جنگِ بدر مسلمانوں کو للکار کے کہتی ہے

یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئی مہذب معاشرہ جنگ وجدال کو پسند نہیں کرتا لیکن یہ بھی مسلمہ امر ہے کہ باغیرت اور باہمت قومیں دشمن کی تلوار کا جواب تلوار سے ہی دیتی ہیں۔ جب دشمن میدانِ جنگ میں للکارتا ہے توپھر وہ وقت تہذیب وشائستگی کے اظہار کا نہیں بلکہ اپنی طاقت وقوت کے مظاہرے اور اپنی شجاعت وبہادری کا سکہ منوانے کا ہوتا ہے ۔میدان کارزار کسی قوم کو یا تو گمنامی کے غار میں ڈھکیل دیتا ہے یا پھر مذہبی اورسیاسی برتری وقیادت اسے نصیب ہوتی ہے۔کسی حدتک یہ صحیح ہے کہ ہمیشہ جنگ میں الجھے رہناقوموں کی ہمہ جہتی ،تعمیروترقی کی راہ میں زبردست رکاوٹ ثابت ہوتاہے اورمستقل حالتِ جنگ قوم کی ذہنی نشوونماپربیحداثراندازہوتی ہے لیکن مشاہدہ اورتاریخ یہی بتاتی ہے کہ جس قوم اورمخصوص پیغام کے علمبردار افراد کا مقابلہ مخالفت کے طوفانوں اوردشمن کی قوت سے نہ ہو وہ قوم کبھی ترقی کی منزل نہیں پاسکتی۔اور نہ ایسے افراد اپنے مخصوص پیغام کی اشاعت وتبلیغ اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری پوری کرپاتے ہیں اورنہ ہی انہیں وہ بلندی اور عظمت نصیب ہوتی ہے جو مخالف قوتوں سے نبردآزما ہونے کے بعد حاصل ہوتی ہے ، مزاحم قوت سے برسر پیکار ہونے ہی سے عزم جواں اورحوصلے بلند ہوتے ہیں، مشکلات وآزمائش کی تپش سے ہی قوم کے افراد یا کسی نصب العین کے پیروکار کندن بن کرنکلتے ہیں۔ مصائب وآلام کی گھڑیاں ہی مخلص وبے لوث افراد کی شناخت کاذریعہ بنتی ہیں۔ عصرحاضرکے مسلمانوں کو غور و فکر کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنی تاریخ فراموش کرچکے ہیں؟ کہ نظام مصطفیٰﷺ کے علمبردار جب میدانِ کارزار میں آجاتے تھے تو پھر وہ میدان سے بھاگنا یاناکام ہوکر واپس جانانہ جانتے تھے۔ وہ جرأت وشجاعت کے فلک بوس ستون اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرناہی اپنے لئے عظیم سعادت اور بلند مقام سمجھتے تھے ۔ان کے سامنے دوہی راستےہوتے تھے اور دونوں ہی کامیابی وکامرانی کے راستے ہیں راہِ حق میں سرکٹا کر ابدی زندگی کے حصول کاراستہ یا اللہ اوراس کے رسول کے دشمنوں کا سر قلم کرکے مجاہدین کی فہرست میں شامل ہوکر بلندی کا راستہ، ان دونون عظیم مقاصدہی کوپیشِ نظررکھ کروہ میدان جنگ میں اترتے تھے اوردادِ شجاعت دیتے تھے۔ اس عزم کی موجودگی میں ناکامی وشکست کاکوئی تصورتک ان کے ذہن میں نہ آتاتھا، کہ ناکامی ونامرادی کاخطرہ تواسے ہوتاہے جس کے پیش نظردنیاکاعیش وعشرت ہواوراسے دنیامحبوب ومرغوب ہو، وہ عظیم شخصیات جو صرف حیاتِ جاوداں ہی کی خواہاں تھیں بھلا شکست وفتح کے ظاہری اسباب کوکیونکرخیال میں لاتے ہیں انہوں نے توصرف ایک ہی منزل چنی تھی اور وہ فتح وکامرانی کی منزل تھی، بقا اورحیات کی منزل تھی، جوشہید ہوکربھی حاصل ہوتی ہے اوردشمن پرغالب آکربھی، ان کامقصداورنصب العین صرف ایک ہی تھا۔ ؎ کٹ توسکتی ہے یہ گردن پرلچک سکتی نہیں۔(ماخوذازمقدمہ غزوۂ بدریوم الفرقان)
تاریخ اسلام کاایمانداری سے مطالعہ کرنے والے یہ بات جانتے ہیں کہ پیغمبراسلام ﷺ اورمسلمانوں کے پروگرام میں جنگ وجدال فتنہ وفسادہرگزشامل نہ تھاوہ تومدینہ کوایک مستحکم پرسکون شہربنانے کے بعداسلام کی تبلیغ واشاعت میں مصروف رہناچاہتے تھے ،مکہ میں اُن کے ساتھ جوکچھ ہواوہ اسے بھُلاچکے تھے،انہوں نے توکبھی اہل مکہ سے اپنے چھوڑے ہوئے مال وجائیدادتک کامطالبہ نہ کیا،نہ ہی رحمت عالم ﷺ نے اپنے غلاموں کوظالموں سے بدلہ لینے کاکبھی حکم دیاانہوں نے کبھی یہ تک نہ سوچاتھاکہ اب ہم مکہ وشام کی گذرگاہ پرہیں یہ ایک اچھاموقع ہے اہل مکہ کی تجارت کوتباہ کردینے اوران کی معاشی حالت کوکمزوربنادینے کا........لیکن اہل مکہ پرتومسلمانوں کی دشمنی اوران سے نفرت کاایسابھوت سوارتھاکہ وہ اُن کوصرف مدینہ ہی نہیں بلکہ دنیاکے کسی بھی گوشہ میں زندہ دیکھنانہ چاہتے تھے انہیں اس پربھی چین نہ آیاکہ اسلام مکہ سے چلاگیاوہ توصرف مسلمانوں کوتہس نہس ہی کردیناچاہتے تھے۔اس کے بعدمسلمانوں نے جوکچھ کیاوہ صرف اپنی مدافعت تھی،اپنے جان ومال ،اپنے مذہب کی حفاظت کے لئے کیاجس کاانہیں صرف مذہبی نہیں بلکہ اخلاقی وفطری حق حاصل تھااورآج بھی ہے۔بالکل اسی طرح جس طرح دنیاکی دوسری قومیں اپنے تحفظ کے لئے اپناحق استعمال کرتی ہیں۔جنگِ بدرواقع ہونے کاسبب یہ تھاکہ قریش نے تقریباًپورے عرب میں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کی مہم چلارکھی تھی،مکہ سے چھوٹی چھوٹی ٹولیاں نکل کراورمدینہ کے قرب وجوارمیں لوٹ مارکرکے چلی جاتیں۔ ابن جابرفہری مکہ کے سرداروں میں سے تھااس نے مدینہ کی چراہ گاہ پرحملہ کیااورمسلمانوں کے جانوربھگاکرلے گیاان حرکتوں کامقصدصرف مسلمانوں کوہراساں وپریشان کرناتھا۔ان دنوں مدینہ کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ مہاجروانصارسب ہی کاراتوں کاآرام اوردن کاچین ختم ہوگیاتھا،ہروقت کفارِمکہ کی جانب سے حملے کی خبریں آتی رہتیں اورمسلمان مقابلے کی تیاریاں کرتے رہتے اس صورت حال سے معاشی حالات پربھی بُرااثرتھا،کاروبارمعطل ہوکررہ گیاتھاخودنبی کریم ﷺساری ساری رات جاگ کرگزارتے اورشہرکاگشت کیاکرتے تھے۔اس حقیقت پرکوئی شک نہیں کیاجاسکتاکہ اس وقت مسلمان کسی سے جنگ کرنایامعمولی جھگڑاکرنابھی نہ چاہتے تھے،خدائےپاک نے انہیں جوپناہ گاہ عطافرمادی تھی وہ اسی میں زندگی کے لئے پُرسکون معاشرے کی بنیادیں قائم کرناچاہتے تھے ۔لیکن اہلِ مکہ اُن کے خون کے پیاسے بنے ہوئے تھے اوروہ ہرطرح مدینہ کوبرباداورمسلمانوں کوتباہ کردیناچاہتے تھے جب کہ ہوناوہی تھاجوفیصلہ الٰہی ہوچکاتھا۔بالاٰخروہ وقت آگیاجس کاانتظاراللہ کے رسول ﷺ اورآپ کے غلاموں کوپندرہ سال سے تھایعنی مسلمانوں کواللہ نے جہادکاحکم دیا۔کفارِ مکہ کے پندرہ سالہ مظالم کابدلہ لینے کے لئےرجب ۲؁ ھ میں سریہ عبداللہ بن جحش ہواجس میں حضرت واقدبن عبداللہ تمیمی رضی اللہ عنہ کے ایک تیرنے عمروبن الحضرمی کوہلاک کردیا،مسلمان اورکافرون کے درمیان ہونے والی جنگوں کایہ پہلامقتول تھااس کی ہلاکت کی اطلاع جب کفارمکہ کوہوئی توپورے شہرمیں ایک آگ بھڑک اٹھی، یہ ظالم ،مسلمانوں سے پہلے ہی کیاکم جلے ہوئے تھے اس خبرنے توان کوآپ ہی سے باہرکردیا۔اب توہرطرف خون کابدلہ خون چاہئے ،مدینہ پرحملہ کرومسلمانوں کونیست ونابودکردوکے نعرے بلندتھے۔(غزوۂ بدریوم الفرقان)ہجرت کے بعدمسلمانوں کاسب سے پہلاغزوہ بدرکےمقام پرلڑی جانے والی جنگ ہے جسے تاریخ معرکہ بدریاغزوۂ بدرسے یادکرتی ہے۔اس غزوہ کے موقع پرقریش مدینہ منورہ کوتباہ کرنے اوراسلام کومٹانے کے لئے اس طرح باہم اوراکٹھاہوئے تھے کہ ان کاپوراسراپالوہے کے ہتھیاروں سے آراستہ اوران کی تعدادایک ہزارسے زائدہی تھی۔ان کواوران کی فوجی اورجنگی طاقت اورسطوت کادیکھ کرکوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتاتھاکہ اس معرکہ میں جس میں صرف تین سوتیرہ مسلمان شامل تھے اوران کی تلواریں کندتھیں ،ان کے ہتھیارٹوٹے ہوئے تھے اپنے سے تین گناسے زیادہ حریف کے مقابل کامیاب ہوسکیں گے۔مسلمانوں کوہتھیاروں اورفوجی طاقت پرنہیں بلکہ اللہ اوراس کے رسول پراپنے جذبۂ ایمانی پراس قدراعتمادتھاکہ دنیاکی کوئی طاقت ان کوشکست نہیں دے سکتی تھی،یہ مسئلہ آج بھی دنیاکے مورخوں کے لئے حیرت کاباعث بناہواہے کہ اتنی کم تعدادمیں نہتے اورکمزورہتھیاررکھنے والے نحیف مسلمانوں نے اتنے بڑے دشمن پرکس طرح فتح پائی لیکن اس غزوہ نے ساری دنیاپریہ ثابت کردیاکہ اگرمسلمانوں میں توحید و رسالت کاحقیقی جذبہ موجودہواوراس کادل ایمان ویقین کی دولت سے مالامال ہوتوپھرجیت اورفتح اسی کی ہوگی۔

قارئین کرام! جنگِ بدر۱۷/رمضان المبارک ۲ھ جمعہ کے دن مقام بدرمیں واقع ہوئی۔اس جنگ میں مسلمانوں کوایک بڑے لشکرجرارسے فتح ونصرت ملی ۔اس فتح ونصرت کے اسباب وعلل پرغورکرنے والے انگشت بدنداں ہیں کہ آخرکس طرح تین سوتیرہ لوگوں نے ہزارسے زائداورآلات حرب سے مزین لوگوں کوشکست دے دی ۔توآج بھی جنگِ بدرتمام انسانوں کودعوت فکردے رہی ہے۔اورعصرحاضرکےبزدل مسلمانوں کوللکارکرکہتی ہے کہ جن لوگوں کواللہ نے فتح عطاکی ذراان کے ایمان ویقین کاجائزہ لوکہ کس طرح ہروقت اللہ عزوجل اوراس کے رسولﷺ کے حکم پرجان دینے کے لئے تیاررہتے تھے ۔کہ ٹل نہ سکتے تھے توجنگ میں اڑجاتے تھے*پاؤں شیروں کے بھی میدان سے اکھڑجاتے تھے۔نبی کاحکم ہوتوکودجائیں ہم سمندرمیں*جہاں کوغرق کردیں نعرۂ اللہ اکبرمیں۔ہمارامرنا،جیناآپ کے احکام پرہوگا*کسی میدان میں ہوخاتمہ اسلام پرہوگا۔مجاہدین اسلام کے عزم وحوصلہ اورلشکرکفارکے غرورتکبرکاموازنہ کرتے ہوئے علامہ سیدسعادت علی قادری لکھتے ہیں:’’مجاہدین اسلام کے سامنے ،خداکی رضاورسول کی اطاعت اوراسلام کوغالب کرنے کاایساجذبہ تھاجس کی تکمیل کے لئے ان کے دل میں اب نہ توکسی چیزکی محبت باقی رہی تھی ،نہ مذہبی ذہن میں کسی کی قوت کا تصوراورکسی ڈرکاخیال رہاتھا،انہیں جنت کے باغات سامنے نظرآرہے تھے جن کی راہ میں چندپتھر،چندکانٹے،کافروں کی صورت میں تھے،وہ انہیں بہت کم نظرآئے ۔پس انہوں نے عزم کرلیاکہ ان پتھروں اورکانٹوں کوہٹاتے ،کاٹتے ہمیں اپنی منزل تک بہرحال پہونچناہے اوراہل باطن کوتکبروغرور،تعدادووسائل کی کثرت پراعتماد،شہرت وعزت کی ہوس نے شیطان کے مکروفریب نے ایسااندھاکردیاتھاکہ صبرواستقامت، شجاعت ودلیری کے سورج ان کے سامنے چمک رہے تھے لیکن انہیں توایسانظرآرہاتھاکہ سامنے چندچراغ ٹمٹمارہے ہیں بس ہم نے پھونک ماری اوریہ ہمیشہ کے لئے بجھے اورفرعونیت کاتاج ہمیں ملا‘‘۔ حق وباطل کی آویزش کل بھی تھی اورآج بھی ہے اورہمیشہ رہے گی ،دنیائے کفرآج بھی دنیائے اسلام سے برسرِ پیکارہے اوراسلام کے خلاف ہرطرح سے مصروفِ عمل ہے،لیکن مسلمان حکموتیں ہوں یااسلامی معاشرے کے افرادان کی اکثریت اپنی تاریخ سے سبق حاصل کرنے اوردنیائے کفرکے سامنے سیسہ پلائی دیواربننے کی بجائے انہی کی ذہنی غلامی کاشکارہیں؎ وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتارہا* کارواں کے دل سے احسال زیاں جاتارہا۔آج مسلم نوجوانوں کے حالات کس قدرناگفتہ بہ ہیں کہ اپنے اسلاف کی تاریخ تک معلوم نہیں ہے ۔ فلمی ڈرامے ،سیریل دیکھنےاوربے حیاقوموں کی زندگی پرمشتمل ناول وغیرہ پڑھنے میں اس قدرمنہمک ہیں کہ اپنے اسلاف کی تاریخ کامطالعہ کرنے اوران کی ہمت وشجاعت سے سبق حاصل کرنے کے لئے وقت ہی نہیں ملتا۔جنگِ بدرمسلمانوں کے ضمیرکوللکارکے کہہ رہی ہے کہ اے مسلم نوجوانو! خواب غفلت سے بیدارہوجاؤ ! اور اپنے بزرگوں کی فتح ونصرت کے رازکوجانو! اللہ سے دعاہے کہ امت مسلمہ کوسمجھ عطافرمائے۔اورشہدائے بدررضوان اللہ علیہم اجمعین کے صدقے فرعون وقت سے نجات عطافرمائے۔آمین۔
 

Mufti Muhammad Shams Tabrez
About the Author: Mufti Muhammad Shams Tabrez Read More Articles by Mufti Muhammad Shams Tabrez: 14 Articles with 9015 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.