیصلہ سے رجو ع کر لیا اور فر
مایا:اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا (رضی اللہ تعالیٰ عنہما)(خطبات
محرم:ص،204سے205) حضرت علی کر م اللہ وجہہ ا لکریم کا علمی مقام و مرتبہ،
ان کی قرآن فہمی، حقیقت شناسی اور فقہی صلاحیت تمام اولین وآخرین میں
ممتاز ومنفرد تھی۔اللہ رب العزت نے انھیں عقل وخرد کی بے شمار صلاحیتوں سے
نوازا تھا کہ جو مسائل دوسرے حضرات کے نزدیک پیچیدہ اورمشکل ترین سمجھے
جاتے تھے، انہیں مسائل کو وہ آسانی سے حل کر دیتے تھے۔ اکا بر صحابہ کرام
رضوان اللہ علیھم اجمعین ایسے اوقات سے پناہ مانگتے تھے کہ جب کوئی مشکل
مسئلہ پیش آجائے اور اس کے حل کے لیے حضرت علی کر م اللہ وجہہ موجود نہ
ہوں۔حضرت سعید بن ا لمسیب رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں: ’’حضرت عمر رضی
اللہ عنہ اس پیچیدہ مسئلہ سے اللہ تعا لیٰ کی پناہ مانگتے تھے جسے حل کرنے
کے لیے ابو الحسن علی رضی اللہ عنہ ابن طالب نہ ہوں۔(فضائل الصحابہ،
ج:2،ص:803،رقم)۔حضرت علی کر م اللہ وجہہ کا علمی مقام بہت بلند تھا اور
کیوں نہ ہو کہ ان کی شان میں نبی کریم ﷺ کا فر مان عالیشان ہے کہ’’میں علم
کاشہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔’’پوری حدیث پاک انا مدینۃ العلم و ابو
بکر اساسھا و عمر حیتانھا وعثمان شفقھا و علی بابھا۔(رواہ الحاکم،
الطبرانی، 1089-1090، الشوقانی، 307-308،القول المجموعۃ) ترجمہ: میں شہر
علم ہوں،ابوبکر اس کی بنیاد ہیں،عمر اس کی دیواریں ہیں،عثمان اس کی چھت ہیں
اور علی اس کا دروازہ ہیں۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بہت سے ایسے کاموں کی
ابتدا فرمائی جس کے آثار نہ صرف یہ کہ باقی و پائندہ ہیں بلکہ جب تک عربی
زبان اور اس کے قواعد نحو و صرف باقی ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کارنامہ
زندہ و جاوید رہے گا۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم عربی گرامر کے موجد ہیں
(ایجاد کرنے والے ہیں) آپ ایسے علم کے موجد ہیں جس کے بغیر کوئی شخص عالم
نہیں بن سکتا۔آج اگر کوئی انسان عالم ہے اور قرآن و حدیث کو سمجھنے کی
صلاحیت رکھتا ہے تو یہ صلاحیت صرف اسی علم کی بدولت ہے جس کے موجد باب
العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں اور وہ علم عربی گرامر(Grammer)یعنی علم
نحو ہے۔اہل علم اس بات کو جانتے ہیں کہ کسی زبان کو سمجھنے کے لیے اس کی
لغت کی معرفت کس قدر ضروری ہے پھر عربی لغت کی اہمیت تو اور بڑھ جاتی ہے
قرآن وحدیث کو پڑھنا،سمجھنا،علم نحو اور صرف یعنی عربی گرامر کے بغیر ممکن
نہیں،اسی لیے عربی گرامر کے متعلق کہا گیاہے’’*اَلصَّرْفُ اُمُّ
الْعُلُوْمِ وَالنَّحَوْ اَبُوْھَا* ’’علم صرف تمام علوم کی ماں ہے اور علم
نحو ان سب کا باپ ہے’’اور ان دونوں علوم کے موجد یعنی بانی کہا جاسکتا ہے،
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے سب سے پہلے آپ ہی نے ان دونوں علوم کے
بنیادی قوانین املا کرائے اور اسم،فعل اور حرف کی پہچان بتائی۔پھر ان کے
بتائے ہوئے علم کو بغرض سہولت دوحصوں میں تقسیم کرکے ایک کو ’’صرف’’کا نام
دیا گیا اور دوسرے کو’’نحو’’کا۔ حقیقت میں ’’صرف’’نحو ہی کا ایک حصہ ہے اور
اس کے موجد حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم ہیں۔حضرت براء بن عازب رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر پر
تھے، (راستے میں) ہم نے وادی غدیر خم میں قیام کیا۔وہاں نماز کے لیے اذان
دی گئی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے دو درختوں کے
نیچے صفائی کی گئی، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ ظہر ادا کی
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ
میں کل مومنوں کی جانوں سے بھی قریب تر ہوں؟ انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں!
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں ہر
مومن کی جان سے بھی قریب تر ہوں؟ انہوں نے عرض کیا: کیوں نہیں! راوی کہتا
ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ
پکڑ کر فرمایا: ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔اے اللہ! اُسے تو
دوست رکھ جو اِسے (علی رضی اللہ عنہ کو) دوست رکھے اور اُس سے عداوت رکھ جو
اِس سے عداوت رکھے۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور اُن سے کہا: ’’اے ابن ابی طالب!
مبارک ہو، آپ صبح و شام (یعنی ہمیشہ کے لئے) ہر مومن اور مومنہ کے مولا بن
گئے ہیں۔ اس حدیث کو امام احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘الحدیث
رقم 65: أخرجہ أحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 281، وابن أبی شیبۃ فی
المصنف، 12 / 78، الحدیث رقم: 12167.۔مدینے ہجرت کے بعد حضور ﷺ نے حضرت علی
رضی اللہ عنہ کا نکاح اپنی سب سے پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے
کیا سرورکائنات ﷺ کی صاحبزادی کا یہ نکاح سادگی کی ایک مثال ہے چونکہ حضو ر
ﷺ حضرت علی کے کفیل تھے اس لیے آپ نے ان کو کچھ ضروریات زندگی کا سامان
خرید کردیا یہ جہیز نہیں تھااور ایک مکان کا بندوبست کیا اوراپنی پیاری
بیٹی کو خود رخصت کرآئے۔اور ایسی مثال اور سنت جاری فرمائی کہ جس پر عمل
پیرا ہوکر ہی خیر و برکات حاصل ہوسکتی ہیں۔اک موقع پر حضور اکرم ﷺ نے
فرمایا کہ’’ہارون علیہ السلام کو جو نسبت موسیٰ علیہ السلام سے ہے وہی نسبت
علی رضی اللہ عنہ کو مجھ سے ہے مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ’’حضرت علی رضی
اللہ عنہ بھی حضور اکرم ﷺ سے بے حد محبت کرتے، جانثاری میں آپ اپنی مثال
تھے مواخات کے موقع پر آنحضور نے دنیا اور آخرت میں حضرت علی رضی اللہ
عنہ کو اپنا بھائی بنایا۔آپ رضی اللہ عنہ ذہین اور صاحب علم تھے آپ ایک
بہادر اور نڈر شہسوار تھے۔ دربار رسالت ﷺ سے آپ کو اسد اللہ کا خطاب ملا۔
اس کے علاوہ حیدر اور کرار بھی آپ کے القاب ہیں۔غزوہ خبیر کے موقع پر رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن میری طرف پیغام بھیجا، اس حال میں
کہ میری آنکھ دکھ رہی تھی، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری آنکھیں دکھ
رہیں ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری آنکھ پر اپنا لعاب (مبارک)
لگایا، پھر فرمایا: اے اللہ! اس سے گرمی اور سردی کو دور کر دے۔اس کے بعد
میں نے گرمی اور سردی کو محسوس نہیں کیا، فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا کہ میں ایسے آدمی کو علم دے کر بھیجوں گا جس سے اللہ اور
اللہ کے رسول محبت کرتے ہیں اور وہ اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم سے محبت کرتا ہے اور میدان سے فرار نہیں ہو گا۔ (راوی) نے فرمایا کہ
اس کے بعد لوگ دیکھنے لگے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ
وجہہ کو بھیجا۔(فضائل الصحابۃ:565/2، رقم الحدیث:950)۔حضرت علی رضی اللہ
عنہ کے مکمل فضائل لکھنا کسی شخص کے بس کی بات نہیں ہے، میرے جیسا گناہگار
انسان چھوٹی سی کوشش کرکے اپنا نام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے
محبت کا اظہار کرنے والوں کی لسٹ میں لکھوانے کا متلاشی ہوتا ہے۔حقیقت تو
یہ ہے کہ دنیا میں اسلام کا بڑے سے بڑا عالم دین بھی میرے پیارے آقا سرور
کونین حضرت محمد مصطفی ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین
کے فضائل کومکمل طور پر قلمبند نہیں کرسکتا اور نہ ہی کسی میں اتنی ہمت اور
طاقت ہے۔کیونکہ میرے آقا ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے
فضائل صرف اور صرف اللہ کریم کی ذات اقدس ہی مکمل طور پر جانتی ہے۔میرے
پیارے رسول ﷺ کے عظیم ساتھی جناب علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فتنہ خارجیت سے
لڑتے ہوئے خارجی دشمنوں کی زد میں آئے، یہاں تک کہ رمضان شریف کے اک
بابرکت دن اک خارجی ابن ملجم نے زہرپلائی ہوئی تلوار سے آپ پر ایسی ضرب
لگائی کہ آپ بالآخر شہید ہوگئے۔مگر شہید ہونے سے قبل ہی ابن ملجم کو
گرفتار کرلیاگیا، اور آپ کے سامنے حاضر کیاگیا، اس کی شکل و صورت کو
دیکھتے ہی آپ نے حکم دیا کہ مقتول سے پہلے قاتل کی پیاس بجھائی جائے۔ اس
جملے میں کتنی معنویت اور اخلاقی تعلیمات مضمر ہیں۔ یعنی کہ آپ کو بھی
پیاس کی شدت تڑپارہی ہے مگر حکم دیتے ہیں کہ پہلے میرے قاتل کی پیاس بجھائی
جائے۔ آپ کے اس اخلاق سے ابن ملجم بہت شرمندہ ہوا، اس کے بعد ابن ملجم کے
حق میں اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ:’’اے عبدالمطلب کے فرزندو! مسلمانوں کا بے
تکلف خون نہ بہانا، تم کہوگے کہ امیرالمومنین شہید کردئیے گئے، مگر خبردار
سوائے میرے قاتل کے کسی کو قتل نہ کرنا، دیکھو اگر میں اس وار سے مرجاتاہوں
تواس پر بھی ایک ہی وار کرنا، اس کا مثلہ نہ کرنا، کیوں کہ میں نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے: خبردار کسی ذی روح کو
مارکر اس کا مثلہ نہ کیا جائے خواہ وہ کتنا ہی بُرا کیوں نہ ہو۔ بلکہ آپ
نے اس بات پر بھی زور دیا کہ:’’اس کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کیا جائے،
اگر زندہ رہاتو سوچوں گا، معاف کروں یا قصاص لوں اور اگر شہید ہوجاؤں تو
ایک جان کا بدلہ ایک ہی جان لیاجائے، اس کا مثلہ ہرگز نہ کیا جائے۔‘‘آپ
رضی اللہ عنہ 21رمضان المبارک 40ھ میں شہادت کے اعلی ترین مرتبہ پر فائز
ہوکر اپنے اللہ اور اسکے پیارے رسول ﷺ کے پاس چلے گئے۔اللہ کی لاکھوں
کروڑوں رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں آپ ﷺ پر اور آپکی آل پاک رضوان اللہ
علیھم اجمعین پر اور آپ ﷺ کے اصحاب پاک رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین پر۔
آمین ثم آمین
نوٹ:اس تحریر میں کسی بھی قسم کی غلطی بشمول حوالہ نمبرمعنی،املاء، لفظی یا
پرنٹنگ کی غلطی پر اللہ کریم کے ہاں معافی کا طلبگار ہوں، اور اگر کسی
مسلمان بھائی کو اس تحریر میں کسی بھی قسم کا اعتراض یا غلطی نظر آئے تو
براہ کرم معاف کرتے ہوئے اصلاح کی خاطر نشان دہی ضرور فرمادیجئے گا۔ واللہ
تعالی اعلم
|