مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے غالباً پہلی بار کسی ریاست
کا غیر انتخابی دورہ کیا ہے۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہنوز اپنے آپ کو
پارٹی کا صدر سمجھتے ہیں اور ملک کے داخلی امور میں شاذو نادر ہی دلچسپی
لیتے ہیں حالانکہ یہ ان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اروناچل پردیش کو امیت شاہ
کے اس دورے کی سعادت نصیب ہوئی توسے چین اس پر اعتراض کردیا۔ چینی وزارت
خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ وہ ہندوستانی وزیر داخلہ کے دورہ اروناچل پردیش
کی سختی سے مخالفت کر تا ہے اور ان کی سرگرمیوں کو بیجنگ کی علاقائی
خودمختاری کی خلاف ورزی تصور کرتا ہے۔امیت شاہ نے اروناچل کے کی بیتھو میں
سرحدی دیہات باشندوں کا معیار زندگی بہتر بنانے ،نقل مکانی کو روکنے اور
سرحدی تحفظ کی مضبوطی کے لیے وائبرنٹ ولیج اسکیم کا آغاز کیا جس پر 4800
کروڑ روپے لاگت آئے گی۔ حال ہی میں چین نے اروناچل پردیش میں 11 مقامات کے
نام بدل دیے تھےجن میں کچھ اروناچل پردیش میں ہیں ۔ ویسے وزیر داخلہ نے
وہاں یہ اعلان کیا کہ کوئی ہماری سرحد پر نہ بری نظر ڈال سکتا ہے اور ایک
انچ زمین کے سکتا ہے کیونکہ سرحد کی حفاظت ملک کا تحفظ ہے لیکن سیٹیلائیٹ
کی تصاویر اس دعویٰ کی تردید کرتی ہیں ۔
اروناچل پردیش کی سرحد پر چینی سرگرمیاں تشویشناک ہیں۔ چین اور ہندوستان کے
درمیان یہ سرحدی تنازعہ کافی عرصے سے چل رہا ہے لیکن گزشتہ چند سالوں میں
زیادہ گہرا ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ہندوستان کے اندر بی جے پی کی سرکاریں
اپنے ہی شہروں کے نام بدل بدل کر خوش ہوتی ہیں ۔ پہلے اترپردیش میں مغل
سرائے، فیض آباد اور الہ باد کا نام بدلا گیا اب مہاراشٹر کے اندر اورنگ
آباد اور عثمان آباد کے نام بدلنے کا جشن منایا جارہا ہے جبکہ چین نے
اروناچل پردیش کے 11 مقامات پر اپنا دعویٰ پیش کردیا ہے مگر سرکار کے کانوں
پر جوں نہیں رینگتی۔ چین نے اروناچل پردیش کے لیے 'چینی، تبتی اور پنین'
الفاظ میں ناموں کی تیسری فہرست جاری کی ہے۔ اروناچل میں جی 20 اجلاس کا
انعقاد کے موقع پر 11 مقامات کی فہرست جاری کرکے رنگ میں بھنگ ڈالنے کی
کوشش کی ۔ چین نے ناموں کی تبدیلی کے ساتھ نقشہ بھی جاری کیا ہے۔ اس میں
اروناچل پردیش کے کچھ حصوں کو جنوبی تبت میں دکھایا گیا ۔
چین نے ان تبدیلیوں کے ساتھ نقشہ جاری کرنا حکومت ہند کے زخموں پر نمک پاشی
ہے۔ اس نقشے میں ایٹا نگر کے قریب کا ایک شہر بھی شامل کیا گیا ہے۔ 2017
میں دلائی لامہ ہندوستان کے دورے پر آئے تو اس سے ناراض ہوکر چین نے
اروناچل پردیش کے ناموں کی فہرست پہلی بار شائع کردی ۔ اس کے بعد دوسری
فہرست 2021 میں جاری کی گئی۔ اس وقت یعنی دسمبر 2021 میں ہندوستانی وزارت
خارجہ کے ترجمان ارندم باغچی نے کہا تھا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب چین نے
اروناچل پردیش میں جگہوں کے نام اس طرح تبدیل کرنے کی کوشش کی ہو۔یہ بات تو
درست تھی لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت ہند نے اس کے جواب میں کیا کیا؟ عرصۂ
دراز سے حزب اختلاف ایل اے سی تنازعہ پر مرکز کی مودی حکومت سے سوال پوچھ
رہا ہے لیکن حکومت نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اپوزیشن نے جب حکومت سے
پارلیمنٹ میں اس مسئلہ پر بحث کا مطالبہ کیا تو وہ اس پر راضی نہیں ہوئی ۔
ابھی حال میں کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے ٹوئٹ کرکے کہا کہ "چین نے تیسری
بار اروناچل میں ہمارے علاقوں کا نام بدلنے کی جرأت کی ہے۔21؍ اپریل، 2017
- 6 مقامات کے نام بدلے، اس کے بعد 30؍ دسمبر 2021 - 15 جگہوں کے نام بدل
دئیے گئے اور اب 3 ؍اپریل 2023 - 11 مقامات کے نام میں تبدیلی کی گئی اس پر
حکومت ہند کی جانب سے سناٹا چھپنّ انچ کے سینے کی یاد دلاتا ہے۔ کھڑگے کے
خیال میں گلوان کے بعد مودی جی کے ذریعہ چین کو کلین چٹ دینے کا خمیازہ ملک
بھگت رہا ہے۔
اروناچل پردیش کے بغل میں بھوٹا ن ایک ایسا ننھا سا ملک ہے جس کو بہت سارے
لوگ ہندوستان حصہ سمجھتے ہیں ۔ یہ ملک اپنی بقاء اور ترقی کے لیے ہندوستان
پر اسی طرح منحصر ہےجیسے اسرائیل کا انحصار امریکہ پر ہے۔ ایسے میں بھوٹان
کے وزیراعظم لوٹے شیرنگ کا ایک انٹرویو سفارتی حلقوں میں بحث کا موضوع بن
گیا۔ بیلجیم کے ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہہ دیا کہ چین اور
ہندوستان کے درمیان ڈوکلام تنازع کے حل میں چینی حکام کو بھی برابری کا
کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس معاملے میں شدو مد کے ساتھ چین کو ملوث کرنا ایک
چونکانے والا موقف ہے۔ ہمالیائی مملکت بھوٹان اور ہندوستان کے درمیان
روایتی قربت اورخاص تعلقات ہیں۔ بھوٹان اور ہندوستان کے درمیان 1949 سے
انتہائی مضبوط رشتے رہے ہیں۔ ستمبر 1958 میں پنڈت جواہر لال نہرو نے
ہندوستانی وزیر اعظم کی حیثیت سےبھوٹان کا پہلا سرکاری دورہ کیاتھا۔ 69 سال
کی عمر میں نہرو 10 دنوں تک 15000 فیٹ کی اونچائی کو چھونے والے مشکل
راستوں پر پیدل چل کر تقریباً 105 کلومیٹر کی دوری طے کرتے ہوئے بھوٹان
پہنچے تھے۔ اس کے بعد سے بھوٹان اور ہندوستان کے درمیان بہترین دو فریقی
تعلق رہا ہے جس نے دونوں ممالک کو فائدہ پہنچایا ہے۔
ہندوستان اور بھوٹان کے دوستانہ تعلقات میں چین ایک رقیب روسیاہ کی مانند
داخل ہوگیا ہے۔ اسکا معاملہ بھی بڑا دلچسپ ہے۔ دنیا میں 14 ممالک کے ساتھ
اس کی 22 ہزار 457 کلومیٹر لمبی سرحد ہے لیکن اس کے سرحدی تنازعات صرف
ہندوستان اور بھوٹان کے ساتھ ہیں۔ پہلے ہندوستان کے ساتھ بھوٹان کے تعلقات
بہت قریبی تھے اس لیے فکر کی کوئی بات نہیں تھی لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ
بھوٹان کا رخ تبدیل ہو رہا ہے۔ ہندوستان ان علاقوں میں چینی تعمیرات سے
انتہائی پریشان ہے لیکن بھوٹان کا اس پر اعتراض نرم پڑگیا ہے۔ اسی لیے
بھوٹان کے وزیر اعظم کا مذکورہ بیان غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوگیا ہے۔
ہندوستان کے ساتھ چین کا سرحدی تنازع ارونا چل پردیش اور لداخ میں بھی ہے
جہاں 2020 میں وادی گلوان کے اندر جھڑپ میں چار چینی اور 20 انڈین فوجی
مارے گئے تھے۔بھوٹان اور چین کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں ۔وہ دونوں
نئی دہلی میں اپنے سفارت خانوں کے ذریعے روابط رکھتے ہیں۔ پھر بھی چین کے
نائب وزیر خارجہ نے بھوٹان کا دورہ کرکے ہندوستان کی غیر موجودگی میں
ڈوکلام معاملے پر مذاکرات کیے اور14 اکتوبر 2021 کو سرحدی تنازعات حل کرنے
کے لیے ایک معاہدے پر دستخط بھی کردیئےتھے۔
چین اور بھوٹان کے مابین سرحدی معاملات پر بات چیت تو 1984 سے جاری ہے مگر
مودی جی کے امرت کال میں چینی سفارتکاری نے یہ اہم کامیابی درج کرائی اور
ہمارے وزیر خارجہ دیکھتے رہ گئے۔ اس لیے کہ انہیں پاکستان اور راہل گاندھی
سے فرصت ملے تو وہ کچھ کریں ۔ بھوٹان نے چونکہ چین کے ساتھ ہونے والے
تحریری معاہدے کو ظاہر نہیں کیا تھا اس لیے حکومتِ ہند نے چین اور بھوٹان
کے معاہدے پر محتاط ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے اس کا نوٹس لیا
ہے۔اس موقع تین اخبارات کے توسط سے سرکاری موقف سامنے آیا۔ حکومتِ ہند کے
حامی ہندی اخبار دینک جگرن نے لکھا کہ چین نے 2017 میں بھوٹان کے جنگی حکمت
عملی کے لحاظ سے اس اہم علاقے کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی تھی اس لیے
ہندوستان مذکورہ معاہدے کو غور سے دیکھ رہا ہے ۔ اس کے برعکس چین کے سرکاری
اخبار گلوبل ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا تھا کہ ہندوستان دو آزاد ممالک
کے درمیان ہونے والے معاہدے پر انگلیاں اٹھا کر اپنی تنگ نظری کا اظہار کر
رہا ہے۔ گلوبل ٹائمز کے مطابق ہندوستانی ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک
چھوٹے اور کمزور ملک کی خود مختاری کو کمزور کر رہا ہے۔ ان سرکاری تبصروں
سے قطع نظر دہلی کے موقر روزنامہ ہندوستان ٹائمز کی رائے تھی کہ ہندوستان
کی قومی سلامتی کے لیے بھوٹان بہت اہم ہے ۔ سلی گوری کوریڈور کا حوالہ دے
کر اس نے اس معاہدے کو خطے میں ہندوستان کے دفاع کو متاثر کرنے کے امکان کا
اظہار کیا تھا ۔
2017کے بعد سے ہونے والی پیش رفت گواہ ہے کہ ہندوستان اور بھوٹان کے
خوشگوار تعلقات کو چین مشکل بنانا چاہتا ہے۔اس مقصد میں اسے بتدریج کامیابی
بھی ملنے لگی ہے۔ وہ اب بھوٹان کے ساتھ آزادانہ طور پر اپنے سرحدی معاملات
حل کرنا چاہتا ہے ۔ بھوٹان بھی چینی خطرے کے ہندوستانی دعوے کو بھی مسترد
کرنےلگا ہے۔ایسے میں ہندوستان کا اپنے اتحادی بھوٹان کی فوجی تیاری میں
مددکرنا بلا واسطہ چین کا تعاون ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھوٹانی وزیر اعظم کے
تازہ انٹرویو کے بعد کانگریس کا مرکزی حکومت سے بھوٹان کے ساتھ ہندوستان کی
شراکت داری کو یقینی بنانے کی گزارش کی معقول معلوم ہوتی ہے۔ کانگریس جنرل
سکریٹری جئے رام رمیش نے دعویٰ کیا ہےکہ بھوٹان اور ہندوستان کے درمیان اب
تک کے اٹوٹ رشتوں کو جارح چین سے چیلنج مل رہا ہے۔ جئے رام رمیش نے سوال
کیا کہ مودی حکومت نے 2017 کے ڈوکلام معاملہ کو ایک بڑی جیت کی شکل میں پیش
کیا تھا مگر چین اس خطہ میں ایک غیر معمولی فوجی بنیادی ڈھانچہ کی تعمیر
میں مصروف ہے۔ اس لیے چین کی اس قولی ، جغرافیائی اور فوجی جارحیت کا جواب
مودی حکومت کب دے گی؟‘‘کانگریسی ترجمان نے وزیر اعظم سے گزارش کی کہ وہ
پردے کے پیچھے نہ چھپیں اور بھوٹان کے ساتھ طویل مدت سے چلی آ رہی شراکت
داری کو یقینی اور مضبوط بنائے رکھیں ۔
جی 20 کی صدارت فی الوقت ہندوستان کے پاس ہے۔آئندہ ستمبر میں دہلی کے اندر
ہونے والے جی 20 سربراہی اجلاس سے قبل حکومت نے ماحول سازی کے لیے 50 بڑے
شہروں میں درجنوں پروگرام طے کررکھےہیں۔اسی سلسلے کی ایک تقریب کا اہتمام
اروناچل پردیش میں ہوا جس میں پچاس سے زیادہ مندوبین نے شرکت کی، تاہم چین
اس میں شامل نہیں ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین اروناچل پردیش کو تبت کا ایک
حصہ مانتا ہے اوراس کا دعویٰ ہے کہ ہندوستان اس پر’’غیر قانونی طور پر قبضہ
کر رکھا ہے۔‘‘ جبکہ ہندوستان ایسے دعووں کو مسترد کرکے اروناچل پردیش کو
اپنا اٹوٹ حصہ قرار دیتا ہے۔جی ٹوینٹی کے دوران یہ تنازع بھی ابھر کر سامنے
آگیا۔ آج کل جی ٹوینٹی کے حوالے سے ملک بھر میں مودی جی کا ’ہنستا ہوا
نورانی چہرا نظر آتا ہے‘۔جی 20کے صفر میں مسکراتا ہوا کمل دکھاکریہ تاثر
دیا جاتا ہے کہ ہندوستان وشو گرو (عالمی استاد) بن چکا ہے لیکن اس تشہیر کے
پیچھے چھپی ہوئی سچائی یہ ہے کہ ملک سارے پڑوسی دشمن نمبر ایک چین کے ہمنوا
بن چکے ہیں۔ ایسے میں عالمی قیادت کا دعویٰ کھوکھلا نظر آتا ہے۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری )
|