غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم اے جانِ وفا یہ ظلم نہ کر

دہلی میں فی الحال ستیہ پال ملک اور غلام نبی آزاد موضوعِ بحث بنے ہوئے ہیں۔ عربی اور اردو میں ملک کے معنیٰ بادشاہ کے ہوتے ہیں اور غلام کے معنیٰ ہندی اور سنسکرتی میں داس ہوتا ہے ۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ نریندر دامودر داس مودی کے یگ میں ملک غمگین و اداس اور غلام خوش و خرم ہے۔ملک اپنے نجی گھرکے اندر ایک پولیس افسر کے تحفظ میں ہے جبکہ غلام سرکاری مکان میں زیڈ پلس سیکورٹی سے محظوظ ہورہا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ غلام نبی آزاد نے اپنے انٹرویو میں اپنی مادرِ تنظیم کانگریس اور راہل گاندھی کو برا بھلا کہنے کے بعد تسلیم کرلیا کہ’ بالآخر مودی جیت گئے اور وہ ہار گئے‘۔ یہ سادہ سا اعتراف سرکاری مراعات کے لیے کافی ہے۔ اس کے برخلاف ستیہ پال ملک کا یہ کہنا کہ’’میں جب کسانوں کے معاملے کو لے کر وزیر اعظم سے ملنے گیا تومیری پانچ منٹ لڑائی ہوگئی ۔ اس وقت وہ بہت گھمنڈ میں تھے۔ میں نے کہا ہمارے پانچ سو لوگ مرگئے ۔ جب کتیا بھی مرتی ہے تو آپ چٹھی بھیجتے ہو۔ تو اس نے کہا ، کیا میرے لیے مرے ہیں وہ؟ انہوں نے کہا تم امیت شاہ سے مل لو۔ میں امیت شاہ سے ملا شاہ نے کہا ، مودی کی عقل کچھ لوگوں نے مار رکھی ہے ۔ تم بے فکر رہو کچھ دن میں سمجھ میں آجائے گا‘‘۔ شاہ جی کی بات درست نکلی، سمجھ آگئی اور کسان قانون واپس ہوگیا لیکن ستیہ پال ملک کے نام میں موجودستیہ یعنی حق گوئی اور بیباکی نے انہیں معتوب کردیا ۔ ملک پر ستم اور غلام پر کرم دیکھ کر ساحرلدھیانوی کا یہ نغمہ یاد آتا ہے؎
غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم،اے جان وفا یہ ظلم نہ کر
رہنے دے ابھی تھوڑا سا بھرم ، اے جان وفا یہ ظلم نہ کر

2004 سے ستیہ پال ملک بی جے پی کے اپنے ہیں۔ وہی ستیہ پال ملک جن کو آر ایس ایس کی کڑی مخالفت کے سبب اٹل بہاری واجپائی نے لوک دل سے نکلوا دیا تھا۔ انہیں پارٹی نے نکالنے کا کام چودھری چرن سنگھ نے کیا تھا جو ستیہ پال ملک کو اپنا سیاسی وارث کہہ چکے تھے۔ آگے چل کر چرن سنگھ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو واپس بلایاکر کہا’ اگر میں بہکاوے میں نہیں آتا تو تم اترپردیش کے وزیر اعلیٰ ہوتے‘۔ یہ گھر واپسی دیرپا نہیں رہی اور چرن سنگھ نے دوسری بار نکالا تو وہ کانگریس میں چلے گئے ۔ راجیو گاندھی نے ایوان بالا کا رکن نامزد کردیا۔ بوفورس کے معاملے میں کانگریس چھوڑ کر وہ وشوناتھ پرتاپ سنگھ کے ساتھ ہوگئے اور علی گڑھ سے انتخاب جیت لیا اور وزیر بن گئے۔ جنتا دل کے بعد انہوں نے سماجوادی پارٹی کے ٹکٹ دوبارہ علی گڑھ سے انتخاب لڑا اور چوتھے نمبر پر رہے۔ اس مایوسی کے عالم میں انہوں نے اپنے نظریاتی مخالف بی جے پی کے دروازے پر دستک دی تو بی جے پی نے انہیں چودھری چرن سنگھ کے بیٹے اجیت سنگھ کے خلاف لڑادیا اور پھر اترپردیش میں پارٹی کی صدار ت سونپ دی ۔اس طرح وہ قومی نائب صدر کے عہدے تک پہنچے مگر مودی جی نے انہیں داد نہیں دی ۔ اس بے رخی نےستیہ پال ملک کی جو حالت کی اس پر نغمہ کا اگلا بند صادق آتا ہے؎
ہم چاہنے والے ہیں تیرے ، یوں ہم کو جلانا ٹھیک نہیں
محفل میں تماشا بن جائیں،اس طرح بلانا ٹھیک نہیں
مر جائیں گے ہم مٹ جائیں گے ہم،اے جان وفا یہ ظلم نہ کر

رام ناتھ کووند کے صدر مملکت بن جانے سے ستیہ پال ملک کی قسمت کھلی اور انہیں بہار کا گورنر بنایا گیا ۔ اس کے بعد وہ جموں کشمیر ، گوا اور میگھالیہ کے گورنر ہوئے۔ میگھالیہ میں بی جے پی سے ان کا دل اچاٹ ہوگیا اور انہوں نے تینوں کئی متنازع بیانات دئیے۔ کسان تحریک سے متعلق بولے ’’سرکار کو ایم ایس پی (کم ازکم نرخ) کی یقین دہانی کرنی چاہیے ۔ میں کسانوں کی حمایت کرتا ہوں ۔ سرکار کو اگر میری بات سے کوئی دقت ہے تو میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے سکتا ہوں لیکن کسانوں کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا‘‘۔ گوا کے بارے میں وہ بولے ’’کورونا دور میں گوا کے اندر ہر معاملے میں بدعنوانی ہورہی تھی۔ میں نے وزیر اعظم کو یہ بات بتائی لیکن انہوں نے بدعنوانی میں ملوث لوگوں ہی سے پوچھ لیا‘‘۔ ستیہ پال ملک کا سب سے خطرناک انکشاف یہ تھا کہ ’’میں جب جموں کشمیر میں تھا تو میرے پاس دو فائلیں آئیں۔ ایک فائل انل امبانی سے جڑی تھی اور دوسری آر ایس ایس کے کسی قریبی کی تھی۔ مجھے یہ جانکاری دی گئی کہ ان فائلوں پر دستخط کرنے کے عوض 150-150 کروڈ دئیے جارہے ہیں اگر میں چاہوں تو مجھے دے دئیے جائیں گے۔ میں نے یہ بات وزیر اعظم مودی کو بتائی تو انہوں نے صاف منع کردیا۔ میں نے فائلوں پر دستخط نہیں کیے‘‘۔رافیل کا سودہ کرتے وقت انل امبانی کو وزیر اعظم کے ساتھ تھے اس لیے چونکانے والی بات نہیں لیکن آگے آر ایس ایس کا ذکر خطرناک تھا ۔

اس بیان کی خوبی یہ تھی کہ انل امبانی کا نام تولیا گیا مگر آر ایس ایس کےفرد کی نشاندہی نہیں کی گئی مگر’چور کی داڑھی میں تنکہ‘ کی مصداق اس وقت جموں کشمیر بی جے پی کے نگراں رام مادھو نے اس الزام کو ازخود اپنے اوپر اوڑھ لیا۔ اس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے رام مادھو بولے’’ میگھالیہ کے گورنر ستیہ پال ملک بلاواسطہ ان پر الزامات لگا رہےہیں کہ ایک فائل ان کے نام سے تھی جس سے متعلق کچھ روپیوں کی ادائیگی کی بات ہوئی تھی ۔ اس طرح کے سارے الزامات جھوٹے ہیں۔ میری جانب سے اس طرح کی کسی فائل کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ایک آر ایس ایس کارکن کا حوالہ دے کر میری جانب انگشت نمائی کی جو کوشش ہورہی ہے اس کے خلاف میں دہلی پہنچ کر قانونی چارہ جوئی پر مشورہ کروں گا‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ یقیناً عدالتی کارروائی کریں گے اورملک کے ذریعہ کیے جانے والےسارے سودوں کی تفتیش کروانا چاہتے ہیں تاکہ پتہ چلے کون سے سودے منسوخ ہوئے اور کیوں؟ وہ بولے میں اس سودے بازی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا لیکن سارے سودوں کی تفتیش ہونی چاہیے۔

رام مادھو آر ایس ایس کے ناموردانشور ہیں لیکن اس بچکانہ بیان نے سنگھ کی تربیت کا پول کھول دیا ۔ اول تو ان کو صرف اپنی لاعلمی پر اکتفاء کرکے تفتیش کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا لیکن قانونی چارہ جوئی کی دھمکی دے کر وہ پھنس گئے ۔ اس معاملے کو ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر گیا لیکن اس دوران قانونی چارہ جوئی یا تفتیش نہیں ہوئی ۔ یہ دال میں کالا ہونے کا کھلا ثبوت ہے۔ گورنر کی حیثیت سے ان پر اس وقت مقدمہ کرنا دشوار تھا لیکن سبکدوشی کے بعد بھی رام مادھو کا دُم سادھے بیٹھے رہنا شکوک پیدا کرتا ہے؟ ویسے اکتوبر کے اواخر میں رام مادھو کی ستیہ پال ملک کے ساتھ ملاقات کی خبر اخبارات کی زینت بنی تھی ۔ اس میں کہا گیا تھا کہ بی جے پی کے قومی جنرل سیکریٹری رام مادھو نے راج بھون میں گورنر ستیہ پال ملک کے ساتھ ملاقات کی اور ریاست میں امن امان کی بحالی کے علاوہ مساوی ترقی سے جڑے چیلنجوں پر تبادلہ خیال کیا ۔ رام مادھو نے گورنر کو ریاست میں پر امن بلدیاتی اداروں کے انتخابات منعقد کرانے کے لیے مبارک باد دی ۔ اس وقت ستیہ پال ملک گورنر کی حیثیت سے صدر مملکت کے تحت اپنی ذمہ داریاں ادا کررہے تھے ایسے میں آخر رام مادھو کو ان سے ملنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟یہ شمکل سوال ہے۔

جنتا پارٹی کے دوران پہلی بار مدھیہ پردیش میں سنگھ کے وریندر کمار سکلیچاوزیر اعلیٰ بنے اور بدعنوانی کے سارے ریکارڈ توڑ دئیے۔اس وقت کہا گیا کچھ ابن الوقت لوگ سیاسی جماعت میں آگئے ہیں مگر سنگھ پاک صاف ہے۔ ابھی حال میں جموں کشمیر کے اندر گرفتار ہونے والے کرن پٹیل کوسرکاری مراعات دلانے میں سنگھ کا ہاتھ سامنے آگیا۔ راجستھان کے سنگھ پرچارک ترلوک سنگھ نے اس جعلساز کے لیے راہیں ہموار کیں ۔کرن پٹیل کا کہنا ہے کہ وہ گجرات کے کسی سرمایہ دار کے لیے ٹھیکے حاصل کر دلالی وصول کرتا تھا۔ سوال یہ ہے وہ سرمایہ دار کون ہے کیونکہ فی الحال گجرات کا نام آتے ہی شک کی سوئی اڈانی کیا جانب گھوم جاتی ہے۔اس نے جموں کشمیر میں اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات کے علاوہ سرحد کے ساتھ کئی اہم مقامات کا دورہ بھی کیا۔کیا اسی لیے دفع 370کوختم کیا گیا ؟ کیا ا س سنگین کوتاہی کے لیےوزیر داخلہ امیت شاہ کو برخواست نہیں کیا جانا چاہیے؟ کیونکہ جموں کشمیر فی الحال مرکز کے تحت ہے۔ کرن پٹیل نے خود کو وزیر اعظم کے دفتر کا اعلیٰ عہدیدار بتا کرکے جموں و کشمیر میں زیڈ پلس سیکورٹی کور حاصل کرلی تھی ۔ پٹیل کو مودی جی کے نام پر زیڈ پلس سیکوریٹی، بولیٹ پروف ایس یو وی اور جموں کشمیر کے فائیو اسٹار ہوٹل میں سرکاری رہائش حاصل تھی جبکہ ان سب سے جموں کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک محروم ہیں ۔ غلام نبی آزاد اور کرن پٹیل سے بھی ان کی بدتر حالت پر اس نغمہ کا یہ آخری بندملاحظہ کیجیے؎
ہم بھی تھے ترے منظور نظر ، دل چاہے تو اب اقرار نہ کر
سو تیر چلا سینے پہ مگر ، بیگانوں سے مل کے وار نہ کر
بے موت کہیں مرجائیں نہ ہم ، اے جان وفا یہ ظلم نہ کر

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450700 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.