یہ امریکی لوگ بھی بڑے عجیب ہیں۔ چھوٹی سی بات ہوتی
ہے اور اس بات کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں جب کہ ہم بتنگڑ کو بھی بات سمجھ کر
نظر انداز کر دیتے ہیں۔۔ بیگمات کا تحفے وصول کرنا وہاں کے کلچر کا حصہ ہے
۔ یہ کوئی ہمارے بیگمات جیسی تو نہیں کہ خاندان کے باہر بیگم کا بالکل بھی
کوئی واقف ہی نہیں اور کسی ناواقف سے بیگم کا ملنا بھی ہم گوارا نہ کریں کہ
ہمارے نزدیک یہ ایک برائی ہوتو ان حالات میں کیسے ممکن ہے کہ غلطی سے بھی
کوئی تحفہ آ جائے۔ مگر امریکہ کا کلچر تو بیگمات کو ملنے جلنے اور بہت کچھ
کرنے کی اجازت دیتا ہے تووہاں پر تحفوں پر پابندی کیسی۔کسی دوسرے کی بیوی
تو چیز ہی ایسی ہے کہ لوگ خوامخواہ تحفے دینا چاہتے ہیں اور پھر عورت اگر
با اثر ہو تو ہر آدمی اس کی خدمت کرنا چاہتا ہے مگر یہ میڈیا والے ، بس اﷲ
کی پناہ۔کسی کو مقدس جانتے ہی نہیں۔ امریکہ کے ایک صحافی اور سپریم کورٹ کے
رپورٹر جان بسکوپک نے ایک پوری کتاب چھاپ دی ہے جس میں اس نے بتایا ہے کہ
وہاں کے سپریم کورٹ کے جج جسٹس کلارنس تھامس کی اہلیہ جینی تھامس کے سیاسی
اور کاروباری شخصیات کے ساتھ تعلقات ہیں وہ ان سے تحایف وصول کرتی اور ان
کے لئے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ان کے ساتھی جج کھلم
کھلا کہتے ہیں کہ جسٹس کلارنس تھامس اپنی اہلیہ کے کہنے پر اکثر فیصلے کرتے
ہیں۔ مگر اس میں کیا برائی ہے انسان کو بہر حال دن کے اختتام پر گھر تو آنا
ہوتا ہے اور گھر کا خوشگوار ماحول تو اچھی زندگی کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔جج
صاحب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ بیگم کی بات نہ مان کر گھر کے ماحول کو تباہ
نہیں کیا جا سکتا۔ویسے بھی ان کی بیگم ایک وکیل ہیں اور ان سے قانونی
معاملات پر رائے لینا اور بات چیت کرنا تو بعض اوقات بہے ضروری ہوتا ہے۔
جسٹس کلارنس تھامس امریکہ کے دوسرے سیاہ فام جج ہیں جن کی عمر اس وقت 75
سال ہے اور وہ 1991 سے سپریم کورٹ کے جج ہیں اور موجودہ ججوں میں سب سے
سینئر ہیں۔انہیں جارج بش نے اس عہدے کے لئے نامزد کیا تھا۔ ان سے پہلے
تھرگڈ مارشل پہلے سیاہ فام جج تھے جنہوں نے 30 اگست 1967 کو بطور جج جائن
کیا اور وہ 1991 تک 24 سال سپریم کورٹ کے جج رہے انہیں صدر جانسن نے جج
نامزد کیا تھا۔دوسرے سیاہ فام جج جسٹس کلارنس نے 1991 میں جائن کیا اور ان
کی وجہ شہرت یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے بر عکس جرع کے دوران ملزموں سے
بہت کم سوالات کرتے ہیں، ان کا رویہ بھی جارحانہ نہیں ہوتا۔ان کاقول ہے،’’
اچھے آداب آپ کے لئے وہ دروازے بھی کھول دیتے ہیں جو اعلیٰ تعلیم بھی نہیں
کھول سکتی‘‘۔1971 تک قانون کا پیشہ اپنانے سے پہلے وہ پادری بننا چاہتے
تھے۔ ان کا تعلق عیسائیوں کے کیتھولک فرقے سے ہے۔انہوں نے پہلی شادی 1971
میں ایک سیاہ فام عورت کیتھی سے کی جس کو انہوں نے 1984 میں طلاق دے دی۔
1987 سے ان کی دوسری بیوی ورجینیا لیمپ ہیں جو عام طور پر جینی تھامسن
کہلاتی ہیں۔یہ ایک سرخ وسپید خوبصورت امریکن خاتون ہیں جو بنیادی طور پر
ایک وکیل ہیں اور ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔جینی تھامسن کے وسیع
تعلقات کاروباری اور سیاسی شخصیات سے ہیں۔
جسٹس کلارنس تھامس جج بننے سے پہلے دران سروس بھی بہت سے الزامات کی زد میں
رہے۔ لا سکول کی ایک سیاہ فام پروفیسرانیتا ہل ، جو ان کے ساتھ کام کرتی
رہی، نے ان پر جنسی ہراسگی کا الزام لگایا۔حال ہی میں انہوں نے خود اقرار
کیا کہ انہوں نے بہت سے مہنگے اور شاندار سفر کئے جن کے اخراجات مختلف
کاروباری حضرات نے ادا کئے۔وہ کہتے ہیں کہ ایسے سفر کرنے میں کوئی برائی
نہیں۔ آج کل کچھ لوگ ان کی بہت سی باتوں کو لے کر ان کے خلاف کام کر رہے
ہیں۔سابق سپیکر نینسی اور سینٹ کے رکن چک شومر نے ان سے مطالبہ کیا تھا کہ
وہ فلاں ایک بنچ کا حصہ نہ بنیں مگر انہوں نے انکار کر دیا2020 کے صدارتی
اور کیپیٹل میں ہنگاموں کے کیس سے جسٹس کلیرنس نے تمام تر احتجاج کو نظر
انداز کرتے ہوئے علیحدہ ہونا پسند نہیں کیا۔الزام یہی تھا کہ اس کی بیگم
جینی تھامس نے کچھ اشخاص سے خطیر رقم اور بہت سے تحائف وصول کئے ہیں، جس کی
وجہ سے عدالتی فیصلے پر وہ لوگ اثر انداز ہونگے ۔ مگر ہر احتجاج سے بے نیاز
جج صاحب نے بنچ میں شمولیت جاری رکھی۔جج صاحب کو شاید یہ اندازہ نہیں تھا
کہ بیگم جو کرتی ہے لوگ ان کے ذمے ڈال دیں گے حالانکہ وہ اس کے ذمہ دار تو
ہو ہی نہیں سکتے۔ جو بیگم کا ہے وہ ہر حال میں بیگم کا ہے۔انہیں یہ طریقہ
بھی نہیں آیا کہ تھوڑی سی محنت سے کسی ساتھی جج سے بیگم کے بارے فیصلہ لے
کر ساری دنیا کا منہ بند کیا جا سکتا ہے۔ یہ معمولی سی بات امریکہ کے ایسے
سادہ دل جج صاحبان کو سمجھ ہی نہیں آسکتی۔
دنیا میں ایک مشہور تنظیم ہے ورلڈ جسٹس پراجیکٹ جن کا کام اس ملک کی صورت
حال کا جائزہ لے کر وہاں انصاف کے حوالے سے ڈیٹا اکٹھا کرکے ان کی رینکنگ
کی ہے، وہ چار عوامل پر کا م کرتے ہیں۔
1 ۔قانون کے مطابق اس ملک میں ہر شخص کے لئے احتساب کا نظام ہو۔
2 ۔ قانون بڑا واضع، مشتہر اور مستحکم ہونا چائیے۔جو انسان کے بنیادی حقوق
اور جان اور مال کی حفاظت کا ذمہ دار ہو۔
3۔وہ تمام طریقہ کار جن سے قانون بنایا، اس پر عمل کیا جائے اورجس کے مطابق
فیصلے کئے جائیں، ہر انسان کی رسائی میں ہوں ، منصفانہ ہوں اور فوری عمل
کرنے والے ہوں۔
4۔متعلقہ حکام کو لوگوں کو ٹھیک اور صحیح انصاف کی شفاف فراہمی کواس طرح
یقینی بنایا جائے کہ تمام طبقوں کو انصاف ہوتا نظر آئے۔
اس معیار کے مطابق اس وقت پاکستانی عدالتیں کل140 ملکوں میں 129 ویں نمبر
پر ہے جب کہ امریکہ کانمبر اس وقت 26 واں ہے۔ امریکہ سے ہمارے برادرانہ
تعلقات تقریباً 70 سال سے ہیں۔یہ کیسے ممکن ہے کہ بھائی چارہ بھی ہو اور
انصاف کی فراہمی کے لحاظ سے امریکہ رینکنگ میں ہم سے بہت پیچھے رہ جائے۔
لوگ کہتے ہیں کہ امریکی عدالتیں انصاف کے معاملے میں بہت متحرک ہیں۔مگر
مسئلہ یہ ہے کہ انہیں ہم سے کوئی ایسی امید نہیں کہ ہم 129 میں کچھ رردوبدل
کر سکیں یا اسے بہتر کر سکیں۔اس لئے مجھے لگتا ہے کہ امریکی ججوں نے فیصلہ
کیا ہے کہ اس معاملے میں بھی وہ ہم سے پیچھے نہیں رہیں گے اور کوشش کریں گے
وہ 129 نا سہی مگر اس سے ملتی جلتی پوزیشن ضرور حاصل کر لیں۔ جسٹس تھامسن
کا رویہ اس سلسلے میں بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو گا اور دوسرے جج ان کی
پیروی کرتے ہوئے جلد ہی پاکستان کے ہم پلہ ہو جائیں گے۔ |